جوبائیڈن کیسے کامیاب ہوئے -!! محمد صابر حسین ندوی

جوبائیڈن کیسے کامیاب ہوئے -!!

 

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

 

امریکی صدارتی انتخاب میں جو بائیڈن کی فتح پر تجزیہ نگار اپنی اپنی آراء پیش کر رہے ہیں، انہوں نے کیسے فتح پائی اور کیا عوامل تھے جو ان کیلئے کارگر ثابت ہوئے؟ یہ بات درست ہے کہ ٹرمپ اپنی مجنونانہ کیفیت کی وجہ سے بہت سے ایسے کام کر گئے جن سے انہیں شکست کا سامان کرنا پڑا؛ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ انہوں نے ایک عالمی وبا کو نظر انداز کیا، کرونا وائرس کی خطرناکی نے سب سے زیادہ امریکہ کو ہی متاثر کیا، وہاں تقریباً دو لاکھ تیس ہزار امریکیوں کی موت ہوگئی، بی بی سی کی رپورٹس بتلاتی ہیں کہ ایک ترقی یافتہ ملک اتنا بے بس تھا کہ لوگ مر رہے تھے اور حکومت کچھ نہیں کر پارہی تھی؛ بلکہ ایک سرپرست اعلیٰ کی جانب سے وہ تسلی بھی نہیں مل پارہی تھی جس سے عوام کا دکھ و درد کم ہو، انہیں یہ محسوس ہو کہ ان کی سرکار ضروری اقدام اٹھائے ہوئے ہے اور مکمل کوشاں ہے؛ کہ اپنی رعایا کو تحفظ فراہم کرے، اس کے برعکس ٹرمپ لگاتار اپنی منصوبہ بندی، بیان بازی اور بے تکے پن سے لوگوں کو ناراض کرتے رہے، حتی کہ ماسک تک پہننا گنوارا نہیں کیا، حد تو یہ ہے کہ اولا وہ اس وبا سے ہی انکار کرتے رہے، پھر نوبت یہ آن پڑی کہ وہ خود کرونا وائرس کے شکار ہوگئے، یہ غور کرنے کی بات تھی کہ دنیا کی قیادت کا دم بھرنے والا خود بستر مرض پر پڑا ہوا ہے، جس میں اسے دنیا کیلئے مسیحا بننا تھا وہ خود مسیحائی کا منتظر ٹھہرا، تو وہیں جو بائیڈن اور ان کی پوری جماعت اس وائرس کے تئیں حساسیت کا ثبوت دے رہی تھی، بائیڈن ہمیشہ ماسک پہنے نظر آتے تھے، مبتلابہ لوگوں سے ملتے جلتے اور درد کا درماں بننے کی کوشش کرتے تھے، پوری گورنمنٹ کو کٹہرے میں کھڑا کرتے اور واجب سوالات پوچھتے تھے، اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ آنسوؤں کی جھریاں جب لگ رہی ہوں اور ایسے میں کوئی اسے پوچھنے والا مل جائے تو خواہ وہ دیرینہ دشمن ہی کیوں نہ ہو عزیز ہوجاتا ہے۔

دوسری سب سے بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بائیڈن نے تشہیر کا وہ انداز اختیار کیا جو انوکھا تھا، بہت سے لوگ اسے Old fashion (قدیم طرز) کا نام دے رہے ہیں، انہوں نے ہر جگہ اپنی پرسنیلٹی، اور اپنی شخصیت کے سلسلہ میں قصیدہ خوانی نہیں کی اور نہ ہی اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے سپر ہیرو کی طرح پیش کیا؛ بلکہ وہ مستقل یہ جتاتے رہے کہ ان کے منصوبے اور پلان کیسے ہیں، بالخصوص یہ کہ وہ متحد ہو کر کام کرسکتے ہیں اور لوگوں کو جوڑ سکتے ہیں، امریکہ میں پنپتی نسل پرستی پر لگام لگا سکتے ہیں، اس کیلئے انہیں سب سے پہلے اپنی جماعت کو متحد کرنا تھا، جس کے اندر progressive (ترقی پسند) اور Moderative (اعتدال پسند) بھی تھے، ان دونوں سروں کو ملانا ایک مشکل کام تھا، ترقی پسند لوگ عموماً مخالف جانے جاتے تھے؛ لیکن بہتر کمیونیکیشن اور سمجھوتہ کرنے کی پالیسی نے انہیں اس پر بھی قابو پانے کا موقع دیا، جیسے ترقی پسند سیاست دان میں سے ایک برلی سینڈر نامی بھی مخالف تھے؛ لیکن بعد میں راضی ہوگئے، ان کا یہ کہنا تھا کہ جون بائیڈن کا طریقہ کار اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہر ایک کیلئے موجودگی قابل تعریف بات ہے، اسی ڈیموکریٹک پارٹی میں ایک سن رائز موومنٹ تھی، جس نے بائیڈن کی فضائی آلودگی کی پالیسی کو F گریڈ دیا تھا، جو اس کے معیار کے مطابق بہت منفی تھا، ایسے میں بائیدن نے کوئی مخالفت نہیں کی اور ناہی اسے اپنی ذاتی حقارت یا توہین گردانا؛ بلکہ انہیں کی جماعت میں سے جو سب ترقی پسند فکر کے لوگ تھے، کچھ افراد سے پہل کی کہ وہ اس پالیسی کو تیار کریں، پھر کیا تھا یہ موومنٹ پوری طرح ان کا حمایتی بن گیا، دراصل ان کی یہی پالیسی لوگوں کو بہت زیادہ متاثر کرنے والی تھی۔

ایک تیسری بڑی وجہ یہ بتائی گئی کہ بائیڈن نے ہمیشہ کیمپین، تشہیر میں مثبت پہلو اختیار کیا، اور انہوں نے ٹرمپ پر ذاتی حملے سے پرہیز کیا، مکمل تشہیر پر نگاہ رکھنے والے بتاتے ہیں کہ صرف چھ فیصد بائیدن کا تشہیری موضوع ذاتیات پر تھا؛ جبکہ ٹرمپ دس فیصد تک پہونچے ہوئے تھے، ایک بہت بڑا نقص ٹرمپ کا یہی تھا کہ وہ منفی تشہیر کر رہے تھے، بار بار لوگوں کے سامنے بائیدن کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے، کئی دفعہ مباحثہ کے دوران بھی ان کی کھلے عام بے توقیری کی، کمتر الفاظ بھی کہے، سوشل میڈیا پر تقاریر کی بھرمار کرتے، لوگوں سے ملنے کے نام پر انہیں بھڑکاتے، مگر بائیڈن بولتے کم اور منصوبہ و پلان زیادہ بتاتے تھے، وہ ہر مرتبہ یہی خاکہ پیش کرتے کہ امریکہ کیلئے جدید راہیں کیسے ہموار کریں گے، معاشی، ملکی، بیرونی اور خصوصاً متعدد پیچیدہ مسائل جس سے ملک دوچار ہے، ان سب سے کیسے نپٹیں گے، سوشل میڈیا پر جو ٹرمپ کا کنٹرول تھا اس کا تریاق انہوں نے مثبت پہلو میں تلاش کیا، انہوں نے اپنے کردار سے یہ جتانے کی کوشش کی کہ امریکہ کو ایک ایسے صدر کی ضرورت نہیں ہے جو ہر وقت لفاظی کرتا پھرے؛ چرب زبانی کو اپنا ہتھیار سمجھے، عوام بہلانے پھسلانے کا کام کرے بلکہ ایسے صدر کی حاجت ہے جو کم بولے اور فوری ایکشن لے؛ نیز ہر وقت عوام کی خدمت پر مامور ہو، بائیڈن یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی راہ آسان نہیں ہے، بلکہ وہ اگرچہ صدر بن رہے ہیں مگر امریکی سینیٹ (گویا راجیہ سبھا) میں ان کی اکثریت نہیں ہے، بلکہ ٹرمپ کی جماعت وہاں قابض ہے؛ ایسے میں ایک متحدہ محاذ اور منصوبہ بندی ہی ان کے کام آسکتی ہے ورنہ وہ جیت کر بھی ناکام ہو جائیں گے؛ یہی وجہ ہے کہ وہ بڑے بول سے بچتے ہیں، ڈپلومیٹک جواب دیتے ہیں، عقلی دلائل سے قائل کرتے ہیں، چونکہ امریکہ ترقی یافتہ اور مادی اعتبار سے اصحاب شعور و علم کا گہوارہ ہے؛ ایسے میں وہ سمجھ گئے کہ زبان دراز نہیں زبان ہوشمند کی ضرورت ہے، چنانچہ فتح و کامیابی نے ان کے قدم چوم لیے۔ (تحقیق ماخوذ از- Sooch Utube)

 

 

Comments are closed.