جنات کا کوڑا! ظفر امام قاسمی

ہمارے مدرسے سے تقریباً نصف کیلومیٹر دور سڑک کے کنارے جھاڑیوں، چھوئی موئیوں اور آک کے درختوں کے بیچ ایک چھوٹی سی پختہ مسجد ہے، جہاں پر یہ مسجد قائم ہے وہاں کوئی ایسی مسلم آبادی نہیں ( بلکہ اس کے آس پاس صرف غیر مسلموں کے چند گھرانے ہیں اور اس سے تھوڑا سا آگے اس علاقے کی پولیس چوکی ہے، جہاں کے اکثر و بیشتر پولیس مینز غیر مسلم ہیں ) کہ اس مسجد کو اپنے سجدوں سے آباد کریں، بس کبھی کوئی اکیلا دکیلا راہ گیر ہی ہوتا ہے جو آکر اس مسجد میں اذان کی صدائیں لگاتا اور قرآنی نغموں کی لےریزی کردیتا ہے۔
میں چونکہ اس شہر میں اب تک نووارد ہی ہوں، ابھی مجھے یہاں آئے ہوئے دو ایک مہینے ہی ہوئے تھے کہ ملک گیر پیمانے پر لاک ڈاؤن کا پہرا لگ گیا، اس لئے مجھے اس مسجد کے اس ویران جگہ تعمیر کئے جانے کی اصل وجہ معلوم نہیں ہوسکی، اور یوں میں کم از کم پچھلے دس مہینوں سے اس مسجد کی تعمیر کے متعلق الجھن کا شکار رہا کہ جب وہاں سے قریب ہی مسلم آبادی کی جگہ کئی ایک مسجد موجود ہیں تو پھر اس مسجد کو وہاں تعمیر کرنے کا کیا مطلب کہ جس میں صحیح طور پر اذان بھی نہ ہوسکے؟
میرے اس الجھن کا حل مجھے پچھلے ہفتہ معلوم ہو گیا اور ساتھ ہی ساتھ اس مسجد کے متعلق میرے سامنے ایک ایسا سنسنی خیز انکشاف ہوا کہ میں تازندگی اس انکشاف کو اپنی یادوں کے صفحات سے مٹا نہیں پاؤنگا۔
ہوا یہ کہ پچھلے جمعہ کی صبح ہوا خوری کی غرض سے میرا اپنے ایک بے تکلف دوست کے ساتھ شہر جانا ہوا، میرا یہ دوست کافی عرصے سے ہمارے مدرسے میں خدمت انجام دے رہا ہے، چونکہ یہ مسجد شہر جاتی ہوئی سڑک کے ہی کنارے واقع ہے،جب ہم وہاں مسجد کے سامنے سے گزرنے لگے تو میں نے اپنے اس الجھن کا تذکرہ اپنے اس دوست کے سامنے کیا تو انہوں نے بتایا کہ در اصل یہ مسجد ہوسٹل کے بچوں کے لئے تعمیر ہوئی ہے، اور چونکہ ابھی ہوسٹل بند ہے اس لئے تم کو مسجد میں ویرانیت نظر آرہی ہے، مزید انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ کوئی جدید تعمیر شدہ مسجد نہیں، بلکہ کافی عرصے سے یہ مسجد یہاں پر موجود ہے۔
پھر وہ اچانک ایسے اچھل پڑا اور بے ساختہ اس کے قہقہے یوں بلند ہوگئے جیسے انہیں ماضی کا کوئی انتہائی سنسنی خیز اور قہقہہ انگیز واقعہ یاد آگیا ہو، اور ہوا بھی یہی تھا، ابھی میں قہقہے کی وجہ پوچھنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ وہ خود ہی بول پڑا کہ ” میرے والد، ان کے چچیرے بھائی اور ان کے ایک اور دوست کا اس مسجد کے ساتھ ایک انتہائی دلچسپ اور انوکھا واقعہ جڑا ہوا ہے“۔
میں تجسس کی نگاہوں سے اس کی طرف یوں دیکھا جیسے میرا من اس واقعہ کو سننے کے لئے بے قرار ہو رہا ہو، جب اس نے میری وہ متجسس حالت دیکھی تو اس نے آگے پورا واقعہ یوں سنایا کہ ” میرے والد، ان کے چچیرے بھائی یعنی میرے ایک چچا زاد چچا اور ان دونوں کے ایک کلاس فیلو دوست اکٹھے ہی اس ہوسٹل ( جو مسجد کے سے تھوڑا سا ہٹ کر ہی ہے) میں رہتے تھے، اور ہائی اسکول میں پڑھائی کرتے تھے، میرے چچا میرے والد اور اپنے دوست کی نسبت زیادہ محنتی اور پڑھنے لکھنے سے دلچسپی رکھنے والے تھے، جب رات گھپ اندھیری ہوجاتی اور سب سونے کی تیاری میں مصروف ہوجاتے، حتی کہ ہوسٹل کے کمروں میں موت کا سا سکوت طاری ہوجاتا تو میرے چچا اکیلے ہی لالٹین جلا کر اس مسجد میں آجاتے اور گئے رات تک اگلی صف میں کتابوں کی ورق گردانی اور ان کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف رہتے۔
ان کا یہ عمل ان کے دوستوں کو پسند آیا یا نہیں یا ان کے اس عمل سے انہیں چڑھ سی ہوگئی تھی یا کیا اس سے قطع نظر ان کے دوستوں کے دل میں انہیں ڈر کھلانے کی شرارتانہ ترکیب اپجنے لگی، طالب علمی کے زمانے میں شرارت کی نت نئی ترکیبیں اور ہڑمستیوں کے انوکھے ٹوٹکے تو ذہن میں آتے ہی رہتے ہیں، چنانچہ انہیں ڈرانے کی ایک خطرناک قسم کی ترکیب ان کے ذہنوں میں پیدا ہوگئی، جس پر انہوں نے عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کرلیا “
میرے دوست نے مجھ کو سنایا کہ ” اپنی اس ترکیب کو روبہ عمل لانے کے لئے میرے والد کے دوست اپنا گھر گئے اور کسی معمر قسم کے آدمی کا ایک اتنا لمبا تڑنگا پیراہن اٹھا لائے جو ان کے سر سے لیکر ٹخنوں تک ڈھانپنے والا تھا۔
اس کے چند دنوں کے بعد جب رات کی تاریکی چھائی، اور رفتہ رفتہ رات پرسکون ہونے لگی تو میرے والد کے محنتی بھائی حسب معمول کتابوں کا بستہ اٹھائے مسجد کی اگلی صف میں جاکر مطالعہ میں مصروف ہوگئے، یہ دھیان رہے کہ اس وقت مسجد کچی تھی اور اس کے ارد گرد اتنی چہل پہل اور آمد ورفت نہ تھی جتنی آج ہے بلکہ چاروں طرف جنگل جھاڑ کی چادر بچھی ہوئی تھی، اور نہ ہی بجلی بتی کا آج کی طرح اتنا اچھا انتظام تھا۔
پھر جب رات اپنے شباب پر داخل ہوگئی اور تقریبا رات کے بارہ بج گئے تو میرے والد کے اس دوست نے گھر سے لائے ہوئے اس دراز قد پیراہن کو آڑھا ترچھا کرکے گردن سے لیکر دامن کی پٹی تک کئی ایک جگہ مکمل طور پر پھاڑ دیا، ہیئت کسی پراسرار جیسی مخلوق کی بنا لی، بایں طور کہ منہ پر ایک صافہ لپیٹا، اور سر پر ایک بوسیدہ قسم کے کپڑے کی دستار اس طرح باندھی کہ اس کے جتنے حصہ کی لپٹ ان کے سر کے ارد گرد گھومی ہوئی تھی اسی کے مقدار سر کے نیچے کمر تک لٹک رہی تھی اور ہاتھ میں کپڑے کا بل دیا ہوا ایک کوڑا اٹھایا، اور اچانک مسجد کے دروازے سے اندر داخل ہوا، اور زناٹے کی آواز کے ساتھ دو کوڑا اس کی ( پڑھنے والے ) پیٹھ پر رسید کرتے ہوئے کہا کہ ” اگلی صف کل سے ہمارے لئے خالی رکھنا “ اور پھر اس کے فورا بعد وہیں نماز کی لمبی نیت باندھ لی۔
ادھر مضروب دوست ( مار کھانے والے دوست ) کی حالت دگر گوں ہوگئی، مارے ڈر کے اس کی حرکتِ قلب کافی تیزی سے گردش کرنے لگی،وہ اب نارمل نہیں رہے تھے بلکہ ان کو زبردست دلدلی بخار آگیا تھا،اسی بدحواسی اور خوف زدگی کے عالم میں انہوں نے اپنی کتاب سمیٹی اور کسی بھی طرح کمرہ پہونچ کر دو چار رضائی لیکر بستر پر پڑگئے، کمرے کے ساتھیوں نے اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے ان سے اس خوف زدگی کی وجہ پوچھی تو بس وہ اتنا ہی کہہ سکے کہ ” میری پیٹھ نے آج جنات کا کوڑا کھایا “ہے۔
وہ دن ہے اور آج کا دن، اس کے بعد کبھی بھی میرے والد کے چچیرے بھائی نے اکیلے مغرب کے بعد بھی کسی مسجد میں قدم نہیں رکھا “
میرا یہ دوست برسوں پہلے کا یہ سنسنی خیز اور دلچسپ واقعہ بڑے مزے سے مجھے سنا رہا تھا، اور میں تھا کہ ہنستے ہنستے شارع عام پر لڑھکنیاں کھا رہا تھا۔
ظفر امام، کھجور باڑی
دارالعلوم بہادرگنج
5/ نومبر 2020
Comments are closed.