مـطالـعہ اور نئی نسـل ڈاکٹر سعید جونپوری

مـطالـعہ اور نئی نسـل

 

ڈاکٹر سعید جونپوری

انسان کے کردار اور اس کی مجموعی شخصیت کی تعمیر میں ماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے۔لیکن ایک اور اہم شے جو کسی بھی انسان کی شخصیت سازی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے وہ ہے کتاب اور مطالعہ(reading). مطالعہ در اصل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ غور، توجہ، دھیان ، کسی چیز کو اس سے واقفیت پیدا کرنے کی غرض سے دیکھنا اور کتب بینی کے ہیں۔ عام طور پر کتاب پڑھنے کو مطالعہ کہا جاتا ہے۔ہر عاقل اور دانشور شخص اس بات کا قائل ہے کہ مطالعہ کرنے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن ہر شخص خاص کر ہماری نئی نسل (new generation) مطالعہ نہیں کرتی البتہ جو لوگ مطالعہ کرتے ہیں وہ اس کے فائدے حاصل کرتے ہیں۔

موجودہ دور میں مطالعہ نہ کرنے کی شکایت عام ہے۔ اور یہ شکایت عام طور سے نئی نسل سے ہے جو اپنے اپ کو smart اور مصروف کہنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی اور جب اُن سے کتاب یا reading کی بات کی جائے تو وہ عُذر بیان کرتے ہیں وقت کی تنگی اور عدیم الفرصتی کا. حالانکہ اگر وہ اپنے اوقات کا جائزہ لیں تو گھنٹوں برباد کردیتے ہیں۔ مثلاً دیر رات تک youtube پر videos اور فلمیں دیکھنا، TV پر مختلف پروگرام دیکھتے رہنا یا فیس بک واٹس آپ (whatsapp) پر دوستوں سے Chat کرتے رہنا اور خالی اوقات میں دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں اور پارٹیاں منانا، صبح دیر سے اٹھنا، وغیرہ وغیرہ، smart اور busy پبلِک اپنا اچھا خاصا وقت ان سب میں ضائع کردیتی ہے

✔ مطالعہ کی اہمیت اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد

ایک قلمکار کے لیے مطالعہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا انسانی زندگی کی بقاء کے لیے دانا اور پانی کی ضرورت ہے، مطالعہ کے بغیر قلم کے میدان میں ایک قدم بھی بڑھانا بہت مشکل ہے،اگرانسان اپنے کالج اور مدرسہ کی تعلیم مکمل کرکے اسی پر رک جائے تو اس کے فکر و نظر کا دائرہ بالکل تنگ ہوکر رہ جائے گا۔ چاہے وہ مدرس ہو، وکیل ہو، ادیب ہو انجینئر ہو یا ڈاکٹر ہی کیوں نہ ہو. آپ نے انگلش کا وہ مشہور جملہ سنا ہی ہوگا کہ all leaders are reader مطالعہ کے بغیر اپنے فن اور field میں ممتازیت پیدا نہیں کی جا سکتی. مطالعہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا بہترین آلہ ہے۔ مطالعہ ایک ایسا دوربین ہے جس کے ذریعے انسان دنیا کے حالات اور مختلف شے کو اسکی روشنی میں دیکھتا ہے اور اسکا جائزہ لیتا ہے. شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ "کسی مقرر کا بلامطالعہ تقریر کرنا ایسا ہی ہے جیسا بہار کے بغیر بسنت منانا، یا لُو میں پتنگ اڑانا، میرے والد صاحب جناب مفتی عبد الرشید صاحب جونپوری حلیمی فرماتے ہیں کہ "آج لکھنے والے زیادہ اور پڑھنے والے کم ہوگئے ہیں اور میں پڑھنے کو زیادہ پسند کرتا ہوں "اس لیے تحریر کو مؤثر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ایک صفحہ کو لکھنے کے لیے سو صفحات کا مطالعہ کیا جائے. میں نے اپنے استاذ حضرت مولانا قاری محمد زکریا صاحب فلاحی کو حفظ کے دوران دیکھا ہے کہ چھٹی ہونے کے باوجود وہ درسگاہ میں ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ تک مطالعہ فرماتے تھے. میرے شیخ(دادا میاں) حضرت مولانا منیر احمد صاحب دامت برکاتہم (کالینا ،ممبئی) سے سنا ہے کہ وہ طالب علمی کے زمانہ میں روزانہ 100 صفحات کا مطالعہ فرماتے تھے، عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے کہ "زمانے کا بہترین دوست کتاب ہے” اسی کو شورش مرحوم نے اس طرح کہا ہے کہ ” کتاب سا مخلص دوست کوئی نہیں ” مجھ ناچیز کا خود یہ مانّا ہے کہ "کتاب جسے ہم صرف اوراق کا مجموعہ سمجھ تے ہیں حقیقت میں وہ مخلص یاروں کی ایک حسین محفل ہے”.

مطالعہ سےجہاں معلومات میں اضافہ اور راہ عمل کی جستجو ہوتی ہے، وہیں مطالعہ سےذوق میں بالیدگی، طبیعت میں نشاط، نگاہوں میں تیزی اور ذہن ودماغ کو تازگی ملتی ہے، قوتِ متفکرہ اور متخیلہ کو تقویت ملتی ہے، گفتگو اور رویوں میں شائستگی پیدا ہوتی ہے، انسان مدلل اور معقول گفتگو کرتا ہے، مطالعہ کرنے والا اگر کسی محفل یا مجلس سے مخاطب ہوتا ہے تو اہلِ محفل اسے بغور سماعت کرتے ہیں. صحیح کتابوں کے مطالعے سے انسان کے اندر عاجزی و انکساری پیدا ہوتی ہے . مطالعہ سے سمجھنے،غوروفکرکرنے،رائے قائم کرنے اور فیصلہ کرنے میں اعتدال پسندی، فیصلہ کرنے سے پہلے مسئلہ کے جملہ مثبت اور منفی پہلوؤں پر غور، فریق ثانی کی بات سننے کا حوصلہ حاصل ہوتا ہے، مطالعہ سےانسانی شخصیت میں حقیقی نکھار بھی پیدا کرتی ہے

✔️مطالعہ کیسے کریں …….
مطالعہ کے لئے سب سے پہلے ذہن سازی کی ضرورت ہے اسکے بعد یہ کہ آپ مکمل فری (free) ہوں کسی کام میں مصروف نہ ہوں، آپکو ذہنی سکون حاصل ہو، اور آپ کا ذہن پوری طرح سے مطالعہ کی طرف مائل ہو، کیوں کہ کسی بھی کام کو اگر اس کے اصول وضابط سے کیا جائے تو وہ کارآمد ثابت ہوتا ہے؛ ورنہ نفع تو درکنار نقصان ضرور ہاتھ آتا ہے، فرض کیجئے! آپ کے پاس وقت بھی ہے، کتابیں بھی اچھی ہیں؛ لیکن ذہن پریشان، آنکھوں میں درد اور روشنی بھی مدہم تو آپ مطالعہ نہیں کرسکتے، اگر اسی صورت حال میں مطالعہ کی کوشش کریں گے تو صحت پر اس کا بہت برا اثر پڑے گا۔ اس لیے صحت کا خیال بھی بہت ضروری ہے.

مطالعہ کے لئے پہلے لطائف اور دلچسپ کہانیاں پڑھنے کی عادت ڈالیں اور پھر رفتہ رفتہ بامقصد کتابوں کے مطالعے کی طرف قدم بڑھائیں، مگر ایک بات ذہن نشین کر لیں کہ امتحانات کے ایام میں صرف اور صرف نصابِ تعلیم کی کتابوں کا اور انہیں سے related topics کا ہی مطالعہ کریں.کیوں کہ نصاب کسی بھی تعلیمی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مطالعہ کا ایک وقت مقرر کرلیں مطالعہ کے لئے فجر بعد کا وقت زیادہ مناسب ہے، ایک مسلمان کو اپنے مطالعہ میں قرآن مجید، سیرتِ نبویّہ، اور تاریخِ اسلام کو ضرور شامل کرنا چاہیے، اس کے بعد حسب ضرورت و صلاحیت مطالعہ کیاجاسکتا ہے

✔️ کتابوں کا انتجاب ……
مطالعہ ایسی کتابوں کاہو جو نگاہوں کو بلند، سخن کو دل نواز اور جاں کو پرسوز بنادے، اگر مطالعہ فکر کی سلامت روی، علم میں گہرائی اور عزائم میں پختگی کے ساتھ ساتھ فرحت بخش اور بہار آفریں بھی ہوتو اسے صحیح معنوں میں مطالعہ کہاجائے گا۔بعض افراد کے نزدیک ایک اہم مسئلہ مطالعہ کے لیے کتاب اور مواد کے انتخاب کا ہے اس سلسلے میں عموماً دو قسم کے افراد ہمیں نظر آتے ہیں ایک وہ جنہوں نے ادبی قسم کی کتب مثلاً ناول، شعر و شاعری کا مطالعہ کیا جس کا مرکز مذہب کے بجائے انسانیت دوستی کے گرد نظر آتا ہےاور دوسری قسم ان لوگوں کی جن کا مرکز مذہب کے دائرے میں ہی رہتا ہے۔ اس بارے میں اپنے مخلص اساتذہ سے رائے مشورہ کرلیں یا آپکے علم میں کوئی ایسی شخصیت ہو جن سے آپ مطالعہ کے متعلق رائے مشورہ کرنا مناسب سمجھتے ہوں. مطالعہ کی کتابوں میں آپ اپنے نصابِ تعلیم کی کتابوں کو سرِ فہرست رکھیں، اسکے بعد سیرت کی کتابیں، اسلامی تاریخ کی کتابیں، ادب اور جنرل نالج کی کتابیں، دینی اور دنیوی قدّآور شخصیات کی یا ان پر لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کریں جیسے مولانا اشرف علی تھانوی رح، مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی رح، مولانا سید ابو الاعلی مودودی رح، مولانا سید سُلیمان ندوی رح،سر سید احمد خاں رح، مولانا ابوالکلام آزاد رح، مولانا قاسم نانوتوی رح، حضرت مولانا احمد رضا خاں رح، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام، ڈاکٹر اسرار احمد رح، ڈاکٹر علامہ اقبال رح. ان تمام شخصیات کے نظریاتی اعتبار سے سوچ کے الگ الگ دائرے تو ضرور ہیں لیکن ان تمام میں مطالعے کے باعث وہ خصلتیں جڑ پکڑ چکی تھیں جن سے معاشرے کی تعمیر تو ہوسکتی ہے مگر بگاڑ پیدا نہیں ہوسکتا۔ ایسی کتابوں کا ہر گز مطالعہ نہ کریں جس سے آپ میں لبرلزم پروان چڑھے یا آپ خدا کی قدرت اور وحدانیت پر سوال پیدا کریں،ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں تو یہ حقیقت بھی سامنے آئے گی کہ موجودہ دور میں فرقہ واریت اور تعصب کی فضا قائم کرنے میں غیر معیاری اور غیر تحقیقی و غیر مستند کتابوں کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ ایک عام قاری اس قسم کی کتابیں پڑھ کر حقائق تک نہیں پہنچ پاتا ہے۔ مسٹر عبدل الماجد دریابادی ایسی کتابیں پڑھ کر ارتدا کے شکار ہوئے تھے، لیکن رحمتِ خداوندی نے انہیں اپنے جوش میں لپیٹا اور وہ مولانا عبد الماجد دریابادی ہوئے تو اللہ پاک نے ان سے قرآن کی تفسیر کا کام لیا

✔️ رکاوٹیں اور انکا حل…..
مطالعہ کر نے میں رکاوٹ یا کمی کی ایک وجہ اگر سستی اور غفلت ہے تو دوسری وجہ ٹی وی اور جدید میڈیا، انٹرنیٹ ، فیس بک، واٹس آپ کمپیوٹر وغیرہ بھی ہے۔ ھالانکہ یہ ذرائع مطالعہ کرنے میں بھی مفید و معاون ہوسکتے ہیں، پہلے کسی کتاب کو حاصل کرنے کے لیے لائبریری جانا پڑتا تھا، اب انٹرنیٹ پر لائبریریاں موجود ہیں،ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، مگر نوجوان انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال فضول کاموں اور سوشیل میڈیا کی surfing or searching میں کرتا ہے اور ان سب کاموں میں اپنا قیمتی وقت صرف کر دیتا ہے.

اگر ہم مطالعہ کرنے کی فکر کریں اور اسکا schedule بنا لیں تو عام طور پر شہروں میں صبح 9 یا 10 بجے سے کام شروع ہوتا ہے، لہٰذا ایک مسلمان اگر فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے تو اس کے پاس دو سے ڈھائی گھنٹے وقت رہتا ہے جس میں سے آدھا گھنٹہ بآسانی مطالعہ کے لیے فارغ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح عام طور شام میں بھی کچھ وقت ملتا ہے، گویا رات کو سونے سے پہلے کچھ وقت بسہولت مل سکتا ہے، مگر ہماری بے توجہی ہے جس کے سبب یہ وقت بے کار ہوتا ہے۔ ذرا سوچئے اگر ایک شخص روزانہ آدھا گھنٹہ مطالعہ کرے اور آدھے گھنٹہ میں 7 صفحات کا مطالعہ کرے تو ایک ماہ میں 210 صفحہ کی کتاب پڑھ سکتا ہے اور ایک سال میں 2520(دو ہزار پانچسو بیس) صفحات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔بالفرض ایک شخص کی عمر 65 سال ہو اور وہ اپنی تعلیم سے فارغ ہوکر 25 سال کی عمر میں مطالعہ شروع کرے اس طرح وہ 40 سال مطالعہ کرے گا اور اس مدت میں 100800(ایک لاکھ آٹھسو) صفحات پڑھ ڈالے گا ، اوسطاً اگر ایک کتاب 100صفحات کی ہو تو اس دوران 1008 کتابوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ اور اس میں آپکی نوٹس اور مطالعہ کا حاصل جو الگ سے تیار ہوگا، گویا وہ اپکی ذاتی کتاب کی شکل میں تیار ہو سکتا ہے اب آپ ذرا اندازہ کیجیے اتنی کتابوں کے مطالعہ کے بعد آپ کے علم اور نالج کی کیفیت کیا ہوگی ؟اور اس علم کا آپ کی اپنی ذات کو آپ کے بچوں کو اور اپکی اس سوسائیٹی کو کس قدر فائدہ ہوگا۔ اس بات کو دوسرے نظریہ سے دیکھئے۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو تو کتنا بڑاذاتی و عائلی نقصان ہے جو آپ کے ذریعہ ہورہا ہے۔ کیا اس کی تلافی ممکن ہے۔ لہٰذا عدیم الفرصتی وقت کی تنگی، busy life, یہ سب عُذر کوئی حیثیت نہیں رکھتے، آپ ذرا سوچئے……….

 

Comments are closed.