تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری  عمر فراھی

تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

 

عمر فراھی ۔۔۔۔

 

پانچ نومبر کو اسی فیس بک ٹائم لائن پر پوسٹ کئے گئےمضمون "سازش اور سازشی ذہنیت کو سمجھئے” کا ایک اقتباس ہے کہ

"دعوت دعوت کی بات کرنے والے یا تو اسلام دشمن طبقات کی شرپسند اور سازشی ذہنیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا پھر ابھی تک جدید سیکولر لادینی نظام کے فریبی کردار سے ناواقف ہیں ۔جہاں تک موجودہ جمہوریت میں آزادی اظہار رائے اور انصاف کے نظریے کا پیمانہ ہے ماضی کی آمریت کی طرح یہاں بھی "طاقت اور اکثریت "کو ہی اقتدار حاصل ہے ۔فرق اتنا ہے کہ جس قوم کے اپنے ووٹ جتنا زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں اس ریاست میں ان کے جذبات کی اتنی ہی قدر ہوتی ہے ۔بھارت کے جمہوری ماحول میں بھی اقلیتوں اور اکثریتوں کے جذبات اور ضمیر کو مطمئن کرنے والا فرق واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔

ارنب گو سوامی کی گرفتاری کے ڈرامے سے خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔جن لوگوں نے بم دھماکوں کے ہندو مجرمین کو آزاد کروا لیا وہ ارنب کو زیادہ دن جیل میں کیسے دیکھ سکتے ہیں ۔ہاں ارنب گو سوامی کی گرفتاری کو نذیربنا کر مستقبل میں دوسرے انصاف پسند صحافیوں اور دانشوروں کی زندگی ضرور خراب کرنے کی کوشش کی جائے گی ”

کل سپریم کورٹ نےارنب گو سوامی کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیاہے جبکہ ونود بھٹ شرجیل امام عمر خالد جن کا قصور ہے بھی یا نہیں وہ جیل میں ہیں اور ابھی نا جانے کتنے حق پسندوں کے سر پر تلوار لٹک رہی ہے اور کب انہیں پابند سلاسل کر دیا جائے پتہ نہیں ۔یہ جمہوریت کا چہرہ جس کے کردار پر ہم مسلسل بیس سالوں سے لکھ رہے ہیں اور ادھر بہار کا الیکشن بھی سب نے دیکھ ہی لیا ہے ۔ستر سال کی جمہوریت ہو چکی ہے۔مرحوم ڈاکٹر رفیق ذکریا نے بیس سال پہلے لکھا تھا کہ یہ بچی جتنا جوان ہوگی اتنی ہی خوبصورت حسین ہوتے جائے گی ۔آج وہ زندہ ہوتے تو ہاتھ رس میں اپنی اس گڑیا کا حشر ضرور دیکھ لیتے ۔میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے کبھی نہیں دیکھا کہ اس نظام کے تحت عدلیہ نے کوئی ایسا فیصلہ کیا ہو جو آنے والی دنیا کے لئے نذیر بن سکے یا ان کے کسی فیصلے کو ماضی کے بادشاہوں پر برتری حاصل ہو ۔ماضی کے راجا مہاراجہ جو بھی تھے بچوں کے تعلیمی نصاب میں امن اور انصاف کے قصے انہیں کے دور کے ہی پڑھنے کو ملتے ہیں ۔باقی ابھی پانچ سو سال تک آپ لوگ اور سیکولر پارٹیوں کے فریب میں خوش ہوتے رہیں یا اسدالدین اویسی صاحب اپنی زندگی تک سو پچاس ایم ایل اے ایم پی اور بڑھا لیں جناب ابلیس نے نہ صرف اس طرز سیاست کی فتح کا جشن تقریباً1920کے قریب ہی منا لیا تھا اس کے فتنے سے ابن تیمیہ رومی و رازی اور عمر خیام کے قد کی جدید عبقری شخصیات بھی نہیں بچ سکیں ۔ سیاست میں اسدالدین اویسی اور میڈیا میں رویش کمار جیسے صحافیوں کی کچھ استثنائی آواز کو زندہ ہی اس لئے رکھا گیا ہے تاکہ لوگوں کے ذہن میں جمہوریت اور آزادی کا بھرم باقی رہے ۔باقی عالمی جمہوری سیاست میں بھی ڈاکٹر مرسی کی جگہ جیل ہے اور السیسی کو اقتدار حاصل ہے ۔ابلیس کی مجلس شورہ کے ماتحت اقوام متحدہ کی نگرانی میں عالمی گاؤں کے مہذب سماج کو بھی اتنی فرصت کہاں کہ وہ مصر کے ڈکٹیٹر السیسی سے الیکشن کا مطالبہ کرے۔بظاہر انسان ترقی کا سفر کرتے ہوئے چاند پر بھی قدم رکھ چکا ہے پھر بھی شعور کی پختگی کا فقدان یہ ہے کہ وہ زمین پر صحرا میں سراب کی مانند لبرل طرز سیاست کے راستے آزادی کی نیلم پری ڈھونڈھ رہا ہے !!

اب تو خیر دنیا کے چوکیدار امریکہ کی سیاست میں بھی تبدیلی آ گئی ہے ۔بحث اس پر بھی کرنا باقی ہے ۔لیکن یہ تبدیلیاں پہلی بار نہیں ہو رہی ہیں ۔جمہوریت اور آزادی کی اس نیلم پری کا خواب دیکھتے دیکھتے ہم نے ایک صدی گزار دی ہے جبکہ پانچ سال میں شیر شاہ سوری نے ہندوستان کا اور دو سال میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عرب کی ایک بڑی سلطنت کا نقشہ بدل دیا تھا ۔اس دور میں کوئی یوسف اور ابن عربی جیسا قطب ابدال بھی تونہیں جو ابلیس کے شکنجے میں قید انسانوں کو جمہوری خواب کی تعبیر بتا سکے ۔

اقبال کہتے ہیں کہ یہ جمہوریت کے نام سے آزادی کا تصور سامری کے طلسم کے سوااور کچھ نہیں ہے۔

 

ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام

جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے خوب

تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

Comments are closed.