میرا پہلا ووٹ کس کو….. شوکت علی دربھنگوی

میرا پہلا ووٹ کس کو…..

 

شوکت علی دربھنگوی

 

زیور علم سے آراستہ ہونے کیلئے وطن مالوف سے ہمیشہ دور رہا اسی وجہ سے بہار الیکشن کے ودھان سبھا اور لوک سبھا چناؤ میں اپنی حصہ داری دینے سے اب تک محروم رہا تھا۔

اس کووڈ ١٩( کورونا وائرس) نے بہت سے لوگوں پر مختلف قسم کا اثر چھوڑا ہے۔ کسی کی زندگی میں مصیبت کا سامان بن کر آیا تو کسی کی زندگی میں نئی صورت اور جدید تخیل کو پیدا کیا۔ کسی پریوار میں جدائی اور مفارقت کا ذریعہ بنا تو کسی خاندان میں ایک جگہ سب کو جمع کرنے میں معاون رہا۔ مدارس اور یونیورسٹیوں کے بند ہونے کے سبب ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع میسر ہوا اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری۔

اسی درمیان بڑے ہی دم خم اور شد و مد کے ساتھ بہار ودھان سبھا کے چناؤ نے اپنی آمد درج کروائی، ساتھ ہی تمام پارٹیاں بھی کروفر کے ساتھ عوام کے بیچ اتری، ہر پارٹی جیت کا سہرا اپنے گلے میں باندھنا چاہتی تھی اپنے اپنے وعدوں اور منشور کے ساتھ عوام کو اپنے اپنے دامن میں لینا چاہتی تھی۔

کوئی پارٹی راشٹر واد، چین اور پاکستان کے نعرے سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کی کوشش کررہی تھی تو کوئی سیکولرازم کا کارڈ کھیل کر گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار بن رہی تھی اور کوئی پارٹی یکطرفہ مسلمانوں کے مسائل کو اٹھا کر اقلیت کا ہمدرد اور مسیحائی کا ثبوت دے رہی تھی۔ غرضیکہ ہر پارٹی اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا راگ الاپ رہی تھی۔

بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی تذبذب کا شکار تھا۔ دماغ میں کئی طرح کے سوالات جنم لے رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا وہ بہار جو تعلیم کے میدان میں ہمیشہ آگے رہا جس نے ہندوستان اور دنیا کو کئی انقلابی شخصیات دیئے، اسکا بار گراں اٹھانے کیلیے کس کا کاندھا زیادہ لائق ہے۔ یہاں کی زرخیزی کو گل سر سبد بنانے کیلئے کس کو ذمہ داری دی جائے۔ وہ کونسی پارٹی ہے جو منافرت کی تخم ریزی نہ کرکے فصل گل سے بہار کو خوبصورت بنائے گی۔ وہ کونسی پارٹی ہے جو ترقی کے خواب کے تانے بانے کو پورے بہار میں پھیلائے گی۔ وہ کونسی پارٹی ہے جو تعلیمی اور سواستھ کو بنیادی اور بیسک سمجھ کر اسمیں بہتری لائے گی۔ وہ کونسی پارٹی ہے جو افسر شاہی اور کرپشن کو بہار سے ختم کرے گی۔ وہ کونسی پارٹی ہے جو بیروزگاری کی ساکن سطح میں ترقی کے حوالے سے تلاطم پیدا کرے گی۔ وہ کونسی پارٹی ہے جو بہار کی فلاح و بہبود کیلئے بہتر رہے گی۔ وہ کونسی سیاسی جماعت ہے جو غنڈہ گردی اور فرقہ پرستی کے خول کو اتار پھینکے گی۔ وہ کونسا وزیر اعلیٰ ہے جسکی سربراہی میں بہار کی بیٹی اپنی زندگی کا سفر بے خوف ہوکر طے کرے گی۔ وہ کونسا مکھ منتری ہے جو نوجوانوں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریگا۔ وہ کون ہے جو لوٹ مار اور چھین چھپٹ پر ضرب لگائے گا۔ وہ کون ہے جو مضمحل اور لاچار سسٹم اور کھنڈر نما اسکول و کالج کو درست کرے گا اور بھی سوالات اسی رفتار سے ذہن میں گونجتی رہے اور جواب کا دروازہ ہر سوال پر بند ہوتا رہا۔

کئی میٹنگیں کی اور کئی علاقوں کو روندا تاکہ عوام کا رجحان معلوم کر سکیں اور ووٹ کو منتشر ہونے سے بچا سکے اور ایک اچھے سیاسی لیڈر کا انتخاب کرسکیں

کیونکہ یہ چناؤ اپنے آپ میں بہت اہم تھا فرقہ پرست طاقتیں پوری قوت کے ساتھ داؤ کھیل رہی تھی۔ مسلمانوں کی اجتماعی حیثیت کو کمزور کرنے کیلئے ہر حربہ آزما رہی تھی۔ ایک ہی حلقہ میں چودہ پندرہ امیدوار اتار کر اپنی جیت کو آسان تر بنانے کی کوشش کررہی تھی۔

ہر دور کی طرح اس دور کا بھی منافق اپنے ضمیر کو بیچ کر ظالم کیلیے راہ ہموار کررہا تھا۔ چند کھنکھناتے سکوں کی خاطر ملت فروشی کا ثبوت اور ایمان کا سودا کررہا تھا اسلئے اس بار عوام کو بہت ہی حساس اور بشاش ہوکر EVM پر بٹن دبانا تھا۔

قسمت آزمانے والے ودھایک کی طرح ہم بھی ووٹنگ کی متعینہ تاریخ کا انتظار کررہے تھے، اسی اثنا میں کئی سرکاری ملازموں سے بھی سامنا ہوا ہر کوئی اپنے اپنے مشغلے کو لیکر حاضر ہوتا اور ضروری کاروائی پوری کرنے کیلیے یاد کرتا۔

ووٹنگ سے ایک دن پہلے کئی نیتاؤں کا ورود اور حواریوں کا ظہور ہوا انتھک محنت اور پوری طاقت جھونک کر اپنے سیاسی سورج طلوع کرنے کی سعی کرریے تھے۔ خوشگوار شاموں کے نزول نے سیاسی جماعتوں کے ماتھے پر پریشانیوں کی لکیریں ثبت کردی تھی۔ دلوں کی حرکت سردیوں کی منجمد اور ٹھہری رات کی طرح خاموشی کا سینہ چیرنے لگی تھی۔ سورج کی نویدِ سحر سے قبل چڑیوں کی چہچہاہٹ نے فضا میں نغمگی پیدا کردی تھی۔ شبنم کے قطرات اپنے وجود کا احساس دلارہے تھے کہ آج لوکتانترک (جمہوری) تہوار تھا اور یہاں کا سٹیزن ہونے کے ناطے ذمہ داری بھی تھی تمام چیزوں کو محسوس کرتے ہوئے ووٹ دینے کیلیے خود کو تیار کیا ووٹنگ کیلئے کسی بھی طریقے کی پریشانیوں کا سامنا نہیں ہوا کیونکہ آرام گاہ سے پولنگ بوتھ بہت قریب تھا ہمارے یہاں پولنگ بوتھ دو تھا ایک مدرسہ میں اور ایک اسکول میں، اسکول کا پولنگ بوتھ ایک گھنٹہ چلا اور خراب ہوگیا صحیح کرنے کےلیے بعد پھر چند منٹ کے سفر میں ہی دم توڑ دیا، لوگوں کے چہرے اور لہجے میں غصہ نظر آنے لگا تھا اور خواتین نے بائکاٹ کی سی صورت پیدا کردی تھی لیکن مختصر وقت میں انجینئر آگیا اور درست کرکے ووٹنگ کا سلسلہ جاری کیا جب سیکورٹی گارڈ نے مجھے دیکھا تو کھنکار کر گلا صاف کیا اور مخصوص لائن میں آنے کی دعوت دی چند منٹ لائن میں لگا رہا اور اسکے بعد اپنی ذمہ داری سے سبکدوشی لی اور اپنے حق کا استعمال حق کیلئے، فلاح و بہبود کیلئے، سیکولرزم کی بقا کیلئے، غریبوں کی حمایت کیلئے، تعلیم و تعلم کیلئے اور روزگار کیلئے کیا۔ اس امید پر کہ میرا ایک ووٹ میرے لئے امانت ہے اور یہ قوم کی ترقی کا پہلا زینہ ہے۔

Comments are closed.