نبی رحمت کا حلیہ مبارک از قلم: نمیرہ شاکر متعلمہ معہد عائشہ الصدیقہ قاسم العلوم للبنات دیوبند

نبی رحمت کا حلیہ مبارک
از قلم: نمیرہ شاکر
متعلمہ معہد عائشہ الصدیقہ قاسم العلوم للبنات دیوبند
نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے نعت گو تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طبقہ ہے،جنہوں نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالاتِ معنوی کے ساتھ ساتھ آپؐ کے کمالاتِ ظاہری‘آپ ؐکے حسن وجمال‘آپؐکی ایک ایک ادا‘حتیٰ کہ آپؐکے جسم مبارک کو بغور دیکھا،یاد رکھا اور پھر اسے آگے بیان کرکے ہم پر احسانِ عظیم کیا کہ آج ہم اُن کی بیان کردہ احادیث کی روشنی میں نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کے حلیہ مبارک اور حسن و جمال کا تصور اپنی آنکھوں میں لا سکتے ہیں۔انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے حلیہ مبارک اور حسن و جمال کی خوب سے خوب تر تصویر کشی کی ہے اور اُمت ِمسلمہ کو یہ بتایاکہ بنی نوعِ انسان کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے جسمانی خدوخال‘قدوقامت اور اَعضاء کی کیفیت کیسی تھی۔نبی اکرم ﷺ کے حسن وجمال کو مکمل ظاہر نہیں کیا گیا،نبی آخر الزماں ﷺکے حسن و جمال کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ آپ ؐ کے حسن و جمال کو مکمل طور پر ظاہر نہیں کیا گیا‘اس لیے کہ اگر آپؐ کے حسن و جمال کو مکمل طور پر ظاہر کر دیا جاتا تو کوئی آنکھ بھی آپ ؐکو دیکھنے کی طاقت نہ رکھتی۔ باوجود اس کے کہ نبی اکرمؐکا مکمل حسن ظاہر نہیں کیا گیا‘صحابہ کرام رسول اللہ ؐ وسلم کو آنکھ بھر کر دیکھ نہیں سکتے تھے۔حضرت حسان بن ثابت فرماتے ہیں:”میں نے جب بھی آپ ؐ کے انوار کی طرف دیکھا تو اپنی بینائی جانے کے ڈر سے آنکھوں پر اپنی ہتھیلیاں رکھ لیں۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فراخ د ہنی:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فراخ دہن تھے اور اہل ِعرب مرد کے لیے فراخ دہنی کو بہت پسندیدہ سمجھتے تھے۔حدیث کے الفاظ ہیں:ضَلِیْعَ الْفَمِ“(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم)فراخ دہن تھے۔“دہن مبارک کشادہ تھا،نہ چھوٹا اور تنگ تھا کہ منہ سے نکلی ہوئی بات میں فصاحت نہ رہتی اور نہ اعتدال و موزونیت سے بڑا تھا کہ بھدّا نظرآتا۔ موزوں، معتدل اور مناسب کشادہ دہن سے موصوف تھے، جو ایک عمدہ اور اچھی صفت ہے“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت مبارک باریک اور چمک دار تھے اور سامنے والے دانتوں میں ذرا فصل تھا۔ جب بات کرتے تھے تو اس میں سے نور نکلتا ہوامحسوس ہوتا تھا۔حضرت ابن عباس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دانتوں کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اَفْلَجَ الثَّنِیَّتَیْنِ اِذَا تَکَلَّمَ رُاِئیَ کَالنُّوْرِ یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ ثَنَایَاہُ“· ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے دانت مبارک کچھ کشادہ تھے۔جب آپ ؐ بات کرتے تو ایک نور سا ظاہر ہوتا، جو دانتوں کے درمیان سے نکلتا تھا۔“نبی اکرمؐکی ناک مبارک باریک‘بلندی کی طرف مائل اور نور سے منور تھی۔حضرت ہند بن ابی ہالہ فرماتے ہیں:”اَقْنَی الْعِرْنَیْنِ لَہُ نُوْرٌ یَّعْلُوْہُ، یَحْسِبُہ مَنْ لَمْ یَتَاَمَّلْہُ اَشَمَّ“ ”آپ ؐ کی ناک مبارک بلندی مائل تھی اور اس پر ایک نور تھا۔پہلی دفعہ دیکھنے والا آپ ؐ کو بہت بلندناک والاسمجھتا، حالاں کہ ناک مبارک بہت بلند نہیں تھی(بلکہ حسن و چمک کی وجہ سے بلند معلوم ہوتی تھی)۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار مبارک:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار مبارک نہ بہت زیادہ اُبھرے ہوئے تھے اور نہ بہت زیادہ دھنسے ہوئے تھے، بلکہ اعتدال اور توازن کا دل کش نمونہ تھے۔حدیث کے الفاظ ہیں:”سَھْلَ الْخَدَّیْنِ“ ”آپؐ نرم گداز رخسار والے تھے۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک اعتدال کے ساتھ لمبی اور بہت خوبصورت تھی۔حضرت ہند بن ابی ہالہ نے آپ ئکی گردن مبارک کو حسین و جمیل مورتی کی گردن سے تشبیہ دی ہے۔ یہ تشبیہہ بھی صرف فرضی ہے، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضا کو کسی بھی چیز کے ساتھ تشبیہ دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر عیب لگانے کے مترادف ہے۔حدیث کے الفاظ ملاحظہ ہوں:”کَاَنَّ عُنُقَہ جِیْدُ دُمْیَۃٍ فِیْ صَفَاءِ الْفِضَّۃِ“· ”(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن ایسی خوب صورت اور باریک تھی)جیسا کہ مورتی کی گردن صاف تراشی ہوئی ہوتی ہے (اور رنگت میں) چاندی کی طرح پرنور تھی۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی کیفیت:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک بالوں کی کیفیت کے بارے میں احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال نہ تو بالکل سیدھے تھے اور نہ اتنے پیچ دار کہ جنہیں گھونگریالے کہا جا سکے‘بلکہ آپ ؐکے بال مبارک ہلکے سے گھونگریالے تھے۔احادیث کے الفاظ ملاحظہ ہوں:”وَکَانَ شَعْرُہ لَیْسَ بِجَعْدٍ وَلَا سَبْط“ٍ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال نہ بالکل سیدھے تھے اور نہ بالکل پیچ دار۔“”وََلَمْ یَکُنْ بِالْجَعْدِ الْقَطِطِ وَلَابِالسَّبْطِ‘ کَانَ جَعْدًا رَجِلًا“ ”(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے) بال نہ تو بالکل سیدھے تھے اور نہ بالکل پیچدار‘بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی لیے ہوئے تھے۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی لمبائی:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی لمبائی کے بارے میں روایات مختلف ہیں‘بعض میں بالوں کی لمبائی کندھوں تک(جُمّہ)‘بعض میں گردن تک(لِمَّہ) اور بعض میں کانوں کی لو تک (وَفْرَہ) کا ذکر ہے۔ احادیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:”لَہُ شَعْرٌ یَضْرِبُ مَنْکِبَیْہِ ·“”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کندھوں تک آتے تھے۔“”عَظِیْمَ الْجُمَّۃِ اِلٰی شَحْمَۃِ اُذُنَیْہ“”آپ صلی اللہ علیہ وسلم گنجان بالوں والے تھے، جو کانوں کی لو تک آتے تھے۔“”یُجَاوِزُشَعْرُہ شَحْمَۃَ اُذُنَیْہِ اِذَا ہُوَ وَفَرَہ“”جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک زیادہ ہوتے تو کان کی لو سے متجاوز ہوجاتے تھے۔“بعض شارحین نے ان کی تطبیق یہ کی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلمبال بنواتے تو کانوں کی لو تک ہوتے‘کبھی ایک ماہ تک بال نہ بنواتے تو گردن تک پہنچ جاتے اور کبھی حالات کے مطابق (یعنی جب حالاتِ سفر میں ہوتے تو)کئی کئی ماہ تک بال نہ بنواتے تو کندھوں تک پہنچ جاتے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک:نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک گھنی اور گنجان تھی اور بالوں کا رنگ سیاہ تھا۔حدیث کے الفاظ ہیں:کَثُّ اللِّحْیَۃِ ”(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم)گھنی داڑھی والے تھے“اَسْوَدَ اللِّحْیَۃِ ”(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم)کی داڑھی کے بال سیاہ تھے۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک:صحابہ کرام نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کو قرآن کے اوراق سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وفات سے چند دن پہلے ہم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز ادا کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ہٹا کر ہماری طرف دیکھا:کَاَنَّ وَجْہَہُ وَرَقَۃُ مُصْحَفٍ”گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک قرآن کے ورق کی طرح تھا۔“نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کی کیفیت یہ تھی کہ نہ تو بہت زیادہ گول تھا اور نہ بہت زیادہ لمبا‘بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک دونوں کے درمیان تھا‘یعنی گولائی اورلمبائی کے اعتبار سے اعتدال پر تھا۔ حدیث کے الفاظ ملاحظہ ہوں:وَلَا بِالْمُکَلْثَمِ، وَکَانَ فِیْ وَجْہِہ تَدْوِیْر”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک بالکل گول نہ تھا‘البتہ آپ کے چہرۂ مبارک میں تھوڑی سی گولائی موجود تھی۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قد و قامت:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدوقامت کے بارے میں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ کوتاہ قد‘بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم درمیانے قد کے تھے‘جسے انگریزی میں ideal heightکہتے ہیں۔حضرت انس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدوقامت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رَبْعَۃً، وَلَیْسَ بِالطَّوِیْلِ، وََلَا بِالْقَصِیْرِ·”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درمیانے قد کے تھے، بایں معنی کہ نہ بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ کوتاہ قد۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت:اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر نبی کو کچھ نہ کچھ امتیازات دیے ہیں، جو انہیں عام لوگوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے بڑھ کر امتیاز عطا فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت ثبت کر دی، جو ختم نبوت کی تصدیق کرتی ہے۔یہ مہر نبوت رسولی کی طرح تھی جس پر بال تھے۔حضرت سائب بن یزید اپنے بچپن کے واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ میری خالہ مجھے دم کرانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا‘میرے لیے برکت کی دعاکی اور میں نے آپ کے وضو کا بچا ہوا پانی پیا:”ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَھْرِہ فَنَظَرْتُ اِلٰی خَاتَمِ النُّبُوَّۃِ بَیْنَ کَتِفَیْہِ مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَۃِ“”پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہوا‘پس میں نے کندھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا جو مسہری کی گھنڈیوں کی طرح تھی۔“نہ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا ہوگا‘نہ کوئی آپ جیسا تھا!
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک اور حسن و جمال ایسا کامل تھا کہ آپ اک شاہ کار نظر آتے تھے، جسے اس کے خالق نے بڑی محبت اور چاہت سے تخلیق کے سانچے میں ڈھالا تھا وہ اِک شہکارِ فطرت جس پہ خود خالق کو پیار آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کا ہر عضو اور حصہ کمالِ حسن کو پہنچا ہوا تھا۔کسی ذی روح نے آپ جیسانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمسے پہلے کبھی دیکھا اور نہ قیامت تک دیکھ سکے گا‘ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمہر اعتبار سے حسن کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔جس نے بھی آپ کو دیکھا وہ بلااختیار پکار اٹھا کہ ہم نے اس سے پہلے حسن و جمال کا ایسا پیکر کبھی نہیں دیکھا۔
وَاَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنِیْ
وَاَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ
خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِنْ کُلِّ عَیْبٍ
کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءُ
Comments are closed.