ادے پور فائلز: فلم کے پردے پر اسلاموفوبیا کا زہر!

 

از قلم: محمد فرقان

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

8495087865, [email protected]

 

ہندوستان میں حالیہ برسوں میں جس تیزی سے مذہبی منافرت، فرقہ واریت، اور اقلیتوں کے خلاف زہریلے بیانیے کو فروغ ملا ہے، وہ کسی بھی مہذب، جمہوری اور کثیر الثقافتی سماج کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ آزادی کے بعد کا ہندوستان، جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، ایک تکثیری معاشرہ اور رواداری کا علمبردار ملک سمجھا جاتا تھا، آج ایک خطرناک دوراہے پر کھڑا ہے۔ اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جو منظم مہم گزشتہ دہائی میں زور پکڑ چکی ہے، وہ اب محض زبانی، سیاسی جلسوں، سوشل میڈیا یا اشتعال انگیز بیانات تک محدود نہیں رہا بلکہ فلمی اسکرینوں، ڈاکیومنٹریز، ویب سیریز اور نیوز رومز میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ منتقل کیا جا چکا ہے اور اسے ایک ہتھیار کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ”ادے پور فائلز“اسی سلسلے کی ایک خطرناک کڑی ہے، جس کا مقصد امن و امان، سماجی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو نیست و نابود کرنا ہے۔

”ادے پور فائلز“کا ظاہری پس منظر 2022 کے کنہیا لال کے قتل سے جوڑا گیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس فلم کا اصل مقصد ایک فرد یا کسی واقعہ کو موضوع بنانا نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کو اجتماعی طور پر نشانہ بنانا ہے، بلکہ مسلمانوں کے خلاف ایک نفرت انگیز سیاسی پروپیگنڈا کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ فلم کا ٹریلر ہی انتہائی اشتعال انگیز، گستاخانہ اور یک طرفہ ہے، جس میں نبی کریم ﷺ اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ کے بارے میں توہین آمیز جملے شامل کیے گئے ہیں۔ یہ صرف مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش نہیں بلکہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے اور آئینی ڈھانچے پر بھی کھلا وار ہے۔

یہ فلم نہ صرف اسلامی شعائر کی توہین ہے بلکہ ملک کے آئین کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل 14: سب کو برابری کی ضمانت دیتا ہے، آرٹیکل 15:مذہب، نسل یا ذات کی بنیاد پر امتیاز کو ممنوع قرار دیتا ہے، آرٹیکل 19: ہر شہری کو اظہارِ رائے کی آزادی دیتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس آزادی سے کسی کی عزت و ناموس، قومی سالمیت یا مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں، تاکہ ملک کی سالمیت، امنِ عامہ، اور دوسرے افراد کی عزت محفوظ رہے، جبکہ آرٹیکل 21: ہر شخص کو وقار کے ساتھ جینے کا حق فراہم کرتا ہے۔ ”ادے پور فائلز“ جیسی فلمیں ان تمام دفعات کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ یہ آزادیِ اظہار کے نام پر ایک خاص مذہبی طبقے کی عزت، جذبات اور شناخت پر کھلا حملہ کرتی ہیں۔ یہ نہ صرف ایک مخصوص مذہبی طبقے کی عزت اور وقار کو مجروح کرتی ہیں بلکہ پورے ملک کے اندرونی امن کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب فلمی اسکرین کو اسلاموفوبیا کے پرچار کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ اس سے پہلے ”دی کشمیر فائلز“ (The Kashmir Files) اور ”دی کیرالہ اسٹوری“ (The Kerala Story) جیسی فلموں نے بھی نفرت کے بیج بوئے۔ ”کشمیر فائلز“نے ایک مخصوص تاریخی واقعے کو بنیاد بنا کر پورے مسلم طبقے کو بدنام کیا اور ایسا ماحول پیدا کیا کہ ملک کے کئی حصوں میں مسلمانوں کے خلاف تشدد، گالیاں اور بائیکاٹ کی مہم چلی، جو آج بھی کئی علاقوں میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ فلم حکومتی سطح پر اتنی سراہا گئی کہ خود ملک کے وزیر اعظم نے اس کی تعریف کی اور بی جے پی کی متعدد ریاستی حکومتوں نے اسے ٹیکس فری قرار دیا۔ جب ریاستی طاقتیں ایک مخصوص مذہبی طبقے کے خلاف بیانیے کو فروغ دیں تو یہ محض فلمی سرگرمی نہیں بلکہ ایک منظم سیاسی مہم ہوتی ہے۔ اسی طرح ”دی کیرالہ اسٹوری“ نے مسلمان لڑکوں کو ’لَو جہاد‘ کے ذریعہ ہندو لڑکیوں کو دہشت گرد بنانے والا گروہ بنا کر پیش کیا۔ بعد میں عدالت نے فلم میں دیے گئے اعداد و شمار کو غلط اور من گھڑت قرار دیا، لیکن فلم اپنا کام کر چکی تھی، یعنی مسلم نوجوانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا اور ہندو لڑکیوں کو ان سے خوفزدہ کرنا۔ اس فلم کو بھی، باوجود سپریم کورٹ کے فیصلے کے، سرکاری سطح پر تحفظ حاصل رہا، جس نے نفرت کو اور زیادہ تقویت بخشی۔ یہ فلمیں ایک خاص نظریے کے تحت بنائی جاتی ہیں تاکہ لوگوں کی نظر میں ہر مسلمان مشکوک، ہر مدرسہ دہشت گردی کا اڈہ، ہر پردہ دار عورت پسماندہ، ہر داڑھی والا شدت پسند دکھائی دے۔ یہ بیانیہ نہ صرف جھوٹا اور تعصبانہ ہے بلکہ ایک پوری قوم کے وجود کے خلاف نفسیاتی جنگ ہے۔

اسی زہریلے رجحان کا تسلسل ہے کہ ”ادے پور فائلز“ نامی اس فلم میں نوپور شرما جیسے گستاخ اور فرقہ پرست عناصر کا وہ بیان بھی شامل کیا گیا ہے، جو اس نے ٹی وی چینل پر بیٹھ کر کھلے عام نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی۔ اس گستاخی پر دنیا بھر میں شدید ردِ عمل ہوا، درجنوں ممالک نے بھارتی سفیروں کو طلب کر کے حکومت سے احتجاج کیا، لیکن افسوس کہ آج تک اس کے خلاف کوئی مؤثر قانونی کارروائی نہ ہوئی۔ جبکہ یہی ملک گستاخی یا حساس امور پر دوسرے مذاہب کے خلاف کسی بیان پر فوری کارروائی کرتا ہے۔ یہ دوہرا معیار ملک کی عدالتی و آئینی غیرجانبداری پر سوالیہ نشان ہے۔ افسوس کہ عالمی سطح پر رسوائی کا باعث بننے والا گستاخانہ بیان اس فلم کا حصہ بنا دیا گیا ہے، جس سے اس کے خطرناک عزائم بے نقاب ہوتے ہیں۔

”ادے پور فائلز“نہ صرف اس دوہرے معیار کا مظہر ہے بلکہ اس فلم کا انداز یہ تاثر دیتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان صرف ایک قوم ہی نہیں بلکہ ایک مسلسل خطرہ ہیں، جنہیں بدنام، دیوار سے لگانا اور بے وقار کرنا ضروری ہے۔ فلم کے ٹریلر میں جس طرح مسلمانوں کے کردار کو پیش کیا گیا ہے اور نبی کریم ﷺ اور ازواجِ مطہراتؓ کے سلسلے میں گستاخ آمیز تبصرے شامل کیے گئے ہیں، وہ ظاہر کرتا ہے کہ اس فلم کا مقصد کوئی تحقیق، انصاف یا مکالمہ نہیں بلکہ کھلی دشمنی اور اشتعال انگیزی ہے۔

ان تمام فلموں کی ایک بات مشترک ہے کہ انہیں حکومت یا اس سے منسلک اداروں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ سینسر بورڈ، جسے دستور کے مطابق ہر فلم کا جائزہ لینا چاہیے، وہ یا تو خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے یا اس نفرت کے پروپیگنڈے کو خاموشی سے سہولت فراہم کر رہا ہے۔ عدالتیں، جن کا فریضہ آئین کا تحفظ ہے، وہ بھی بعض اوقات تاخیر یا سکوت کی شکار نظر آتی ہیں۔

یہ تمام فلمیں صرف مسلمانوں کو نشانہ نہیں بناتیں، بلکہ ہندوستانی معاشرے کی روح یعنی گنگا-جمنی تہذیب، ہم آہنگی، کثرت میں وحدت کو مجروح کرتی ہیں۔ جب ایک مذہب یا فرقے کو مسلسل شک، نفرت اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ محض اقلیت نہیں بلکہ پورا سماج متاثر ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک ملک میں جب نفرت، پروپیگنڈا، اور تعصب کو قانونی اور فلمی جواز دے دیا جائے، تو وہ معاشرہ جلد یا بدیر اپنی جڑوں سے کٹ جاتا ہے۔ ہٹلر نے بھی ابتدا پروپیگنڈا فلموں اور جھوٹے بیانیے سے کی تھی، اور نتیجہ نسل کشی پر منتج ہوا۔ اگر ہندوستانی سماج نے وقت پر بیداری نہ دکھائی، تو ہم بھی ایک ایسی دلدل میں دھنس سکتے ہیں جہاں سے نکلنا ممکن نہ ہوگا۔

”ادے پور فائلز“ جیسی فلمیں نہ صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بڑھا رہی ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی بھارت کو اقلیتی دشمن، متعصب اور انتہا پسند ملک کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ، OIC، یورپی یونین، اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے کئی بار بھارت میں اقلیتوں کی حالتِ زار پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ اگر ہم نے اس رجحان کو نہ روکا تو یہ صرف اقلیتوں کے لیے نہیں بلکہ ملک کی سالمیت اور بین الاقوامی ساکھ کے لیے بھی سنگین خطرہ بن جائے گا۔

یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں۔ جمعیۃ علماء ہند نے بجا طور پر اس فلم کے خلاف کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور اس پر پابندی لگانے کی اپیل کی ہے۔ جمعیۃ علماء اور اس کے صدر مولانا ارشد مدنی کا یہ قدم نہایت بروقت اور قابلِ ستائش ہے۔ انہوں نے صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا دفاع نہیں کیا بلکہ ہندوستان کے آئینی اصولوں، مذہبی ہم آہنگی، اور انسانی شرافت کا بھی تحفظ کیا ہے۔ لیکن یہ محض مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ہر اس شہری کا مسئلہ ہے جو اس ملک کے آئینی اقدار، ہم آہنگی، اور انسانی مساوات پر یقین رکھتا ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔ اور اس کے خلاف قانونی محاذ پر، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر، سوشل میڈیا پر، جلسوں میں، تحریروں میں، اور بیداری کی مہمات کے ذریعہ مؤثر مہم چلانی ہوگی۔ کیونکہ سینسر بورڈ، عدلیہ، حکومت، اور عوام کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ نفرت کا بیانیہ وقتی سیاست تو چمکا سکتا ہے، مگر قوموں کو تباہ کر دیتا ہے۔ آج اگر ادے پور فائلز پر روک نہ لگی، اگر اس کے جھوٹے بیانیے کا رد نہ کیا گیا، اگر اس کی وجہ سے پھیلنے والی نفرت کو چیلنج نہ کیا گیا، تو کل ہر گلی، ہر شہر اور ہر بستی میں فرقہ وارانہ تشدد کی آگ بھڑک سکتی ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر انصاف پسند، باشعور، اور آئین پسند شہری کھڑا ہو۔ کیونکہ آج اگر نبی کریم ﷺ کی ذات، اسلام اور مسلمانوں پر زبان دراز کی جا رہی ہے، تو کل کو کسی اور مذہب، قوم یا طبقہ کی باری بھی آ سکتی ہے۔ کیونکہ نفرت کی آگ صرف ایک دیوار نہیں جلاتی، پورا شہر جلا دیتی ہے۔ یہ ہمارے ملک کے تمام باشندگان کا مشترکہ امتحان ہے کہ کیا ہم ہندوستان کو امن، عدل، برابری، اور رواداری کا گہوارہ بنائیں گے، یا اسے نفرت، جھوٹ، اور سازشوں کا قبرستان بننے دیں گے؟ فیصلہ ہمیں کرنا ہے: قلم سے، زبان سے، قانون سے، اور اجتماعی شعور سے۔ اگر ہم نے آج خاموشی اختیار کی، تو ہماری آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

(مضمون نگار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر ہیں)

Comments are closed.