” دس روپیے کا سکہ ” تاج الدین محمد دہلی ٢٥

” دس روپیے کا سکہ ”

تاج الدین محمد دہلی ٢٥

نوٹ بندی کے اعلان سے چند دن قبل میں جامعہ کوآپریٹیو بینک میں کچھ پیسے نکالنے کی غرض سے حاضر ہوا۔ آج بینک میں عام دنوں کے مقابلے کافی بھیڑ تھی۔ میرا نمبر آتے آتے ایک گھنٹے سے زیادہ لگ گیا۔ چیک جمع کر کے اور ٹوکن لیکر میں ایک خالی سیٹ دیکھکر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد کیشیر نے میرے ٹوکن نمبر سے آواز لگائی۔ میں کاونٹر پر پہنچا اور اپنے پیسے لے کر مشین سے کاونٹ کرنے کے باوجود اپنے سابقہ عادت کے مطابق پیسے گننے لگا کہ شاید کوئی کٹا ہوا یا نقلی نوٹ نہ بر آمد ہو جائے؟

تبھی ایک بوڑھی عورت اپنے دس دس روپیے کے جمع کیے ہوئے دس ہزار کے قریب سکے کیساتھ بینک میں داخل ہوئی اور بھیڑ بھاڑ کو نظر انداز کرتے ہوئے پاس بک آگے کرتے ہی اسے جمع کرنے کے لیے کیشیر سے التجا کرنے لگی۔ کیشیر نے سکہ دیکھتے ہی کہا، اماں یہ یہاں نہیں جمع ہونگے اسے کہیں دکان میں بدلوا لیجئے۔

بوڑھی عورت کہنے لگی، بیٹا سنا ہے یہ سکے نہیں چل رہے ہیں؟ اب بند ہو گئے ہیں؟ اسے بدل دے بیٹا، میں نے سال دو سال میں بڑی مشکلوں اور مشقت سے اسے جمع کیا ہے لیکن بینک کا کیشیر ضعیفہ کی بات سنی انسنی کرتے ہوئے کہنے لگا ماتا جی، وقت برباد مت کرو اسے کہیں بدلوا لو۔ ہم اسے بینک میں جمع نہیں کر سکتے۔

بوڑھی بی کی آنکھوں میں آنسو صاف جھلک رہے تھے۔ وہ بے بسی و بے چارگی میں کہے جا رہی تھی میں نے اسے دو چار جگہ بدلوانے کی بڑی کوشش کی لیکن سب یہی کہہ رہے ہیں کہ اب یہ سکے نہیں چلیں گے۔ ہائے میری قسمت! آہ میرے پیسے! میں اب اس کا کیا کروں؟ اس پیسے کا اب کیا ہوگا؟ اتنا کہتے کہتے وہ نڈھال ہو کر زمین پر بیٹھ گئی۔

میں اپنے پیسے گن چکا تھا۔ کیشیر کیساتھ بوڑھی عورت کی کئی بار کی عاجزی و انکساری اور کیشیر کے منفی جواب نے اس عورت کا دل بیٹھا دیا تھا۔ مایوسی و نا امیدی نے ناتواں جسم کو جھنجھوڑ دیا تھا۔ اچانک ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور کافی پریشان سی ہو گئی۔

میں نے اپنے راشن والے دکاندار کو فون لگا کر پوچھا کہ کیا دس کے سکے آب نہیں چل رہے ہیں؟ کیا اب یہ بند ہو گئے ہیں؟ دکاندار صاحب کہنے لگے افواہ پھیلا دی گئی ہے اس لیے کوئی لے رہا ہے، تو کوئی نہیں لے رہا ہے۔ اگر آپ کے پاس کچھ سکے پڑے ہوئے ہیں تو اسے لے آئیے، میں اسے لے لونگا۔ خیال رہے ‘دس روپیہ’ سکے کے نیچے الٹی جانب لکھا ہوا ہونا چاہیے۔ کیونکہ بیچ میں لکھا ہوا ‘دس روپیہ’ حکومت کی طرف سے جعلی قرار دے دیا گیا ہے۔

بوڑھی اماں کی بے بسی قابل دید تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ سکے اصلی ہوں گے یا نقلی؟ لیکن اسکی افسردہ اور بجھی ہوئی آنکھیں اور نڈھال طبیعت نے میرے دل کو چند لمحے میں ہی حد درجہ غمگین کر دیا تھا۔ میں کرسی پر بیٹھا کئی سوچوں میں گم تھا۔ کسی بھی حالت میں اسکی مدد کرنے کے لیے اپنے دل کو آمادہ کر رہا تھا۔ کسی کی امیدوں کو جگانا اور پھر اسے ناامید کر دینا میرے نذدیک دل آزاری کے زمرے میں آتا تھا۔ اس لیے فیصلہ کرنے میں وقت لگ رہا تھا لیکن آخر کار دل نے مدد کرنے کی طرف رغبت دلا دی اور فیصلہ ضعیفہ کے حق میں کر دیا۔

میں نے بوڑھی اماں سے کہا کہ آپ اپنے تھیلے سے سکے نکالو، میں پہلے اسے دیکھ لیتا ہوں، اگر سکے اصلی ہوئے تو مجھے گن کر دے دینا میں آپکے سکے لے لونگا اور اسکے بدلے آپکو نوٹ دے دونگا۔

ضعیفہ کی آنکھوں میں اچانک ایک چمک سی نمودار ہوئی لیکن چہرے پر دھیرے دھیرے امیدوں کے بیچ ایک تجسس اور ڈر کی کیفیت حائل ہونے لگی۔ لیکن یکلخت ہی بینک کے ملازم کی موجودگی اور میری وضع قطع اور بول چال نے اسے اطمینان مہیا کرا دیا، اور وہ تیار ہو گئی۔

اس کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ اس نے سر کو اوپر اٹھایا اور آنسو پوچھتے ہوئے ہاتھوں کو فرش پر ٹیکتے ہی فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔ ایک کمزور، لاغر اور ضعیف عورت میں اچانک جان آ گئی تھی۔ محنت و مزدوری سے جمع کیا ہوا تھوڑا روپیہ فقیر کو بادشاہ بنا دیتا ہے اور اندھے کو بینائی عطا کرتا ہے کمزور کو طاقتور اور بیمار کو شفا دیتا ہے۔ درد بھرے لہجے میں میری جانب دیکھتے ہوئے کہنے لگی، بیٹا جب سکے نہیں چل رہے ہیں تو تم اسے لیکر کیا کروگے؟ یہ کہتے کہتے آنسو اسکے آنکھوں سے چھلک پڑے۔

میں نے کہا بڑی اماں میں اسے چلا لونگا۔ سکے بند نہیں ہوئے ہیں، یہ چل جائیں گے۔ افواہ پھیلنے سے دکاندار لینے سے گریز کر رہے ہیں۔ تم اپنے تھیلے سے سکے نکالتی جاو میں پہلے اسے گن لونگا اور نقلی سکے کو علیحدہ کر دونگا۔ کہنے لگی بیٹے، کیا سکے بھی نقلی ہوتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں، دس کا نقلی سکہ بازار میں موجود ہے جو دکانوں میں آسانی سے چل جاتا ہے۔ اس نے ‘ہائے’ کہتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا اور خاموشی سے سکے نکالتی گئی اور میں چیک کر کے دس دس کی لائن لگاتا چلا گیا۔ چند عدد سکے ہی نقلی نکلے جسے میں نے لے لیا اور پورے دس ہزار کے سکے لیکر، بدلے میں اسے نوٹ دے دیا۔ بوڑھی اماں خوشی سے روپیہ لیکر دعاؤں سے میرا دامن بھرتے ہوئے بینک سے نکل پڑی۔

میں گھر پہنچ کر اہلیہ کو دس کے اتنے سارے سکے دیتے ہوئے پوری کہانی سنا ڈالی۔ وہ خوش ہوئیں اور کہنے لگی کوئی بات نہیں اللہ آپ کو ضرور اسکا اجر دیگا آپ نے صلہ رحمی اور نیکی کا اچھا کام کیا ہے۔ فی الوقت کھلے پیسے دکانوں میں دستیاب نہیں ہیں۔ ریزگاری کی دقت اکثر ہو جایا کرتی ہے، اب کچھ دنوں تک اطمینان رہیگا۔

بینکوں کی آڑی ترچھی لائن، لمبی لمبی قطار اور وقت کے بے پناہ نقصان سے بچتے ہوئے اب تک اس ضعیفہ کے سکے سے گھر چل رہا ہے۔ اس افرا تفری میں بچے کو دس کا ایک سکہ دینے سے اچھلتے کودتے ہوئے گھر سے جانا اور دکان سے کچھ خرید لانا اس ضعیفہ کی یاد دلاتا ہے اور قرآن کے اس دعوے اور یقین کو پختہ کر دیتا ہے۔

ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین (سورہ توبہ، آیت ۱۲۰)
یقینا اللہ تعالی مخلصین کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔

۔۔۔ ختم شد۔۔۔

 

Comments are closed.