مسلمانوں کا ٹھیکیدار کون ؟ تحریر: مسعود جاوید

مسلمانوں کا ٹھیکیدار کون ؟

تحریر: مسعود جاوید

چودھری صاحب اویسی مسلمانوں کا ٹھیکیدار نہیں صحیح کہا آپ نے مگر کانگریس، سپا، بسپا، راجد، جدیو وغیرہ وغیرہ کوئی بھی مسلمانوں کا ٹھیکیدار نہیں۔ اویسی اور اجمل سے سب سے زیادہ کانگریس کو تکلیف کیوں ہے ؟
١٤ سال کانگریس اور مجلس شیر شکر رہے تب وہ فرقہ پرست پارٹی نہیں تھی اس لئے کہ اس کی مددسے آندھرا میں کانگریس کی حکومت جو بنتی تھی۔ پھر اسی حکومت نے ٢٠١٢ میں چارمینار کے قریب ایک مندر کے تعمیر و توسیع مرمت کو لے کر دونوں پارٹیوں میں اختلاف ہوگیا اور مجلس نے آندھرا اسمبلی میں اور مرکز میں کانگریس قیادت والی یو پی اے سے ناطہ توڑ لیا !
اب کوئی پارٹی مسلمانوں کے ووٹ کو اپنی ملکیت سمجھنے کی غلطی نہ کرے۔ آپ اپنی کارکردگی شمار کرائیں اور انتخابی منشور میں عام ہندوستانیوں بالخصوص پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود کا مصمم عزم کریں اگر آپ کی باتوں میں صداقت ہوگی اور ووٹرز مطمئن ہوۓ تو آپ کو ووٹ کریں گے۔ اگر نہیں کۓ تو الزام اپنی اسٹریٹیجی کو دیں۔ جو لوگ مسلمانوں کو کانگریس کا، راجد یا سماجوادی یا کسی اور پارٹی کا ووٹ بینک مانتے ہیں در اصل وہ مسلمانوں اور ان کی عقل اور سوجھ بوجھ کی توہین کرتے ہیں۔ کیا مسلمانوں کو اپنے لئے اچھے برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ان کو ووٹنگ کسے کرنا ہے یہ بتانے کے لئے لوگ باہر سے آئیں گے ؟ اگر مسلمانوں میں اتنی صلاحیت نہیں تو کیا دلتوں میں ہے ؟ کیوں نہیں ایم وائی سمیکرن کے باوجود یادو کی اکثریت راجد کے مسلم امیدوار کو ووٹ نہیں کرتی۔ ان کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھتا !
ہم یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے کوئی بھی پارٹی کوئی مخصوص وعدہ نہ کرے۔ ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد مذہب اور ذات دیکھ کر نہیں ہوتا۔ آپ تعلیم کے لئے اچھے معیاری اسکول، صحت عامہ کے لئے اچھے ہسپتال کلینک اور ڈسپنسری ، عام شہریوں بالخصوص خواتین کے تحفظ کے لئے چاق و چوبند سیکورٹی سسٹم اور سی سی ٹی وی کیمرے، روشن سڑکیں، پبلک ٹرانسپورٹ سڑک بجلی اور سیوریج کا نظم کرانے کا عہد کریں اور جیتنے کے بعد ان وعدوں کو پورا کریں عوام آپ کے ساتھ ہوگی۔
ملک کی نام نہاد سیکولر پارٹیاں اپنے ووٹرز کو اتنے کچے دھاگے سے کیوں باندھتی ہیں کہ وہ توڑ کر بھاگ جائیں !
مسلمانوں کا کوئی ٹھیکیدار نہیں ہے نہ سیاسی پارٹیاں اور نہ مذہبی قیادت ۔ اب مسلمان محراب و منبر سے کسی فرمان کا منتظر ہے اور نہ کسی امام اور حضرت کے "فتوے” کا اسیر اور نہ اس معاملے میں کسی سجادہ نشین کی اطاعت سے بندھا ہوا ہے۔ وہ دستور میں دیۓ گۓ حق رائے دہی کا آزادانہ استعمال کرنا چاہتا ہے لیکن اس سے پہلے وہ امیدوار اور پارٹی کا رپورٹ کارڈ بھی پڑھنا چاہے گا۔ وقت بدل گیا ہے اب آپ کسی پارٹی کو روکنے کی بجائے اپنے کارناموں اور عہد و پیمان سے ووٹرز کو اپنی طرف مائل کریں۔ الیکشن لڑنے سے آپ کسی کو روک نہیں سکتے ہاں دم ہے تو ووٹرز کو convince کریں کہ وہ آپ کو ووٹ دے

Comments are closed.