امریکہ کا گنجلک صدارتی انتخاب- محمد صابر حسین ندوی

امریکہ کا گنجلک صدارتی انتخاب-
محمد صابر حسین ندوی
7987972043
امریکہ کی جمہوریت بہت قدیم ہے، چنانچہ اس کے بنیادی ڈھانچے میں بھی قدامت پائی جاتی ہے؛ بلکہ اسے ایک گنجلک داستان کہہ سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اکثر اسے اسے اپنے انتخابی نظام کر لیکر تنقیدوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، کچھ سالوں پہلے باقاعدہ تحریک اٹھی جو اس بات کا مطالبہ کرتی تھی کہ انتخابات کے طور و طریق میں بدلاؤ لایا جائے، مگر وہ اپنی روایات پر قائم ہیں، ان کا ماننا ہے کہ وہی جمہوری حکومت کے بانی اور بابائے عالم ہیں، اس سوچ نے پچھلے بیس سالوں میں پھر اس دفعہ وہاں انتخابی نتائج میں دقتیں پیدا کردی ہیں، یہ بات اگرچہ سچ ہے کہ جون بائیڈن اب تقریباً وائٹ ہاؤس کے قریب ہیں؛ لیکن آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ اب تک معاملہ الجھا ہوا ہے؟ نیز کیسے کوئی کم ووٹوں کے باوجود صدر بن سکتا ہے اور اب ٹرمپ اتنے چراغ پا کیوں ہیں؟ دراصل امریکہ میں صدارتی انتخابات بلاواسطہ نہیں ہوتے؛ بلکہ یہ بالواسطہ ہوتے ہیں، اس طریقہ کار کو Electoral college کا نام دیا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے لوگوں کا ایک گروپ یا پھر الیکٹس، اس جماعت کا متحدہ کام ہوتا ہے کہ وہ صدر منتخب کریں، یوں سمجھیں کہ یہ گروپ صدر کا نمائندہ ہوتا ہے، جو خاص خاص علاقوں میں صدارتی امیدواروں کی نمائندگی کرتا ہے، انہیں ووٹ دینا گویا صدر کو ہی ووٹ دینا ہے، امریکہ کے ہر صوبے میں آبادی کے تناسب سے الیکٹس کی تعداد تقسیم کردی جاتی ہے، وہاں کل الیکٹس ١٩٩٢ کے مطابق ٥٣٨/ ہیں، اکثریت حاصل کرنے اور صدر بننے کیلئے ٢٧٠/ کی ضرورت ہوتی ہے، کیلیفورنیا میں ٥٥/ اور ٹکساس میں ٣٣/ الیکٹورل ووٹر ہیں؛ تاہم امریکہ میں سب سے اہم صوبہ فلوریڈا ہے، جہاں ٢٩/ الیکٹورل ووٹر ہیں، اس کے متعلق سو سالہ تاریخ ہے کہ جس نے اس صوبہ پر کامیابی پائی وہی صدر بنا ہے، مگر عموماً ہوتا یہ ہے کہ زیادہ تر صوبوں میں جو مشہور ووٹوں کو پالیتا ہے، اسے اس صوبے کے سارے الیکٹس حمایت دے دیتے ہیں؛ اس لئے ممکن ہے کہ کسی کو صدارتی انتخاب کے دوران ملک بھر میں کم ووٹ ملیں؛ لیکن الیکٹسز کا ساتھ ملنے کی وجہ سے وہ صدر بن جاتا ہے، یہ انتخابی طریقہ تقریباً دو سو سالوں سے رائج ہے، پچھلی صدیوں میں تو ایسی نوبت نہیں آئی؛ مگر سنہ ٢٠٠٠ کے انتخابات میں یہی صورت حال دیکھنے کو ملی تھی، بلکہ اس کی سب سے بڑی مثال ٢٠١٦ کی ہے، جب ڈونالڈ ٹرمپ اور ہلیری کلنٹن کے درمیان زبردست انتخابی جنگ چلی، ایسا لگتا تھا کہ ہلیری جیت جائیں گی، اپنی سوچ اور بہتر لائحہ عمل کی وجہ سے لگ بھگ یہ سمجھا جارہا تھا کہ ان کی فتح زیادہ قریب ہے؛ لیکن وہ صدر نہ بن سکیں، اور ان کی جگہ پر ڈونالڈ ٹرمپ صدر بن گئے حالانکہ انہیں ہلیری کلنٹن سے تیس لاکھ کم ووٹ ملے تھے، اس کی وجہ یہی تھی کہ الیکٹسز نے ان کی حمایت کردی تھی۔
اس وقت بھی عالم یہی ہے کہ بائیڈن اکثریت تک پہنچنے والے ہیں، ٹرمپ ان سے بہت پیچھے رہ چکے ہیں، لیکن چونکہ وہاں کے جمہوری نظام میں اتنے رخنہ ہیں کہ کہیں نہ کہیں سے راہ نکل سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ اپنی مجنونانہ کیفیت میں جو بن سکے کر گزرنے کو تیار ہیں؛ بلکہ اندیشہ تو یہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ خانگی افرا تفری اور انتشار بھی ہوسکتا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق انتخابی مہم سے کچھ ماہ پہلے سے عام مستعمل ہتھیاروں کی خریداری بڑھ گئی ہے، اندازہ ہے کہ کوئی بھی صدارتی حلف اٹھائے، انتشار ضرور ہوگا؛ ویسے ٢٠/جنوری ٢٠٢١ کو ہی صدارتی حلف اٹھایا جائے گا، اس سے پہلے ٹرمپ بہت کچھ کرنے والے ہیں، وہ لگاتار انتخابی طریقہ کار پر انگلی اٹھا رہے ہیں، ان کے بیٹے نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ یہ ظاہر کریا ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی پوری تیاری کر لی ہے، اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ امریکہ میں بھی ٹرمپ نے سرکاری اتھارٹی پر ڈاکہ مار رکھا ہے، اور اپنی فکر کے حاملین کو جگہ دے رکھی ہے، ان کے پاس جہاں کئی اعتراضات ہیں ان میں سے ایک اعتراض postal ballot یعنی ڈاک کے ذریعے ووٹنگ پر ہے، ان کا یہ ماننا ہے کہ اس کے اندر دھاندلی ہوئی ہے، جبکہ چناؤ کمیٹی کا کہنا ہے کہ ہم نے ہر طرح کی ممکنہ اشکالات پر نگاہ رکھی ہے، اور پورے احتیاط کے ساتھ ووٹنگ سلپ بھی بھیجی ہے، اگر یہ بات عدالتی داؤ پیچ میں الجھتی ہے تو یقیناً امریکہ کیلئے رسوائی کی بات ہوگی، اسی بنا پر اب ایک بڑا طبقہ ٹرمپ کی مخالفت کرنے لگا ہے، خاص طور پر میڈیا ان کے خلاف ماحول بنا رہی ہے، حتی کہ ایک خطاب کے دوران من گھڑت باتیں کہنے کی وجہ سے ان کی تقریر کا نشر ہی روک دیا گیا تھا؛ بات دراصل یہ ہے کہ ٹرمپ اس کی آڑ میں ووٹنگ کی گنتی ہی بند کروانا چاہتے ہیں، وہ تو پہلے ہی اپنی فتح کا اعلان بھی کر چکے ہیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو ممکن ہے کہ بال کی کھال نکالی جائے گی، اور نام، اسپیلنگ، القاب اور متعدد باریکیاں ڈھونڈ کر ووٹ کو ردی کی ٹوکری میں ڈلوایا جائے گا، اگر یہ ہوجائے تو پھر ٹرمپ کیلئے کوئی راہ نکل سکتی ہے، خیر جو بھی ہو اتنا تو طے ہے کہ قدیم جمہوریت اور انتخابات میں صفائی کا دعویٰ کرنے والے بھی دودھ کے دھلے نہیں ہیں، دھاندلی وہاں بھی ہوتی ہے، مگر ساتھ ہی غالب گمان ہوچکا ہے کہ ٹرمپ صرف ہاتھ پیر مارتے ہیں رہ جائیں گے اور بائیڈن نئے صدر کا حلف اٹھا لیں گے۔
Comments are closed.