BiharAssemblyElection2020 باجپٹی ودھان سبھا 27  شاید کے اتر جائے ترے دل میں میری بات محمد شمس عالم قاسمی

BiharAssemblyElection2020

باجپٹی ودھان سبھا 27
شاید کے اتر جائے ترے دل میں میری بات

محمد شمس عالم قاسمی
بہار میں دو مرحلے کی ووٹنگ مکمل ہو چکی ہے سات نومبر بروز سنیچر تیسرے اور آخری مرحلے کی ووٹنگ ہونی ہے
اس مرتبہ کے چناؤ میں ابھی تک جو رجحانات سامنے آئے ہیں اس سے یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ سیدھا مقابلہ مہاگٹھ بندھن اور این ڈی اے کے درمیان ہے
اس وقت ہم اپنے باجپٹی ودھان سبھا کے ملت کا درد رکھنے والی سنجیدہ احباب کی خدمت میں چند باتیں عرض کرنا چاہتے ہیں
جیسا کہ آپ سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ملک اور مسلم دشمن پارٹی بھاجپا حسب عادت صوبہ بہار میں بھی مکمل استحکام اور اپنے دم پر اکیلے حکومت سازی کیلئے کوشاں ہے اس کیلئے پس پردہ اس نے وزیر اعلی نتیش کمار کو بھی ٹھکانے لگانے کا انتظام کر چکی ہے تاکہ اسے اپنے مشن یعنی بھارت کو ہندو راشٹر بنانے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے، اس کا اپنا وزیر اعلی ہو جو اتر پردیش اور دیگر ریاستوں کی طرح بہار میں بھی کھل کر اس کے منشا کے مطابق کام انجام دے سکے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے اس نے چراغ پاسوان اور کشواہا کو پس پردہ میدان میں اتار دیاہے تاکہ سیکولر ووٹ کو تقسیم کیا جائے اور نتیش کمار اور مہاگٹھ بندھن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے
ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہمارے اور آپ کے ووٹ کی طرح ان کا ووٹ بینک مختلف امیدوار کے درمیان تقسیم نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ لوگ بڑی حکمت عملی کے ساتھ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرتے ہیں اور اپنے پسندیدہ امیدوار کی جیت کو یقینی بناتے ہیں
پندرہ سالوں سے باجپٹی کی نمائندگی کرنے والی موجودہ ودھائکہ ڈاکٹر رنجو گیتا اس مرتبہ بھی این ڈی اے کی امیدوار ہیں،لیکن پہلے کی طرح اونچی ذاتی یا بھاجپائی لوگ ان کو سپورٹ کرتے نظر نہیں آرہے ہیں نتیش کمار کو کمزور کرنے اور اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے کیلئے بی جے پی نے اس مرتبہ ان کی جگہ اپنی پسندیدہ اور سابقہ بھاجپا کی امیدوار ریکھا گپتا کو جتانے کا من بنا لیا ہے
ریکھا گپتا سابق بھاجپا منتری کشواہا جی کی راشٹریہ لوک سمتا پارٹی سے امیدوار ہے 2015 میں بھاجپا کی امیدوار تھیں اور 52000 ووٹ بھی ان کو ملا تھا اور وہ دوسرے نمبر پر تھیں جبکہ رنجو گیتا نے مہا گٹھ بندھن کے امیدوار کے طور پر67194 ووٹ حاصل کرکے تقریبا 17000 ہزار ووٹ سے جیت درج کی تھیں لیکن اس مرتبہ صورت حال بالکل مختلف ہے
دلچسپ بات یہ بھی ہے کشواہا اور مایاوتی کے اس گٹھ بندھن میں اویسی صاحب بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے ہمارے مجلس کے جذباتی نوجوان ریکھا گپتا کی سبھاؤں میں دری بچھانے کو اپنے لیئے فخر کی بات اور ان کے پرچار و پرسار کو دینی و ملی فریضہ سمجھ کر خوب محنت کر رہے ہیں

مہا گٹھ بندھن سے اس مرتبہ نوجوان نیتا مکیش کمار یادو میدان میں ہیں 2015 میں باجپٹی سے مہا گٹھ بندھن کو کامیابی ملی تھی اسی لیئے اس مرتبہ بھی امید کی جارہی ہے کہ اگر سیکولر ووٹ تقسیم نہیں ہوا تو ان کی جیت یقینی ہے

علاوہ ازیں لوک جن شکتی پارٹی سے ڈاکٹر انتخاب عالم صاحب بھی اپنی قسمت آزمارہے ہیں، یہ مودی کے ہنومان یعنی چراغ پاسوان کی پارٹی ہے جو بہار میں این ڈی اے سے باہر ہے، بھاجپا کو جتانے اور نتیش کمار کو ستہ سے ہٹانے کیلئے جدیو کے خلاف اپنے بہت سارے امیدواروں کو میدان میں اتار دیاہے تاکہ آسانی سے بھاجپا کی سرکار بن سکے، بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ کشواہا بھی اندرون خانہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم کروا کر بھاجپا کو فائدہ پہنچانے کا کام کر رہے ہیں

جناب انیس الرحمن عرف آرزو صاحب بھی پہلی بار چناوی میدان میں اترے ہوئے ہیں
یہ پپو یادو جی کی جن ادھیکار پارٹی سے ہیں جو پہلی بار بہار ودھان سبھا کا چناؤ لڑ رہی ہے

ان کے علاوہ سید نیاز احمد صاحب بھی اس دفعہ میدان میں ہیں اور مولانا عامر رشادی صاحب کی راشٹریہ علما کونسل پارٹی سے چناؤ لڑ رہے ہیں

نیز ان کے علاوہ اور بھی بہت سی چھوٹی پارٹیوں کے امیدوار، بہت سے آزاد امیدوار اس مرتبہ باجپٹی ودھان سبھا سے اپنی موجودگی درج کروا رہےہیں.
سیکولر ووٹوں کو تقسیم کروا کر کامیابی حاصل کرنا ہمیشہ سے بھاجپا کا طریقہ کار رہا ہے اور اس مرتبہ بھی وہ چاہتی ہے کہ زیادہ سے سیکولر ووٹ تقسیم ہو تاکہ اس کو زیادہ سیٹوں پر کامیابی ملے اور اپنے دم پر حکومت سازی کر سکے
لہذا باجپٹی ودھان سبھا کے تمام حضرات سے ہماری مودبانہ التماس ہے کہ اپنے ووٹوں کا صحیح استعمال کریں، بہار میں نئی سرکار بنانے اور فرقہ پرستوں کو اقتدار سے دور کرنے کیلئے سوچ سمجھ کر متحدہ طور اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں، غلط افواہوں پر دھیان نہ دیں، ہزار دو ہزار روپیوں کے عوض اپنے ووٹ اور ضمیر کا سودا نہ کریں، اپنے دینی و ملی مفاد کے حصول اور امن و امان کی بقاء، اور ایک خوش حال بہار کی تعمیر کیلیئے اپنے ایمانی بصیرت کے ذریعہ اپنے سیاسی قوت کا صحیح استعمال کرکے فرقہ پرستوں اور ملک دشمن عناصر کو دنداں شکن جواب دیں
فسطائی اور بھگوائی طاقتوں کو سبق سکھانے کا یہی سنہرا اور مناسب موقع ہے جو پانچ سال میں صرف ایک دفعہ ملتا ہے، اس ملک میں ہمارا ووٹ ہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے جس کا صحیح استعمال ہمارے لیئے بہت ضروری اور انتہائی اہم ہے!
پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی!

Comments are closed.