ظفرالاسلام ملک دشمن کیسے ہو سکتے ہیں؟ شکیل رشید

ظفرالاسلام ملک دشمن کیسے ہو سکتے ہیں؟
شکیل رشید
ظفر الاسلام دہلی کے باسی ہیں اور میں ممبئی کا رہنے والا، دونوں ہی شہروں کے درمیان ایک بڑا فاصلہ ہے جسے بار بار طے کرنا ممکن نہیں ہے، اسی لیے بار بار ملنے کی خواہش کے باوجود میری ان سے بس چند ہی ملاقاتیں ہوسکی ہیں، وہ بھی جب وہ ممبئی آئے ہیں ۔ ہر ملاقات کے بعد مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ ان کا دل ملک، قوم اور ملّت کے لیے دھڑکتا اور تڑپتا رہتا ہے ۔ کسی کو اگر بلا وجہ ستایا جا رہا ہو تو وہ اس کی مدد کے لیے نتائج کی پرواہ کیے بغیر کود پڑتے ہیں ۔ دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں گرفتار مسلم نوجوانوں کے لیے انہوں نے اپنے پندرہ روزہ انگریزی اخبار ملّی گزٹ کا جو مثبت استعمال کیا تھا اس سے کون ناواقف ہوگا! معاملہ پولیس مظالم کا رہا ہو، وقف املاک پر ناجائز قبضہ جات کا یا مسلمانوں کے سماجی، تعلیمی، مذہبی مسائل رہے ہوں ظفرالاسلام ہر ایک موضوع پر بولتے رہے، حکام کی توجہ مبذول کراتے اور ممکنہ حد تک جاکر مسائل کے حل نکلواتے رہے ہیں ۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ ان یرقانی چہروں کو، اپنے اشاعت گھر فاروس میڈیا کے پلیٹ فارم سے، انگریزی، ہندی، مراٹھی، گجراتی اور انگریزی زبان میں انتہائی تحقیقی کتابوں کو شائع کر کے اجاگر کرنا ہے، جو ملک، قوم اور اقلیت بشمول مسلم اقلیت کے لیے ناسور ثابت ہو رہے ہیں یا ناسور ثابت ہو سکتے ہیں ۔ ہندو دہشت گردی کا پردہ فاش کرنے والے اعلیٰ پولیس افسر ہیمنت کرکرے کی موت پر پڑے پردے انہوں نے…. ہیمنت کرکرے کے قاتل کون؟… نام سے چھپنے والی کتاب میں اٹھائے ہیں ۔ یہ کتاب ایک اعلیٰ ریٹائرڈ پولیس افسر ایس ایم مشرف نے لکھی ہے اور ڈاکٹر ظفرالاسلام نے اسے پوری ہمت سے شائع کیا ہے ۔ یہ کتاب ہندو دہشت گردی کو مکمل طور پر عیاں کرتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کے ادارے سے آر ایس ایس، گولوالکر اور ہیڈگیوار وغیرہ پر بھی کتابیں شائع ہوئی ہیں، ظاہر ہے یہ کتابیں یرقانیوں کی آنکھوں میں خار کی طرح چبھتی ہوں گی ۔ یہی نہیں ڈاکٹر صاحب نے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیرمین کی حیثیت سے جو کام کیے وہ بھی فرقہ پرست حکام کے گلے سے اترنے والی کہاں تھیں ۔ فساد، فرقہ وارانہ جھڑپ اور تشدد پر بازپرس کرنا ڈاکٹر صاحب کے کام کا حصہ تھا ۔ دہلی فساد پر بھی انہوں نے قصورواروں کے خلاف آواز بلند کی تھی ۔ لوگ کہہ ہی رہے تھے کہ یہ یرقانی انہیں بخشیں گے نہیں، اور ایسا ہی ہوا ۔ پہلے تو ان پر سیڈیشن کا معاملہ بنایا گیا جو شرمناک تھا کیونکہ ظفرالاسلام نے بیرون ممالک میں بھارت کے پرچم کو لہرانے کے لیے کافی کوششیں کی ہیں بالخصوص عرب ممالک میں ۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر پاکستانی پروپیگنڈے کا بھی عرب ممالک میں بھرپور جواب دیا ہے، لہذا ان پر سیڈیشن یا بغاوت کا معاملہ فہم سے بالاتر ہے ۔ اور اس سے بھی زیادہ سمجھ میں نہ آنے والی بات ان کے ٹھکانے پر این آئی اے کا چھاپہ ہے ۔ الزام ہے کہ ظفرالاسلام کے چیریٹی الائنس نامی این جی او کو جو فنڈ ملتا رہا ہے وہ اسے امدادی کاموں میں خرچ کرنے کی بجائے کشمیری علیحدگی پسندوں کو بھیج رہے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب اس الزام کی تردید کر چکے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ کہ یہ انہیں دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں ملوث کرنا چاہتے ہیں ۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو ۔ لیکن افسوس کہ ان دنوں مسلم ادارے نشانے پر ہیں اور کوئی اس کے خلاف آواز اٹھانے کو تیار نہیں ہے ۔ یقیناً ظفرالاسلام کایہ کہنا درست ہے کہ مسلم تنظیموں پر چھاپوں کا مقصد ملت کی ہمت شکنی اوراس کے نمائندوں کو دبانا ہے ۔ حکومت سے استدعا ہے کہ وہ ظفرالاسلام جیسی شخصیات کو، کہ وہ سرکاری پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتی ہیں، دبائیں نہ، بلکہ مثبت تنقید برداشت کریں ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے ان چھاپوں کی مذمت کی ہے، پوری قوم کو چاہیے کہ وہ تشویش کا اظہار کرے اور ظفرالاسلام و دیگر کے ساتھ وقت آنے پر کھڑی رہے ۔
Comments are closed.