اب ہم کیا کریں ؟ ـــــــــــ از ــــ محمود احمد خاں دریابادی

اب ہم کیا کریں ؟
ـــــــــــ
از ــــ محمود احمد خاں دریابادی
ہندوستان میں الیکشن کے پس منظر میں آئندہ کی منصوبہ بندی کے لئے درج ذیل نکات ہم لوگوں کے سامنے ہمیشہ رہنے چاہیئے ـ اس پر پہلے بھی ایک بار تفصیل سے لکھ چکے ہیں یاددھانی کے طور پر ایک بار پھر عرض کرتے ہیں ـ
★ ہندوسنان میں ہم مسلمان صرف پندرہ فیصد ہیں، پانچ فیصد سے کم دیگر اقلیتں ہوں گی باقی اسی فیصد وہ ہیں جن کو ہندو کہا جاتا ہے ـ
★ یہ سچ ہے کہ اسی فیصد ہندووں میں وہ بھی ہیں جن کے سمجھدار لوگ بظاہر خود کو ہندو نہیں کہتے، مگراکثر مواقع پر ان کے عام لوگ اور کبھی کبھی وہ خواص بھی متعصب ہندو بن جاتے ہیں اور ہمیں نقصان پہونچاتے ہیں ـ
★ ہم مسلمان ہمیشہ مسلم اتحاد کا نعرہ بلند کرتے ہیں، مگر متحد کبھی نہیں ہوپاتے ـ
★ دوسری طرف ہندوتواوادی لوگ ہم مسلمانوں کے اتحاد کا ڈر دکھا کر اسی فیصد ہندووں کو متحد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور تقریبا پچاس فیصد تک ہندووں کو اپنی طرف لانے میں اکثرکامیاب بھی ہوجاتےہیں ـ ……….. چنانچہ ۲۰۱۹ کے لوک سبھا چناو میں آپ دیکھیں گے جہاں جہاں بی جےپی جیتی ہے وہاں اکثر سیٹیوں پر بی جےپی کو کُل پولنگ کا پچاس فیصد کہیں ساٹھ اور پینسٹھ فیصد تک ووٹ ملے ہیں ـ
★ ایسی صورت حال میں اگر پندرہ فیصد مسلمان آپس میں متحد بھی ہوجاتے ہیں تو اسی فیصد کے مقابلے میں ہم کتنی دیر ٹہر پائیں گے ؟
★ ہمارے دانشوروں نے بہت کوشش کی کہ کمزور طبقات دلت وغیرہ کو اپنے ساتھ شامل کرکے ایک متحدہ طاقت بنائی جائے، چنانچہ کانشی رام، ادت راج اور وامن میشرام جیسے متعدد لیڈروں کو ساتھ لیاگیا ـ……… مگر تجربہ یہ ہوا ہے کہ ہمارے لوگ تو ان کے ساتھ جاتے ہیں انھیں ووٹ دیکر کامیاب بھی کراتے ہیں مگر ضرورت پڑنے پر اُن کے لوگ ہمارا ساتھ نہیں دیتے بلکہ ہندوتوا کی لہر میں بہہ جاتے ہیں ـ
اس لئے ہماری تمام مسلم سیاسی سماجی رہنماوں، دانشواران، صحافی اور قوم کا درد رکھنے والے مخلص حضرات سے درد مندانہ التماس ہے کہ درج بالا نکات کو سامنے رکھ کر جلد از جلد ہندوستانی مسلمانوں کےمستقبل کا لائحہ عمل مرتب فرمائیں ـ
مجھ ناقص کی رائے
ــــــــ
احقر اپنی رائے ظاہر کرنے سے پہلے کئی برس قبل بظاہر ایک عام مسلمان نظر آنے والے آدمی کی گفتگو کا ایک حصہ نقل کرتا ہے ـ
اُس شخص نے ملاقات کے دوران ملی معاملات کے سلسلے میں اپنی گفتگو میں کہا تھا کہ
” اگر مجھے کسی موقع پر دارا سنگھ سے مقابلہ کرنا پڑجائے تو میں اس کے سامنے کشتی میں تو چند سیکنڈ نہیں ٹک سکوں گا اس لئے کہ کشتی میرا میدان نہیں ہے، ……….. ہاں میں ٹینس کا چمپئن ہوں اس لئے میری پوری کوشش ہوگی کہ مقابلے کا میدان بدل جائے اور کشتی کے بجائے ٹینس کا مقابلہ ہو، ٹینس کے میدان میں چند منٹ کے اندر درا سنگھ کو ہراسکتا ہوں ”
بالکل اسی طرح ہم ہندوستانی مسلمانوں کو بھی مقابلے کا میدان بدل دینا چاہیئے ـ سیاسی میدان میں اپنے سے پانچ گنا بڑی طاقت سے ٹکرانے کا خیال فی الحال ترک کرکے اپنی ساری توجہ اعلی تعلیم اور بلاتفریق رفاہی اور سماجی خدمات پر مبذول کرنی چاہیئے، …….. اور اس میدان میں اتنا اختصاص حاصل کرنا چاہیئے کہ ہم ہندوستان کی ضروت بن جائیں، ……….. جس طرح تھوڑے سے یہودی سائنس اور اقتصادیات میں کمال حاصل کرکے یورپ اور امریکہ کی ضرورت بن گئے ہیں، جسے چاہتے ہیں حکومتوں پر بیٹھاتے ہیں جسے چاہتے ہیں گرا دیتے ہیں ـ
اسی طرح اگر ہم بھی ہندوستان کی ضرورت بن گئے تو صرف ہندوستان ہی نہیں پورے عالم میں بےتاج بادشاہی کریں گے ـ
بے شک یہ آسان نہیں ہے …….. مگر محنت اورسچی لگن ہو تو ایسا مشکل بھی نہیں ہے، ……… قران میں فرمایاگیا ……
” بہت سے تھوڑے لوگ اللہ کے اذن سے اپنے سے زیادہ لوگوں پر غالب ہوجاتے ہیں ”
Comments are closed.