آپ ہی اپنی داؤں پر ذرا غور کریں          ازقلم:گلفشاں راؤ         فاضلہ معہد عائشہ الصدیقہ ؓ قاسم العلوم للبنات دیوبند

آپ ہی اپنی داؤں پر ذرا غور کریں

ازقلم:گلفشاں راؤ

فاضلہ معہد عائشہ الصدیقہ ؓ قاسم العلوم للبنات دیوبند

میں ہندوستانی مسلمان ہوں،دنیا میں کہیں کسی بھی شخص،ادارہ اور کمیونٹی ظلم نا انصافی اور بربریت کاشکا ہوتی ہے تو مجھے دکھ ہوتا ہے،کسی کے بھی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے تو میں چیخ اٹھتا ہوں،میرا دیش ابوالکلام،نہرو،حسین احمد اور گاندھی کا دیش ہے اس لئے اس دیش کی مٹی میں انسانیت،ہمدردی، رواداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ہمارے ملک کا موقف ہمیشہ سے پورے عالم کے انسانوں کے لئے واضح اور دو ٹوک رہا ہے کہ ہم مظلوم کے ساتھ ہیں اور ظالم کے خلاف ہیں۔لیکن افسوس موجودہ حکومت نے ہندوستان کی اس شناخت پر ظلم کرتے ہوئے اپنے بہت سے فیصلوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب ہندوستانی حکومت اور اس کی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں ایک خاص فکر اور جماعت کے کی ترجمان ہوتی جارہی ہیں۔یہی کچھ ہمیں گذشتہ دنوں فرانس کے واقعے کے سلسلے میں دیکھنے کو ملا جس پر ہندوستانی ہونے کے ناطے جتنا افسوس کیا جائے کم ہے،فرانس میں ایک اسکول ٹیچر نے اظہار رائے کی مثال کے طور پر طلباء کو توہین رسالت پر مبنی وہ کارٹون دکھائے جن پر ماضی میں فرانس کے علاوہ پوری دنیا میں ایک طوفان برپا ہوچکا ہے،فرانسیسی اسکول ٹیچر کی اس دریدہ دہنی سے مشتعل ایک مسلم نوجوان نے اس کا سرقلم کردیا۔اس کے بعد پوری دنیاکے سیکولر کہے جانے والے افراد کی منافقت کا دور شروع ہوا،وہ لوگ جن کے یہاں ہولوکاسٹ کاتذکرہ شجر ممنوعہ ہے،جن کے یہاں 1998سے 2019تک 22/مصنفین،سیاسی کارکنان اور آرٹسٹوں کو قید اور جرمانے کی سزائیں دی گئیں ہیں،جن کے یہاں ایک مضمون لکھنے پر موسیقار آلیسن چابلوز کو 20/ہفتے کی سزا دے دی جاتی ہے،فرانس میں چھ مصنفین جین میری لی پین،روجر گاروڈی،جین پلانٹین،رابرٹ فاویسون وینسٹ رینورڈ کو چھ ماہ سے ایک سال تک کی سزائیں دی گئیں ہیں۔یہ منافقت نہیں تو کیا ہے کہ جب ملکی شعائر اور ملکی شخصیات کے احترام کی بات ہو تو آزادیئ اظہار رائے میں حدود وقیود بتادیئے جاتے ہیں اور جب رحمت للعالمین ﷺ کی کی شان میں گستاخی کی جائے تو پوری دنیا کے سیکولر افراد خاموش تماشائی صم بکم عمی کی تصویر بن جاتے ہیں،فرانس کے صدر کو انصاف کے تقاضے کی تکمیل کرتے ہوئے کرنا یہ چاہئے تھا کہ وہ اپنے ملک کے مسلمانوں کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے اور ٹیچر کی دریدہ دہنی پر ہونے والے رد عمل کو دیکھتے ہوئے آزادی اظہار رائے کی حدود طے کرتے لیکن اسلاموفوبیا کا شکار فرانس جہاں اپنی مرضی سے اسکارف پہننے کی بھی اجازت نہیں کے گستاخ صدر مائیکرون نے اس گستاخ ٹیچر کے قتل کو آزادی اظہار رائے پرحملہ قرار دیا،جوانتہائی افسوس ناک ہے مزید برآں اپنی اسلام دشمنی کو ظاہر کرتے ہوئے فرانسیسی صدر نے نبی رحمت ﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو سرکاری اجازت دے دی فرانسیسی صدر کا یہ عملہ افسوس ناک،ناقابل برداشت اور انتہائی تکلیف دہ تھا جس پر پوری دنیا کے مسلمانوں نے صدائے احتجاج بلند کیا ہم ہندوستانی مسلمانوں نے بھی اپنی تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج اور مظاہرے کئے ہماری دلی خواہش تھی کہ ہمارا ملک اس احتجاج میں ہمارا ساتھ دے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا جائے،فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے ہمیں یقین تھا بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی جو سب کا ساتھ سب کا وکاس کی بات کرتے ہیں وہ اس پر اپنے سخت موقف کا اظہار کریں گے لیکن افسوس پہلے ہندوستانی وزارت خارجہ کا بیان آیا جو دلوں کو زخمی کردینے والا اور جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا تھا جسے دیکھ کر اور پڑھ کر ہم سکتے میں رہ گئے اور ہمارے دل میں نے ساختہ کہا کہ یہ ہندوستانی وزارت خارجہ کا بیان نہیں ہوسکتا ہے،ہندوستانی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ:”ہم فرانس کے صدر میکرون کے خلاف ناقابل قبول لہجے میں ذاتی حملوں کی سختی سے مذمت کرتے ہیں یہ عالمی مذاکراتی معیار کے خلاف ورزی ہے،ہم دہشت گردانہ حملے میں مارے گئے فرانسیسی ٹیچر کے قتل کی مذمت کرتے ہیں جس نے پوری دنیا کو دھچکا پہنچادیا ہے اور ہم مقتول ٹیچر اور اس کے اہل خانہ اور فرانس کے لوگوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں“پہلی نظر میں کوئی بھی یقین نہیں کرے گا کہ یہ بھارت کے وزارت خارجہ کا بیان ہے وہ بھارت جہاں سلمان رشدی کی کتاب کی سب سے پہلے مخالفت کی جاتی ہے،جہاں آستھا کی بنیاد پر فیصلے ہوجاتے ہیں،جہاں فدا حسین کو ایک کارٹون بنانے پر ملک بدر کردیا جاتا ہے، جہاں دیپیکا سنگھ راجاوت کو کارٹون بنانے پر جان سے مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے،جہاں فلم پدماوت،لکشمی بم کی اشاعت پر ہنگامے ہوتے ہیں اور لوگوں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے فلموں سے متنازع سین کو ہٹا بھی دیا جاتا ہے جہاں درجنوں کتابوں پر صرف اس لئے پابندی عائد ہے کیونکہ ان میں موجود مواد سے کسی نہ کسی طبقے کی توہین اور دل آزاری ہوتی ہے۔بھارت کے وزارت خارجہ کا یہ بیان ہندوستانی مسلمانوں کے دل آزاری کا سبب ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستانی خارجہ پالیسویں کے بھی خلاف تھا۔اور اس کے بعد وزارت عظمی کی جانب سے وزیر اعظم مودی کا بیان کریلا اور نیم چڑھا کے مانند ہوگیا۔آج ہم ہندوستانی وزیر اعظم کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ خدارا انصاف کے دوہرے پیمانے نا بنائیں اگر فدا حسین کو ملک بدر کیا جاسکتا ہے،دیپیکا سنگھ راجاوت پر مقدمہ ہوسکتا ہے،دیوی دیوتاؤں کی شان میں گستاخی کرنے والے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جاسکتے ہیں،ملکی شعائر،جھنڈے اور گیت کی اہانت کرنے پر جیل کی سزا دی جاسکتی ہے تو پھر مسلمانوں کے سلسلے میں آپ اسلاموفوبیا کا شکار کیوں ہوجاتے ہیں آپ کا موقف دو ٹوک فرانسیسی صدر کے سلسلے میں کیوں نہیں ہے کیوں آپ نے ہندوستان کے تیس کروڑ مسلمانوں کے جذبات کا خیال نہیں رکھا کیوں آپ آر ایس ایس کی فکر کے ترجمان ہوتے جارہے ہیں کیا آپ ملک کے مسلمانوں کو اپنا نہیں سمجھتے کیا آپ ان کی دل آزاری پر ایک جملہ نہیں بول سکتے،محترم وزیر اعظم آپ پوری دنیا میں ہمارے ملک کے نمائندے ہیں آپ کو ہمارے ملک کے 30کروڑ مسلمانوں کی ترجمانی کرنی تھی آپ نے تو اسلام دشمن اور فاشسٹ طاقتوں کی ترجمانی کردی۔ابھی بھی وقت ہے آپ اپنے بیان پر نظر ثانی کریں ہندوستان کی شناخت جو آزادی کے بعد سے ہے اسے متأثر ہونے سے بچائیں مظلوم کا ساتھ دیں اور ظالم کو ظلم سے روکیں۔محترم زیر اعظم ہم ہندوستانی مسلمان نبی رحمت ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی سے بہت تکلیف میں ہیں۔ہمارے دل چھلنی ہیں ہماری سب سے محبوب شخصیت جس پر ہم اپنا جان ودل نچھاور کرنے کو تیار ہیں ان کی شان میں گستاخی ہوئی ہے اور آپ ہمارے اس دشمن کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں جو اس گستاخی کا مرتکب ہواہے۔ہمیں آپ سے ایسی امید نہیں تھی۔

Comments are closed.