جنت خدا کے پڑوس کا نام ہے۔ محمد صابر حسین ندوی

جنت خدا کے پڑوس کا نام ہے۔
محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043
مسلمانوں میں ایک طبقہ کو یہ خوش فہمی پیدا ہوگئی ہے کہ جنت ان کا آبائی ورثہ ہے، وہ مرنے کے بعد ضرور جنت میں جائیں گے، حالانکہ ان کے اعمال و کردار یہ شور مچاتے ہیں؛ کہ وہ جنتی ہونے کے مستحق نہیں ہیں، نیتوں کا حال تو خدا ہی جانتا ہے؛ لیکن واقعہ یہی کہ حصول جنت کے سلسلہ میں بڑی افراط و تفرط پائی جاتی ہیں، بعض لوگ اسے وراثت سمجھ کر اپنے کرتوتوں پر توجہ دئے بغیر من مرضی پلاٹ کا دعویٰ کرتے ہیں؛ تو وہیں بعضوں کا حال یہ ہے کہ وہ مایوس نظر آتے ہیں، دراصل جنت ہر کلمہ گو کیلئے ہے، مگر اس کی ایک قیمت چکانی ہے، اور وہ قیمت دنیا میں ہی دینی ہے، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالی کے احکام و اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے جنت کی سیر کر لے گا، اگر یہ خیال بھی آتا ہے کہ خواہشات کی اتباع اور ہوائے نفس کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائے گا تو وہ نادانی کر رہا ہے، جنت یوں مان لیجئے کہ خدا تعالی کا پڑوس ہے، یہ جوار دنیا سے شروع ہوتی ہے، چنانچہ دنیا کی زندگی خود اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے ویسے ہی گزارا جائے جیسے کہ جنت میں اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ لطف اندوز ہوا جائے گا، یہ ظاہر سی بات ہے کہ پھل سے پہلے زمین ہموار کرنی پڑتی ہے، بیج، کھاد اور موسم کی رعایت بھی کرنی ہوتی ہے، اور ایک عرصہ گزارنے کے بعد ہی وہ پھل نصیب ہوتا ہے جو اس کی زندگی میں بہار لائے، فصل خزاں دور ہو اور باد نسیم کے جھونکوں سے اس کی سیرابی ہو، دکھ اور تکلیف کے دن کٹیں اور آسائش و آرام کی زندگی نصیب ہو اگر کوئی ان دقتوں کو برداشت کرنا نہیں چاہتا اور اسے لگتا ہے کہ بس یونہی خوش فہمیوں کے ساتھ ہی زمین سے غلہ پالے گا اور زندگی کی آسائشوں سے ہمکنار ہولے گا تو یہ خام خیالی سے بڑھ کر کچھ نہیں، اسی طرح دنیا جنت کی کھیتی ہے ایک روایت میں بھی ہے، کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، اللہ تعالی نے قرآن مجید میں آخرت کی مثال کھیتی سے دی ہے، یقیناً کھیتی عرق ریزی اور ماتھے کا پسینہ چاہتی ہے، ایسے ہی جنت کی کامیابی دنیا کی محنت اور خواہشات کی قیمت مانگتی ہے، مولانا وحیدالدین خان نے "جنت کی قیمت” پر بڑی عمدہ بات نقل کی ہے، آپ رقمطراز ہیں:
"جنت خدا کی بنائی ہوئی ایک انوکھی دنیا ہے۔ جنت میں اعلیٰ معیار کی حد تک ہر قسم کی راحت اور خوشی موجود ہے۔ جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کو ہرقسم کا فُل فِل مینٹ(fulfillment) ہمیشہ کے لیے حاصل ہوگا (حٰمٓ السجدۃ: 31 )۔ جنت کی یہ انوکھی دنیا کس کو ملے گی۔ جنت کی یہ دنیا موت کے بعد کی ابدی زندگی میںاس عورت یا مرد کو ملے گی جو اس کی قیمت ادا کرے۔ جنت اُس کے لیے ہے جو حقیقی معنوں میں ربانی انسان یا خدا والا انسان بن جائے، جو بظاہر خدا سے دور ہوتے ہوئے معرفت کی سطح پر خدا سے قریب ہوجائے۔ جنت خدا کے پڑوس کا نام ہے۔ آخرت کی دنیا میں خدا کا پڑوس صرف اُس شخص کو ملے گا جو آخرت سے پہلے کی دنیا میں خدا کے پڑوس میں جینے لگے. انسان اپنے آپ کو پیدا کئے جانے کی صورت میں دیکھتا ہے، خدا کو اُسے لم یلد ولم یولد کی صورت میں دریافت (discover) کرنا ہے۔ موجودہ دنیامیں انسان دیکھ کر چیزوں کے اوپر یقین کرتا ہے، خدا کے اوپر اس کو دیکھے بغیر یقین کرنا ہے۔ انسان مال اور اولاد جیسی چیزوں سے بے پناہ محبت کرتا ہے، اس کو خدا کے ساتھ ایسا تعلق قائم کرنا ہے، جب کہ وہ سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے لگے اور سب سے زیادہ خدا سے محبت کرنے لگے۔ انسان آج کی چیزوں میں جیتا ہے اور وہ آج کی چیزوں کو اہمیت دیتا ہے، جنت اُس انسان کے لیے ہے جو آج کی چیزوں سے اوپر اٹھ جائے اور صرف ایک خدا کو اپنا سپریم کنسرن بنالے۔ انسان کا یہ حال ہے کہ وہ بھر پور دل چسپی کا تعلق اپنے لوگوں سے رکھتا ہے اور خدا کے ساتھ اس کا تعلق صرف رسمی اور ظاہری سطح پر ہوتا ہے، ایسے لوگوں کو جنت میں داخلہ ملنے والا نہیں۔ جنت میں داخلہ صرف وہ لوگ پائیں گے جن کا حال یہ ہوجائے کہ خدا کے سوا دوسری تمام چیزوں سے ان کا تعلق صرف دنیوی ضرورت کے طورپر ہو اور دل چسپی اور قلبی لگاؤ کے اعتبار سے ان کا تعلق تمام تر خدا سے ہوجائے-"(الرسالہ نومبر2008)
Comments are closed.