۔ ۔ بہار کے عوام تبدیلی چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ شادب انظار ندوی

۔ ۔ ۔ ۔ بہار کے عوام تبدیلی چاہتے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ شادب انظار ندوی
آج چناوں کا آخری چرن ہے جس کے بعد بہار کی قسمت کا فیصلہ 10 نومبر کو کیا جائے گا کے کون کرے گا بہار پر راج
حالانکہ لوگون کا جو پولنگ رجحان ہے وہ مہاگٹھ بندھن کے حق میں ہے وہ اس لئے کہ لوگ نئی سرکار لانا چاہتے ہیں ۔اس لیے کہ انہوں نے سب کو آزما لیا ہے بی جے پی کے بڑے بڑے وعدے فلاپ ہو گئے اور بی جے پی نے ملک کی معیشت کو ٹوٹل کنڈم کردیا یہاں تک کہ اس نے ہندوستان کو دکان بنا دیا اور ہر چیز کو بیچنے لگی اس سے تو لگتا ہے کہ پورے ملک کو ہی بھیج دے گی ایئرپورٹ کا سودا کر لیا بجلی بیچ ڈالی ریلوے کو بیچ دیا وہ سرکاری سسٹم جو عوام کاسہارا تھی جس میں غریب جنتا بآسانی جی لے رہی تھی اب اس کے لیے مرن ہو جائے گا ۔
جب سرکاری پراپرٹی پر کسی پرائیویٹ کمپنی کی اجارہ داری ہو جائے گی تو مہنگائی آسمان چھو لے گی اور ان لوگوں کے لئے جو غربت کےنشان سے بھی نیچے ہیں ان کے لئے زندہ رہنے سے بہتر اور آسان خودکشی ہو جائے گی اور ملک ہندوستان جمہوریت کی خوول سے نکل کر ہٹلر شاہی کے لبادے میں آجائے گا پھر ہندوستان کا وجود نہیں رہے گا دنیا میں متعارف ہونے کے لئے ۔اس بات کو بہت اچھی طرح سے ہندوستانی عوام سمجھ چکی ہے اور اس نے اپنا قدم آگے بڑھا بھی دیا ہے اس کی مثال اس بہار الیکشن میں نظر آرہی ہے ۔اوراسکی سب سے بڑی وجہ جو عوام کی رہی وہ گٹھ بندھن کو دھوکا دینا یعنی گھٹ بندھن سے الگ ہو جانا ۔ اگر نتیش کمار بی جے پی سے مل کر سرکار نہیں بتاتے اور آر جی ڈی کو دھوکا نہ دیتے پھر بہار کے مکھ منتری نیتیش کمار ہی ہو تے اس لیے کہ انہوں نے بہار کے لئے بہت کچھ کیا ہے اور لالو یادو کے بہار اور نتیش کمار کے بہار میں بہت فرق رہا ہے ۔
مگر اب لوگ بوڑھے کندھے سے بوجھ ہلکا کرنا چاہتے ہیں اور جوان امیدوار کو یہ ذمہ داری اور دینا چاہتے ہیں کے یہ بہتر کرے گا عوام کے لئے ملک کے لیے بہار کے لئے نئی لگن نئی امنگ کے ساتھ کام کریں گے اگر یہ بھی اپنے وعدے میں بی جے پی کی طرف کھوکھلے نکلے تو پانچ سال کے بعد زندگی میں دوبارہ کبھی اس میدان کے قابل نہیں رہیں گے عوام اب دلالوں کی دلالی پر ووٹ نہیں کرتی بلکہ وہ اب اپنے ووٹ کی اہمیت کو جانتے ہیں اور اب کی بار بھی اپنے ووٹ کو اس کی اہمیت کے اعتبار سے ہی کسی کو دیں گے ۔
پوری سمجھ داری سے اپنے ووٹ کا استعمال کریں کسی کے بہکاوے میں نہ آئیں
Comments are closed.