عظیم مدرس اور بلند پایہ محقق مولانا رشید احمد صاحب نور اللہ مرقدہ استاذ حدیث و تفسیر جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل

عظیم مدرس اور بلند پایہ محقق
مولانا رشید احمد صاحب نور اللہ مرقدہ
استاذ حدیث و تفسیر جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل
(ولادت: 4 شعبان 1379ھ مطابق 2 فروری 1960ع وفات: 14 ربیع الاول 1442 ھ مطابق 1 نومبر 2020ع)
*از قلم:راشد اسعد فاضل جامعہ ڈابھیل ثم ندوی امام و خطیب مسجد عمر فاروق ڈونگری ممبئی*
شوال سن 1420ھجری مطابق جنوری 2000 عیسوی کی بات ہے جبکہ راقم سطور کے عربی چہارم کے سال کا آغاز تھا؛ ابھی تعلیمی سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا مغرب کی نماز کے بعد سنتوں میں قیام قدرے طویل ہو گیا تھا یہاں تک کہ مسجد میں چند لوگ ہی رہ گئے تھے نماز سے فارغ ہو کر باہر نکلا تو دیکھا کہ حی الفلاح کی جانب دروازے کے پاس( جہاں سے اکثر اساتذہ مسجد میں آیا جایا کرتے ہیں) ہمارے دو رفقاء درس کھڑے ہیں میں نے پوچھا کہ یہاں کیوں کھڑے ہیں تو انھوں نے بتایا کہ جامعہ میں نئے استاذ کا تقرر ہوا ہے وہ?? پہلی صف میں بیٹھے ہیں ان سے ملاقات کرنا ہے؛ ملاقات کا اشتیاق مجھے بھی ہوا منتظرین میں میں بھی شامل ہو گیا تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک دراز قامت اور رنگ و روپ کے اعتبار سے سیاہی مائل اور چال ڈھال میں متانت و سنجیدگی لیے ہوئے، ہنستے مسکراتے چہرہ کے ساتھ ادھیڑ عمر شخصیت پر نظر پڑی رفقاء نے بتایا کہ یہی ہیں جو سامنے سے آ رہے ہیں سب سے پہلے راقم سطور ہی آگے بڑھا قبل اس کے کہ ہم سلام کریں نو وارد ہستی نے جن سے کبھی اس سے قبل ملاقات نہیں ہوئی تھی خود ہی سلام کرکے مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھا دیا اس طرح بلا مبالغہ بفحوائے
أتاني هواها قبل ان اعرف الهوى
فصادف قلبی خاليا فتمكنا
ان کی محبت دل میں گھر کر گئی بلکہ رچ بس گئی.
یہ شخصیت تھی ہمارے مرحوم و مغفور استاذ و مربی حضرت مولانا رشید احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کی
جامعہ ڈابھیل اپنی تاسیس کے یوم اول سے ہی اصحاب فضل وکمال کا مرکز رہا ہے، تاریخ کے ہر دور میں یہاں صاحبان علم وفن کی حسین کہکشاں قائم رہی ہے اور اہل ذکر و فکر کا خوش منظر دبستان سجا رہا ہے الحمد للہ تا ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے؛ اس دور قحط الرجال میں بھی ایک سے ایک ہیرے اور موتی ماہرین فن اساتذہ کی شکل میں مبدء فیاض سے جامعہ کو میسر ہیں جن کے بابرکت وجود سے آج بھی مسانید درس آباد و معمور اور مجالس ذکر وفکر جاری وساری ہیں جنہیں دیکھ کر بے ساختہ زبان پر *ایں خانہ ہمہ آفتاب است* آجاتا ہے
ہمارے مرحوم استاذ اسی کہکشاں کے ایک روشن ستارہ اور اسی دبستان کے ایک خوبصورت پھول تھے جس کی روشنی اور خوشبو سے جامعہ منور و معطر ہوتا رہا اور طالبان علوم نبوت اس روشنی اور خوشبو کو چہاردانگ عالم میں پھیلاتے اور بکھیرتے جا رہے ہیں اور بمصداق "علم ينتفع به،، مولانا مرحوم کی حسنات میں قابل رشک اضافہ کا باعث بن رہے ہیں
مولانا رشید احمد صاحب سے ہمیں نور الانوار، سفینۃ البلغاء، العقیدۃ الطحاویۃ اور ترجمہ قرآن کریم پڑھنے کی سعادت ملی ہے آپ کا طرز تدریس "ماقل و دل،، کا شاہکار تھا جو زبان زد خاص وعام بھی ہے نیز ان کے تلامذہ کے تاثرات ان کی ممتاز تدریسی صلاحیت پر شاہد عدل ہیں
مولانا مرحوم جہاں میدان تدریس و تعلیم کے شہسوار تھے وہیں تصنیف و تالیف اور تحشیہ و تشریح کے اسٹیج پر بھی نمایاں مقام پر فائز تھے یوں کہا جا سکتا ہے کہ *آپ کو تدریس و تصنیف دونوں پر یکساں عبور حاصل تھا*
چوں کہ پہلی ملاقات میں ہی راقم سطور کو مولانا مرحوم سے قلبی تعلق قائم ہو گیا تھا نیز میری سعادت کی بات ہے کہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ بھی بندے کو خصوصی توجہات سے نوازتے جس کی وجہ سے میں بکثرت آپ کے دولت کدے پر حاضر ہوتا اور استفادہ کرتا؛ جب کبھی طبیعت گھبراتی، وطن مالوف اور ماں باپ کی یاد ستاتی، یا حالات حاضرہ اور مسلمانوں کی زبوں حالی کی خبریں سن کر دل افسردہ ہوتا جس کی وجہ سے پڑھنے لکھنے میں دل نہیں لگتا تھا تو دوڑا دوڑا مولانا ہی کی خدمت میں حاضر ہوتا اور جو مسئلہ ہوتا سب کچھ کہہ ڈالتا اس پر آنجناب شفقت و مہربانی کے ساتھ اپنے مخصوص انداز تربیت اور دلنشیں طرز تکلم سے درد کا مداوا کرتے جس سے دل کا غم دور اور رنج کافور ہوجاتا
*تیرا چند لمحے بات کرنا = میرا دِن سنوار دیتا ہے*
مولانا مرحوم کی خدمت میں بکثرت حاضری دینے کا ہی نتیجہ تھا کہ مجھے ان کی تصنیفی و تحقیقی کام کو قریب سے دیکھنے کا اور ان سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا بلکہ کام میں ہاتھ بٹانے کی بھی سعادت نصیب ہوئی جس کی وجہ سے عربی ادب کی بیشتر کتابوں کی زیارت اور ان سے واقفیت حاصل ہوئی چنانچہ عربی ادب کی مشہور کتاب و مصدر "العقد الفريد،،جامعہ کے عالیشان کتب خانہ میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلا ہوا” شذرات الذھب فی اخبار من ذھب،، کا پرانا نسخہ اور "المستطرف فی کل فن مستظرف،، سب سے پہلے مولانا کے پاس ہی دیکھا اور ان سے قدرے استفادہ بھی کیا؛ یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ "نفحۃ العرب،، پر اپنا گراں قدر اور بیش قیمت کام انجام دے رہے تھے مجھے استاذ محترم مسودہ کی تبییض کا کام تفویض فرماتے اور بسااوقات مراجع و مآخذ کی طرف مراجعت کا بھی حکم دیتے (یہی تربیت آئندہ عملی زندگی میں راقم آثم کے لیے معاون اور مفید ثابت ہوئی فجزاه الله احسن الجزاء ) کوئی مرجع و مآخذ مل جاتا تو بہت خوش ہوتے اور اس پر انعام سے بھی نوازتے
اس کے علاوہ استاذ گرامی قدر مضامین املاء کراتے اور میں اسے ضبط تحریر میں لاتا، قابل ذکر بات یہ ہے کہ مولانا جو مضامین املا کراتے تو ان میں؛ اسی وقت جب دوبارہ سنتے یا پھر دوسرے دن اور کبھی کئی روز کے بعد بھی؛ رد و بدل کرتے جملوں کی تہذیب کرتے اور ان کی نشست و برخاست کو درست کرتے ایک دن میں نے دریافت کرلیا مولانا یہ صحیح تو ہے پھر کیوں تبدیل فرما رہے ہیں تو اس پر مولانا نے اپنی فائل سے ایک صفحہ نکالا جس پر مشہور مؤرخ عماد الدین اصفہانی کو قاضی فاضل الکاتب کی طرف سے ارسال کردہ عربی زبان میں چند جملے لکھے تھے جو پرورش لوح و قلم کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہیں وہ یہ ہے ??
*إني رأيت أنه لا يكتب إنسان كتاباً في يومه، إلاّ قال في غده:- لو غُيّر هذا لكان أحسن، ولو زيد كذا لكان يستحسن، ولو قدِّم هذا لكان أفضل، ولو تُرك هذا لكان أجمل، وهذا من أعظم العبر، وهو دليل على استيلاء النقْص على جملة البشر*
(میرا مشاہدہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص کوئی مضمون یا کتاب لکھتا ہے تو بعد میں اسے یہ احساس ضرور ہوتا ہے کاش کہ اس جملہ کو اس طرح تبدیل کردیتا تو اچھا ہوتا، یہ جملہ بڑھا دیتا تو زیادہ بہتر ہوتا، اگر اس جملہ کو پہلے لکھ دیتا تو عبارت کو چار چاند لگ جاتے، اگر یہ لفظ چھوڑ دیتا جملہ زیادہ خوب صورت لگتا اور یہ بڑی عبرت کی بات ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ عام انسان کی عبارتیں عیب و کمی سے خالی نہیں رہتیں)
پھر مولانا مرحوم دیر تک اس کی تشریح بھی فرماتے رہے اور پند و نصائح سے بھی نوازتے رہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو اپنے لکھے مضامین کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے اور اس عیب و نقص سے بالا تر نہیں سمجھنا چاہیے استاذ محترم کی یہ تربیت بھی راقم آثم کے لیے عملی زندگی میں مشعل راہ ثابت ہوئی اور اس سے بے انتہا فائدہ حاصل ہوا
*آمدم بر سر مطلب*
غرضیکہ مولانا موصوف اپنے تصنیفی کاموں کی خوب تنقید و تنقیح فرماتے اور اسے ظاہری و باطنی خوبیوں سے آراستہ فرماتے پھر جب وہ منظر عام پر آتی تو اسے خاطر خواہ مقبولیت حاصل ہوتی یہی وجہ ہے کہ زبان و قلم کے دھنی اور اقلیم علم و ادب کے عبقری حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی دامت برکاتہم اور علوم دینییہ کے عظیم شارح و مصنف بے مثال فقیہ و محدث مفتی سعید احمد پالن پوری نور اللہ مرقدہ اور دیگر اکابر امت نے آپ کی خدمات کو سراہا اور انھیں سند اعتبار عطا فرمایا علاوہ ازیں ملک کے مؤقر علمی و ادبی مجلات میں آپ کی کتابوں پر وقیع تبصرہ بھی شائع ہوا چنانچہ ماہنامہ "معارف،، اعظم گڈھ (جو ایک علمی تحقیقی اور ادبی ماہنامہ ہے) میں بڑے نپے تلے انداز میں مولانا کی خوبیوں کے اعتراف پر مشتمل آپ کی مقبول شرح ” مفتاح البلاغۃ شرح اردو دروس البلاغۃ” پر تبصرہ شائع ہوا
مولانا مرحوم صرف کتابوں کے محشی، مترجم، شارح اور محقق ہی نہیں بلکہ پختہ قلم کار اور بالغ نظر مضمون نگار بھی تھے، اپنی اس صلاحیت کو اصلاح معاشرہ کے لیے استعمال کرتے ہوئے وقتا فوقتاً فریضہ إنذار و تبشیر سے عہدہ برآ ہوتے رہے آپ کے مختصر پر اثر دو کتابچے *1)مصائب و محن کا علاج اور دعوت خود احتسابی قرآن و حدیث کی روشنی میں اور 2) فارغ التحصیل طلبہ کے لیے کام کی باتیں* بطور مثال پیش کیے جا سکتے ہیں؛ یہ کتابچے بطور خاص آخر الذکر کتابچہ تو نہایت چشم کشا اور فکر انگیز ہے ہر عالم و مدرس کو اس کو ضرور پڑھنا چاہیے علاوہ ازیں آپ نے اکابر و معاصرين کو خطوط بھی تحریر فرمائے ہیں بسا اوقات مولانا وہ خطوط مجھے دکھلاتے اور پڑھ کر سناتے بھی اور میں آپ کے ادبی جملوں پر سر دھنتا اور مولانا کی تعریف کرتے ہوئے کہتا کہ *مولانا! آپ کے زبان وقلم؛ کہیں سے بھی محسوس نہیں ہوتا کہ آپ کی مادری زبان گجراتی ہے* اس پر مولانا ارشاد فرماتے کہ مجھے چنے کے جھاڑ پر مت چڑھاؤ من آنم کہ من دانم
مولانا مرحوم و مغفور کتابوں کے سچے عاشق اور ان کے حقیقی قدر داں تھے؛ کوئی کتاب ان کو مل جاتی تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور اس خوشی کا اظہار بھی فرماتے چنانچہ ان کے والد بزرگوار مولانا موسی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے (جو ری یونین میں مقیم تھے)تفسیر کی مشہور کتاب "روح المعانی” بھجوائی تھی اس وقت ہمیں یاد ہے کہ مولانا صاحب بہت خوش ہوئے اور باقاعدہ ہمیں درس گاہ سے بلوا کر زیارت کرائی تھی اور اپنے والد بزرگوار کے لیے خوب خوب دعائیں کی تھیں اس شفیق و مہربان باپ اور نیکوکار فرزند کی ادائیں کیا قابل رشک تھیں واہ سبحان الله!
اسی طرح ایک مرتبہ مولانا کو دیر گئے رات میں جبکہ موسم سردیوں کا تھا مراجعت کے لیے امام نووی کی کتاب” الاذکار،، کی ضرورت پیش آئی میں موجود تھا وہاں, میں نے بتایا کہ طلبہ کی” النادی العربی،، کے مکتبہ میں ہے (جو جامعہ کی مسجد کے عالیشان مینارہ میں واقع تھا) اور اس کی چابی میرے پاس ہے فرط مسرت سے مولانا کا چہرہ تمتما اٹھا اور اپنے مخصوص لہجہ میں گویا ہوئے:” لے آؤ بھائی لے آؤ” حکم کی تعمیل کیا اور کتاب حاضر کردیا خوب دعاؤں سے نوازا اور بہترین لب سوز ولب دوز چائے سے تواضع بھی فرمائی.
یہ تذکرہ ناقص اور ادھورا رہے گا اگر میں مولانا کے ایک مخصوص عمل کا تذکرہ نہ کروں جس کا میں نے بارہا مشاہدہ کیا اور اس عمل سے کافی متاثر بھی ہوا بلکہ اب بھی رہ رہ کر یاد آتا ہے تو مولانا سے محبت و عقیدت میں اضافہ محسوس کرتا ہوں
مولانا مرحوم جب ادبی کتابوں کی طرف مراجعت کر رہے ہوتے یا کوئی مضمون یا ترجمہ املاء کرا رہے ہوتے اور اس دوران حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا نام نامی اور اسم گرامی آجاتا تو فورا سر پر ٹوپی رکھ لیتے اور پھر آپ کا نام مبارک زبان پر لاتے، واہ کیا عشق تھا ذات گرامی صلی اللہ علیہ وسلم سے، کیا ایسے شخص کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ مرگیا؟ نہیں! ہرگز نہیں بلکہ وہ زندہ جاوید ہے
*ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما*
Comments are closed.