آؤ کہ الفت کے پھول کھلائیں ! ظفر امام قاسمی

سیاسی ہنگامہ آرائی جو پچھلے کئی مہینوں سے اودھم مچائے ہوئی تھی، اس پر اب اوس پڑگئی ہے،انقلابی نغموں، مخالفانہ نعروں اور ولولہ انگیزجے کاروں کی ترنگ خاموش ہوگئی ہے،ایک دوسرے پر سب و شتم، لعن وطعن، الزام تراشی اور بہتان بازی کا سلسلہ بھی کسی حد تک تھم چکا ہے، جیت اور ہار کے میدانِ امتحاں میں قسمت نے اپنا خوب جلوہ دکھایا ہے، جیتنے والے کے گھروں میں خوشی کی شہنائیاں رقص کناں ہیں، ان کے چہروں مہروں پر دلکش جگمگاہٹ کے بال و پر اگ آئے ہیں، جبکہ ہارنے والوں کے گھروں میں غم کی ملول تانیں افسردہ راگ چھیڑ رہی ہیں اور جبینوں پر دکھ کی سلوٹیں کروٹیں لے رہی ہیں۔
آج کل کے اس سوشل نیٹ ورکنگ کے دور میں جوں جوں الیکشن کا وقت قریب آتا جاتا ہے توں توں نت نئے نظریے اور بھانت بھانت کے خیال پردۂ عدم سے وجود پذیر ہونا شروع ہوجاتے ہیں، آخر آخر میں آکر جتنے دماغ اتنے نظریے جنم لے لیتے ہیں،ضروری نہیں کہ آپ کا جو نظریہ ہو بعینہ وہی دوسرے کا بھی نظریہ ہوجائے، اگر ایسا ممکن ہوتا تو آج ہمارے اس پیارے ملک ہندوستان کی تصویر یوں مخدوش نہ ہوتی۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر آپ کا کوئی ہم نظریہ نہ ہو یا آپ کے نظریہ کی کوئی تائید نہ کرے تو وہ غیروں کی گود میں بیٹھ کر کھیلنے والا، اپنی قوم سے بغاوت کرنے والا، ملت کی لٹیا ڈبونے والا، فتنہ پھیلانے والا، ہندو نواز، کانگریس کا جوتا بردار،یا مسلم کش ہے، آپ اسے اپنے نظریہ کا شربت پلانے کے لئے اس کے ساتھ زبردستی کریں، نہ پینے پر آپ ہرزہ سرائی، بیہودہ گوئی، برہنہ گفتاری اور بازاری کلامی پر اتر آئیں، کیونکہ ہوسکتا ہے وہ کسی ایسی نظر سے سیاست کو دیکھتا ہے جو آپ کی نظر سے بدرجہا بہتر ہو، اس کی دور بیں نظریں مستقبل کے چھپے پردوں کے پیچھے بھی دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہوں جو آپ میں مفقود ہو۔
ابھی حال ہی میں پورے بہار میں الیکشن ہوا، آج کل الیکشن کیا ہوتا ہے بس ہندو مسلم کا کھیل ہوتا ہے، ہندو چاہتا ہے کہ ہمارا ہندو جیتے اور مسلمان چاہتا ہے کہ ہمارا مسلمان جیتے، لیکن ملک کی ترقی اور خوشحالی کیسے ہو اور کیونکر ہو یہ کوئی نہیں چاہتا، ہچکولے دیتے ہوئے بھنور سے کوئی نکلنا نہیں چاہتا، اگر چاہتا ہے تو فقط یہ کہ ہمارے دھرم کا نیتا کسی طرح جیت جائے، جس کا ہراساں کن نتیجہ آج جو پورے بہار والوں کے سامنے آیا ہے وہ عیاں اور بیاں ہے۔
بہار کے سیمانچل کا علاقہ بالخصوص ہمارا کشن گنج اول دن ہی سے امن اور شانتی کا مرکز رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہیکہ یہاں اکثر آبادی مسلمانوں کی ہے، اور ہندو مسلمان ساتھ اٹھتے اور ساتھ بیٹھتے ہیں، ان میں باہم محبت و الفت ہوا کرتی ہے، بےتکلف ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ ہنس بول لیا جاتا ہے، لیکن اب لگتا ایسا ہے کہ اس کے بھی دن گنے جاچکے ہیں، اس کا بھی زوال سر پر آن کھڑا ہوگیا ہے،اس کی بھی شاخوں پر نفرت و تعصب کی ہواؤں نے دستک دے دی ہے، یہاں بھی اب ہندو مسلم کا گھناؤنا کھیل شروع ہونے کو آگیا ہے ، اور قیافہ یہ بتا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہاں بھی نفرت و تعصب کی خونی ہولی کھیلی جانے والی ہے۔
اس کی وجہ صرف ہمارے قائد محترم جناب بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کی غیر دانشمندانہ سیاست ہے، جو وہ سیمانچل میں آکر کھیل رہے ہیں،بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کی قائدانہ صلاحیت، بے باکانہ انداز اور پارلیمنٹ میں ان کا جارحانہ رویہ بھلا کسے پسند نہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اویسی صاحب اس دورِ افتاد میں مسلمانوں کے ایک بے مثال لیڈر اور بے باک رہبر ہیں، قوم کی زبوں حالی کو ایوان بالا تک پہونچانے میں ان کا ناقابل فراموش کردار رہتا ہے، تاہم یہ میرا نظریہ بلکہ ہر اس شخص کا نظریہ ہے جو مجلس مخالف ہے ( میں مجلس مخالف نہیں، بس اس کے طریقۂ سیاست کا مخالف ہوں) کہ سیمانچل میں ان کا اپنی سیاست کو چمکانے کی بے ہنگم تگ و دو بالکل غیر دانشمندانہ اور بےبصیرتانہ ہے۔
ہاں اگر اویسی صاحب اپنی سیاسی پالیسیوں میں کچھ رد و بدل کردیں اور ہندو راشٹر کگار پر کھڑے اس ملک میں مسلم مسلم کا راگ الاپنا بند کردیں، مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرکے ان سے فائدہ لوٹنا چھوڑ دیں تو مجھے امید ہیکہ وہ نہ صرف ہر دل کی دھڑکن بنیں گے بلکہ ان کی سیاست کو بھی چار چاند لگ جائے گا۔
مثلا یہ کہ اویسی صاحب کی پارٹی کا جو نام ہے وہ یقینا خار بن کر غیروں کی آنکھوں میں چبھتا ہے، انہیں اس حد تک یقین ہوچلا ہے کہ اویسی صاحب اپنی اس پارٹی کے بینر تلے مسلم کمیونٹی کے لوگوں کو اکٹھا کرنے کی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں،نیز اویسی صاحب کا صرف مسلم اکثریتی والے علاقوں میں ہی جا کر الیکشن لڑنے کا طریقۂ کار بھی غیروں کے دلوں پر خنجر زنی کرتا ہے، اس کے علاوہ اویسی صاحب جب سبھاؤں میں بھاشن دینے آتے ہیں تو براہ راست تو وہ ہندو مسلم کا نام نہیں لیتے لیکن ان کے بھاشنوں میں سیاست کی باتیں، ہندو مسلم یکجہتی کی باتیں، سیکولر ازم کی باتیں نہ کے برابر ہوتی ہیں، بلکہ وہاں وہ اپنا ہی ایک الگ راگ الاپتے ہیں، مسلمانوں کے سامنے ان کے ہادی و رہبر ﷺ کی سیرت طیبہ دکھا کر اور ان کے جیسا اپنے کو مظلوم ثابت کرنے کی اس انداز میں کوشش کرتے ہیں کہ مسلمان جذبات میں آجاتے ہیں، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غیر خود بخود اکٹھے ہوجاتے ہیں، ہمارے کشن گنج کے مسلم اکثریتی والے ضلع میں سارے حلقوں میں بی جے پی امیداوار کا دوسرے نمبر پر آجانا اس کا بین ثبوت ہے۔

تیسرے چرن کی پولنگ ہونے سے دو دن قبل اویسی صاحب بہادرگنج کے ہائی اسکول گراؤنڈ میں آئے تھے، یہ پہلی بار کی بات تھی جب اویسی صاحب کو رو برو سننے کا موقع ملا، یقین جانئے ان کی اس پوری تقریر میں جذبات کا ایسا ابال تھا اور اپنے جذباتی بیان سے وہاں مسلمانوں کے جذبوں کو وہ یوں مشتعل کر رہے تھے، اور نبی ﷺ کی مظلومانہ زندگی کی ایسی دلگیر منظر کشی کر رہے تھے کہ مجھ جیسا پتھر دل انسان کی آنکھوں سے بھی آنسو ٹپک پڑے تھے۔
کیا حامیانِ مجلس کو نہیں لگتا کہ اویسی صاحب سیمانچل میں آکر غیر دانشمندانہ سیاست کر رہے ہیں؟ یہاں کی ہندو مسلم بھائی چارگی کے بیچ انجانے ہی میں سہی نفرت کی خلیج پیدا کر رہے ہیں؟ پروگراموں اور سبھاؤں میں اپنی تقریر اور بھاشنوں میں سیاست کی باتیں کم اور جذبات کو مشتعل کرنے والی باتیں زیادہ کرتے ہیں؟ ہمیں تو لگتا ہے اور ہر سیکولر ذہن آدمی کو لگتا ہے کہ وہ سبھاؤں میں سیاست کی باتیں کم اور لوگوں جذبات سے کھیلواڑ زیادہ کرتے ہیں، جبکہ سیاست جذبات سے نہیں بلکہ دور نظری سے کی جانے والی چیز ہے۔
اگر اویسی صاحب کو متفقہ طور پر سیمانچل کا ہردلعزیز بننا ہے، ہر ایک کا نور چشم اور مجبوب نظر بننا ہے تو جذباتیت سے بالا ہو کر انہیں دانشمندانہ طریقۂ سیاست اپنانا ہوگا، سب سے پہلے انہیں اپنی پارٹی کا نام تبدیل کرنا ہوگا، ہندو مسلم کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا، آپ لاکھ کہیں کہ ہم بھید بھاؤ نہیں کرتے، ہمارے ” پتنگ نشان جھنڈے ” کے سایہ تلے ہندو مسلم سب برابر ہیں، لیکن انہوں نے اپنے طریقۂ سیاست سے غیروں کے ذہنوں میں جو بدگمانیاں پیدا کر رکھی ہیں، ہندو مسلم کے مابین نفرت کی جو ہوا چل پڑی ہے ان کو زائل کرنے کے لئے ان کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا، تب جا کر وہ ہردلعزیز بن سکتے ہیں اور سیمانچلی مسلمانوں کے لئے ان کی سیاست سود مند ثابت ہوسکتی ہے۔
ورنہ اگر یہی روش رہی تو پھر سیمانچلی مسلمانوں کو فائدہ تو ملنے سے رہا، الٹا ان کا امن و سکون، چین و شانتی اور آپسی اخوت و بھائی چارگی کو پارہ پارہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا، ان کی آپسی الفت و محبت کو نفرت و عداوت کی نذر ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مستقبل میں نفرت کی ایک ایسی خاموش مگر مہیب آندھی چلے گی جو سب کچھ ہمارے سیمانچل سے اڑا لے جائیگی،پھر اس وقت لوگوں کی آنکھیں کھلینگی جب امن و شانتی کی صبح کا سپید اجالا نفرت و تعصب کی تیرہ و تار رات میں تبدیل ہوچکا ہوگا۔
بہرحال یہ میرا شروع ہی سے نظریہ تھا جس کا میں گاہے گاہے تذکرہ کردیا کرتا تھا، میرا یہ نظریہ حامیان مجلس کے دلوں میں سانپ لوٹانے کا کام کرتا تھا، جس کے نتیجے میں میرے اپنے بھی بیگانے ہوگئے تھے، راہ چلتے پکڑے ہوئے ہاتھ کو چھوڑ کر کنارے لگ گئے تھے، مجھے فتنہ پرور، ہندو نواز، غلامِ کانگریس، کانگریس کا جوتا بردار اور نہ جانے کیا کیا خطابات سے نوازتے رہے، میں نے تو اس موضوع پر نہ بولنے کا تہیہ کرلیا تھا، لیکن اب جب کہ سیاست کی گرم بازاری سرد پڑگئی ہے، لوگوں کی مرادیں بر آئی ہیں، سیاست کی بھاگ دوڑ سے انہیں قدرے راحت ملی ہے تو سوچا کہ بالتفصیل اپنا نظریہ جو در اصل ہر سیکولر مزاج انسان کا نظریہ ہے، لکھ کر ظاہر کردوں، تاکہ لوگ ٹھنڈے دلوں سے سوچیں اور اس پر غور و فکر کریں۔
سیاسی آدمی کسی کا نہیں ہوتا، خواہ وہ کسی بھی پارٹی کا ہو اس کے پیش نظر اپنی سیاسی دوکان چمکانا ہوتا ہے، اپنے بچوں کا مستقبل بنانا ہوتا ہے، قوم کا مفاد اس کی نگاہ میں خامس ( پانچویں) کا درجہ رکھتا ہے، وہ آپ کے دکھ سکھ میں اسی وقت تک شریک ہے جب اسے آپ سے ووٹ لینا ہوتا ہے، پھر وہی سیاسی لیڈر جو کل تک ووٹ لینے کے لئے آپ کے آگے ہاتھ جوڑنے میں بھی نہیں ہچکچاتا تھا، آپ کے ووٹوں سے کامیاب ہونے کے بعد اپنے عشرت کدوں یوں روپوش ہو جاتا ہے جیسے وہ آپ کے معاشرے کا کوئی حصہ ہی نہیں۔
جب ہمارا اس سے کوئی مفاد وابستہ ہی نہیں تو ہم کاہے اس کی وجہ سے اپنے آپس میں رنجش کی خلیج پیدا کریں؟ کیوں ہم اس کے نام پر دشمنی مول لیں؟ کیوں اپنا اتحاد پارہ پارہ کریں اور کیوں ایک دوسرے پر زبان طعن دراز کریں؟
تو آئیے اب الیکشن کا زمانہ گزرچکا، اب پتہ نہیں اگلے الیکشن تک کون زندہ رہتا ہے؟ قبل اس کے کہ ہماری آنکھیں یک بیک موند جائیں، ہم اپنی بھائی چارگی کو مضبوط کریں، نظریہ کا فرق ہو تو ہو لیکن ہم اس نظریہ کے افتراق کی وجہ سے دوسرے کے تئیں اپنے دلوں سے دشمنی کو اتار پھینکیں، نفرت کو پامال کریں، محبت کی جوت جلائیں، عداوت کو کنارے لگائیں اور الفت کے پھول کھلائیں، اور ساتھ ہی جگر مراد آبادیؒ کے اس شعر کو اپنی جبینوں پر نقش کرلیں کہ۔
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
چلتے چلتے ایک اور بات کہہ دوں کہ آپ چاہے جس پارٹی کی بھی حمایت کریں،منع نہیں ہے، لیکن خدارا غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا سیکھیں، کھچڑی پکانا بند کریں، جب ہی آپ اپنے مقصد میں سرخ رو ہوسکتے ہیں اور خدا کی باز پرسی سے بچ سکتے ہیں ورنہ اللہ نہ کرے اگر حق کو حق اور غلط کو غلط کہنے میں آپ نے مداہنت کا لبادہ اوڑھ لیا تو پھر لکھ لیں کہ ” چار دن کی چاندنی “ کے بعد ” پھر وہی اندھیری رات “ آپ کا مقدر ہوگی۔۔۔۔
( نوٹ :- میں نے اپنا نظریہ کھل کر لکھ دیا ہے، جو غلط بھی ہوسکتا ہے، اگر یہ آپ کے نظریہ کے مغائر ہو تو برائے مہربانی ” الفت کے پھول کھلائیں “ والے اس مضمون کی کسی بھی طرح کی روح کش کارروائی سے اجتناب کریں، آپ اپنا نظریہ مثبت انداز میں پیش کرسکتے ہیں، میں مرحبا کہنے کے لئے سراپا استقبال ہوں)
ظفر امام، کھجور باڑی
دارالعلوم بہادرگنج
15/ نومبر 2020ء
Comments are closed.