اور بہار میں بی جے پی کی حکومت بن گئ ۔ از محمد شاہد ناصری حنفی

اور بہار میں بی جے پی کی حکومت بن گئ ۔

از محمد شاہد ناصری حنفی

ہم مسلمان خواہ وطن عزیز کے کسی صوبے سے تعلق رکھتے ہوں بقول حضرت مرحوم مولانا آزاد

آندھی کی طرح اٹھ کر طوفان کی طرح چھا جاتے ہیں اورگرد کی طرح بیٹھ جاتے ہیں ۔

یہ تاریخی الفاظ وطن عزیز میں مرحوم کے کئ دہائیوں سے سچ ثابت ہورہے ہیں ۔

اترپردیش میں گرد کی طرح اس طرح بیٹھے ہیں ہم لوگ وہ سب پر واضح ہوچکا تھا اب بدقسمتی سے بہار میں بھی ہم لاشعوری طور پر بیٹھ چکے ہیں اورخدانہ کرے اگر یہی مقدر بن گیا تو اس کی تباہ کاریاں کس حد تک ہوں گی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔

این ڈی اے نے جیت کےجشن کا آغاز موتیہاری میں ایک مسجد اورمصلیان پر حملہ سے کیا ہے ۔

یوگی نے مسلم اکثریتی علاقہ کشن گنج پورنیہ وغیرہ کے بارے میں اسی علاقہ میں آکر جواعلان کیاتھا وہ بھی ملت کے نمائندوں کی کانوں سے گزراتھا مگر وہ نمائندے اپنی مصالح کی بنیادپر چپ رہے ۔

این ڈی اے کے مدمقابل عظیم اتحاد تھا جس کی کمان ایک 31 سال کے نوجوان کے ہاتھ میں تھی اس نے اپنی بساط سے اوپراٹھ کر جدوجہد کی جو مسلم نوجوانوں کیلئے عبرت وبصیرت کا باعث ہے کہ وہ احساس کمتری سے اوپر اٹھ کر اپنی قیادت آپ پیدا کریں

 

اپنے بل پہ لڑتی ہے اپنی جنگ ہر پیڑھی ۔

 

کا مقولہ صد فیصد درست ثابت ہوا ۔

نوعمری اورناتجربہ کاری سے اگرچہ نقصان بھی ناقابل تلافی ہوا کہ اپنی کشتی میں ایک شکشتہ کشتی کانگریس کو شامل کرلیا اورحسب دلخواہ ان کو سیٹیں بھی دے دیا جبکہ وہ کا میاب ہونے کی پوزیشن میں اکثر سیٹوں پر نہیں تھی ۔ اورپھر انتخابی میدان سے سونیا جی اورپرنیکا کا غائب رہنا اور راہل کا بادل ناخواستہ بہار کے انتخابی جلسوں میں آنا مگر تیجیسوی یادو کے ساتھ اسٹیج شریک نہ ہونا شاید کسی سازش کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے ۔ اس لئے کہ سیاست میں درون خانہ محبت اور بیرون خانہ عداوت کی کہاوتیں اظہر من الشمش ہے ۔

بہرحال اگر مسلمانوں نے حب علی اوربغض معاویہ کے مثل کو اختیارکرنے میں راہ اعتدال سے انحراف نہ کیاہوتا توآج این ڈی اے میں بھی کسی درجے میں اسلام اورمسلمان کی بات کرنے والا اور السلام علیکم ۔ وعلیکم السلام ۔ کہنے والا کو ئ وزیر توہوتا ۔ مگر افسوس صدافسوس کہ اندھی تقلید نے ہمارے عزائم کو مسمارکردیا ۔

لیجیے اب بہار میں بھی آپ آزاد نہیں رہے ۔

انا للہ وانا الیہ راجعون

ملا کوجو ہے ہند میں سجدہ کی اجازت ۔

نادان سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد ۔

کاش صوم وصلوات کے ساتھ معاشرے کے بدلتے ہوئے اقدار پر بھی ہماری نگاہ ہوتی تو اسباب کی دنیا میں آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا ۔

اسی طرح الکشن کے نتائج کے رجحان میں چند گھنٹوں میں جب معمولی تبدیلی آنے لگی تھی اسی وقت عظیم اتحاد کے لیڈروں کو قانونی چارہ جوئ یا عوامی احتجاج شروع کردینا چاہیے مگر چونکہ کا نگریس کی طرح خود تیجیسوی کے ارد گر آرایس ایس مینڈ کے لوگ آچکے ہیں اور وہی ان کے مشیرکارہیں تو پھر عوامی احتجاج بھلا کس طرح ہوسکتا تھا ۔

بہرحال جوکچھ ہوا اس کو

خود کردہ لاعلاج نیست نہ کہتے ہوئے ہم بھی دیگر لوگوں کی طرح مشیت الہی پر ڈال دیں تو یہ اپنی فطرت نہیں ۔ بلکہ ہم بحا طور پر بر ملا اس کا اظہار کررہے ہیں کہ ہمیں ایک آفاقی امت اورداعی ہونے کی حیثیت کا ادراک کرتے ہوئے کسی بھی فرقہ پرست جماعت کو شجر ممنوعہ قراردینے سے گریز کرنا ہوگا ۔ اور اسلام کے محاسن اور اپنے حسن خلق سے ان کے دلوں میں خواہی ونہ خواہی گھری ہوئ مسلم مخالف جذبات کو نکالنا ہوگا تب جاکر اس زمین پر اپنی وراثت کا دعوی کرسکتے ہیں

ہاں ایک بات ضرور عرض کروں گا کہ اویسی صاحب بہرحال عظیم اتحاد کی شکشت کے ذمہ دار تنہا نہیں ہیں بلکہ وہ تمام خانہ ساز پارٹیاں ہیں جوناپاک عزائم اورذاتی منصوبوں کے ہدف کو متعین کرکے الکشن میں قسمت آزمائ کرتے ہیں ۔ البتہ اویسی صاحب کی جادوئ گفتار کام کرجاتی ہے لیکن اس کے بھی ہشت پہلو ہیں ہمیں اس پر بھی غورکرنے کی ضرورت ہے ۔ جس میں ایک تو خود ان کی پارٹی کا صرف حیدرآباد کے شہری حلقوں سے ہی انتخاب لڑنا ہے ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پورے صوبہ میں یا پڑوس کے صوبہ میں ان کی پارٹی الکشن کے میدان میں نہیں جاتی اور وہ مشرق کی مسلم آبادیوں کی طرف رخ کرتی ہے ؟

اس قسم کے بہت سارے سوالات ہیں ۔ لوگ حضرت مولانا اسرارالحق صاحب مرحوم کی مثال دیتے ہیں کہ وہ پارلیامنٹ میں نہیں بولتے تھے مسلم مسائل پر اوراویسی صاحب بولتے ہیں ۔ یہ مثال درست نہیں ہے ۔ ہر مسئلے کی نوعیت الگ الگ ہواکرتی ہے ۔ مولانا مرحوم نے بھی مسلم مسائل پر بات کی ہے اورخوب کی ہے مگر اس میں وقار وتحمل اوربرد باری کا مکمل لحاظ ہوتا ۔

ہاں اویسی صاحب چونکہ اسد نام رکھتے ہیں تو اس نام کے اثرات وہاں ان کی گفتگو میں نمایاں ہوتا ورنہ جاکر حیدرآباد میں دیکھ لیجیے وہ پورا خطہ دارالسلام ہے جہاں ان کے بھائ اورمقربین کے اخلاق کے مظاہرے شب وروز اس طرح ہوتے ہیں کہ علی بابا چالیس چور ۔ اور کھل جا سم سم والا فسانہ اوراس کے ابواب آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ۔

اس لئے سیاسی بازیگر خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم وہ ہمارا آئیڈیل نہیں ہے ۔ ہمارے آئیڈیل سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوروہ خلفائے راشدین ہیں جنہوں نے زمین صلاح وفلاح اوررشدو ہدایت

اورامن وسکون وشانتی کا گہوارہ بنادیا تھا جن کا ظاہر وباطن ایک تھا جن کا ہرفرد عاجزی اورتواضع کا نمونہ تھا ۔

آہ صدآہ کہ آج بہار کی زمین ماتم کناں ہے کہ اس پر کون مسلط کردیا گیا جو شعوروآگہی سے بھی نابلد ہے جو دوہزار بیس کو بیس ہزاربیس کہ رہی ہے ۔

جو نتیش کمار مکھ منتری کو پردھان منتری کہ رہا ہے ۔

آگے آگے دیکھیے کرتا ہے کیا۔

و یافوض امری الی اللہ

Comments are closed.