مولانا حسن الہاشمی دیوبندی علیہ الرحمہ کی ملی وسیاسی بصیرت ازقلم : عبد الرحمن چمپارنی

مولانا حسن الہاشمی دیوبندی علیہ الرحمہ کی ملی وسیاسی بصیرت

 

ازقلم : عبد الرحمن چمپارنی

 

درمیانہ قد، چال میں متانت، چہرے پر وقار، آنکھوں میں ذہانت کی چمک، اور تامل و تفکر کی جھلک، سر پر بال والی سیاہ و سفید کھڑی کشتی نما ٹوپی، رفتار میں سرعت، گفتار میں سنجیدگی، بھنویں گھنیری، درخشندہ چہرہ ،کشادہ پیشانی، بڑی بڑی آنکھیں جو ذہانت اور فہم وفہراست کی غماز تھیں، آنکھوں پر خوبصورت عینک، اوربڑا سا سر جو دماغوں اور خزانہ ہائے فکر و نظر سے بھرا ہوا تھا، حلم و بربادری، تواضع و انکساری کے پیکر، ایڈیٹر ماہ نامہ طلسماتی دنیا، ملی و سماجی مسائل میں اپنی منفر د رائے رکھنے والی دلکش و مقبول شخصیت جناب مولانا حسن الہاشی دیوبندی گذشتہ 4؍نومبر 2020 17/ ربیع الاول 1442 ھ کو اپنی جان جاں آفریں کے حوالہ کرگئے۔

*مولانا حسن الہاشمی ؒ کی ملی وسیاسی بصیرت*

مولانا حسن الہاشمی ؒ کو اللہ تعالی نے بہت ساری خوبیوں اور اوصاف سے نوازاتھا، آپ ؒ گوناگوں خصوصیات و امتیازات کے مالک تھے، آپ ؒ کی من جملہ امتیازات میں سے ایک ممتاز اور قابل قدر نگاہ سے دیکھے جانےوالی خصوصیت ملی وسیاسی خدمت ہے۔ آپ ؒ عہد حاضر کے ملی و سیاسی احوال وکوائف پر بھر پور بصیرت رکھتےتھے۔ آپ ؒ کی ملی و سیاسی بصیرت کا اندازہ ان بیانات سے لگا یا جاسکتا ہے جو آپ ؒ نے موقع بہ موقع، گاہے بگاہے دیئے، عوام الناس اور لوگوں کو اس سے باخبر کیا، جو مختلف اخبارات میں شائع ہوئے، جن کے اقتباسات پیش خدمت ہے!

آپ ؒ نے اپنے انتقال سے ٹھیک چار دن پہلے بہ تاریخ 30 ؍ اکتوبر 2020 ء بہ روز جمعہ کو فرانس میں سرکار دوعالم ﷺ کی گستاخانہ خاکہ پر مذمتی بیان دیتے ہوئے کہا تھا:

‘‘ سرکا ردوعالم ﷺ کو خود حق تعالی نے رحمۃ اللعالمین کا خطاب عطا کیا ہے۔ ہمارے ملک میں بیشتر ہندو مدبرین نے محمد ﷺ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور انہیں نبیوں میں سب سے بڑا نبی اور انسانوں میں سب سے بڑا انسان تسلیم کیا ہے، مولانا نے کہا جو لوگ ایسی عظیم شخصیتوں کے کارٹون چھاپ رہے ہیں، یا چھاپنے کی اجازت دے رہے ہیں وہ جنگل کے جانور کو بھی شرمندہ کررہے ہیں، ان کا علاج یہی ہے کہ ان کے ملک کی معیشت کے خلاف تحریک چلائی جائے اوران حیوانوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی جائے۔

دیکھئے (1) روزنامہ ہمارا سماج دہلی ، بہ روز جمعہ ، بہ تاریخ 30 ؍اکتوبر 2020ء

(2)روزنامہ صحافت دہلی ، بہ روز جمعہ ، بہ تاریخ 30 ؍اکتوبر 2020ء

لاک ڈاؤن کے دروان جب کرونا وائرس مہلک بیماری نے ہندوستان میں جنم لیا اور پھر اس سے حفاظت کےلیے لاک ڈاؤن نافذ کیاگیا، اس وقت آپؒ نے عوام الناس سے خصوصی دعاؤں اور عبادتوں کی ترغیب دیتے ہوئے کہا تھا:

‘‘ مسلم معاشرہ ہنوز ابتری کا شکار ہے، اور مسلم معاشرہ کی خرابیاں دن بہ دن بڑھ رہی ہے، لوگ کہتے م ہیں اس کی وجہ جہالت ہے، لیکن اس کی وجہ جہالت نہیں ہے بل کہ اس کی اصل وجہ خوف خداوندی کافقدان ہے۔ مولانا نے کہا کہ عبادتوں کا سلسلہ بہ دستور جاری ہے، نماز روزے میں کوئی کمی نہیں ہے۔ مولانا نے کہا سرکار پر تنقید کرنے اور افسران پر لعن و طعن کرنےکاسلسلہ بھی عروج پر ہے۔ کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن پر بحث و مباحثہ بھی اس دور کی ضرورت بنا ہوا ہے، لیکن اللہ کے عذاب و عتاب پر غورکرنے او راللہ کی پناہ میں آنےکی بات کوسوں نظر نہیں آتی’’۔

دیکھئے : اردو روزنامہ ہندنیوز دہلی ، ، بہ روز منگل بہ تاریخ 18 ؍ اگست 2020 ء

*سیاسی بصیرت پر ایک نظر*

یہ تھا آپ ؒ کا دینی وملی مسائل پر گہری نگاہ اور فکری بلندی کے حامل چند اقتباسات ،آپؒ کی سیاسی بصیرت کا اندازہ اس سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے، جب سی بی آئی عدالت نے بابری مسجد شہید کرنے والے مجرمو ں کو بری کردیا تو آپ ؒ نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئےکہا:

‘‘ بابری مسجد سی بی آئی عدالت کا فیصلہ بہت مایوس کن ہے، او رہ فیصلہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں قانون او رانصاف کے کھلے عام پرخچے اڑرہے ہیں اور عدالتوں کو فرقہ پرستوں نے یرغمال بنا لیا ہے۔ مولانا نے کہا بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا اور دنیا کی تاریخ میں بابری مسجد کو ‘‘ شہید ’’ لکھا جائے گا ، اورشہیدوں کو کبھی موت نہیں آتی وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور قاتلوں کو ہمیشہ مجر م ہی گردانا جاتا ہے ’’۔

اسی طرح آپ ؒ نے جب 5؍ اگست 2020ء کو رام مندر کا شیلانیاش ہوا تھا جس دن پوری امت مسلمہ نے یوم سیاہ منایا تھا، آپ ؒ نے پریس نوٹ جاری کہتے ہوئے کہا تھا

‘‘ برسہا برس پہلے جو فصل کانگریس نے بوئی تھی ، 5 ؍ اگست کو وہ فصل بھاجپا نے کاٹ لی اور وزیر اعظم بے شمار ہندوؤں کی نظروں میں سر خرو ہوگئے۔ مولانا نے کہا کہ ہمیشہ کی طرح سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو دھوکہ دیا اور مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے۔ مولانا حسن الہاشمی ؒ نے کہا تھاکہ آنجہانی پنڈت نہرو نے مسلمانوں کے ساتھ نفرت کا جو بیج بویاتھا اس کے پھل بھاچپا کے حصے میں آئے، اور اللہ کے گھر کو منہدم کرنےکی سزا کانگریس کو جو ملی اسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ مولانا ؒ نے کہا تھا کہ ہم باربار کہہ چکے ہیں کہ سیکولرزم ایک دھوکہ ہے او رمسلمانوں کو اس سیکولرزم سے دور بھاگنا چاہئے۔ مولانا ؒ نے کہا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملت کے تمام افراد بشرطیکہ انہیں ملت سے ہم دردی ہو آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور اپنے مذہب اور اپنی قوم کے لیے کچھ کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔ مولانا نے کہا کہ سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کا استعمال کرتی ہیں، انہیں مسلمانوں سے نہ کل ہمدردی تھی نہ آنے والے کل میں ہمدردی ہوگی، ان پارٹیوں کا بائیکاٹ اب ضروری ہوگیا ’’

دیکھئے : روزنامہ ہمارا سماج دہلی ، بہ تاریخ 6؍ اگست 2020ء

یہ چند اقتباسات مولانا حسن الہاشمی نوراللہ مرقدہ کی ملی سماجی و سیاسی بصیرت کی خوب ترجمانی کرتی ہیں۔ مولانا اب اس دنیا میں نہیں ہے لیکن آپ کی جرات اور آپ کے فراست کو سامنے رکھ کر مستقبل کیلئے بہترین لائحہ عمل طے کیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالی انہیں غریق رحمت فرمائے اور اعلی علیین میں مقام عطافرمائے آمین۔

Comments are closed.