سیکولرازم، سوشل ازم اور کمیونزم – غلط مفہوم رائج کس نے کیا ؟ کانگریس کشمکش میں- سیکولرازم یا سافٹ ہندوتوا تحریر: مسعود جاوید

سیکولرازم، سوشل ازم اور کمیونزم – غلط مفہوم رائج کس نے کیا ؟
کانگریس کشمکش میں- سیکولرازم یا سافٹ ہندوتوا
تحریر: مسعود جاوید
فرہنگ/ لغت انگلش اردو ڈکشنری میں صاحب قاموس نے سیکولر کا ترجمہ ملحد، دہریہ لکھا لوگوں نے اس مفہوم کو منزل من السماء کی طرح تسلیم کیا اور سیکولرازم سے متنفر ہو گۓ ۔ اسلامسٹ طبقہ اسے اسلام مخالف قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف محاذ آرائی کرنا خدمت دین سمجھتا ہے جبکہ ہندوستانی آئین کے دیباچہ میں جو لکھا ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اس کی تشریح اور اس پر عمل لغت کے اس ترجمے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہندوستانی سیکولرازم کا مفہوم ہے کہ ایک ایسا نظریہ جس کے تحت ریاست اور حکومت کا کوئی دین نہیں ہوگا یعنی ریاست، حکومت ، حکومتی ایجنسیاں اور مشینری کسی مذہب کے فروغ کے لئے یا کسی مذہب کے خلاف کوئی کام نہیں کریں گے۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے بہت غور و فکر اور بحث و تمحیص کے بعد اس نظریہ اور نظام عمل کو مثالی قرار دیا۔ آج دنیا کے بیشتر ممالک متعدد المذاھب متعدد زبانوں بولیوں، مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں پر مشتمل ہیں ان ممالک کے لئے حقیقی سیکولرازم سے بہتر سر دست کوئی اور نظام عمل نہیں ہے۔
سوشل ازم اشتراکیت پر مبنی نظریہ جو کمیونزم سے قدرے مختلف ہے، اور امریکہ و مغربی دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام سے متصادم ہے، اس کے خلاف بھی عرب و غیر عرب امریکہ نواز علماء نے خوب کتابیں، مضامین لکھے کتابچے تقسیم کۓ گۓ اور عام مسلمانوں کو یہ باور کرایا گیا کہ یہ تمام مذاہب سماویہ کے خلاف مذہب بیزاری پر مبنی ہے اس لئے کہ یہ نظام دراصل کمیونزم کا ہی اقتصادی نظریہ ہے۔۔۔۔۔ ہندوستانی مسلمانوں کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو کمیونسٹ پارٹی مسلمانوں کے یا کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کے عمل اور معتقدات کے خلاف نہیں ہے اس کے برعکس مذہب کی اتباع یا عدم اتباع فرد کی آزادی کا حصہ ہے جو چاہے اپنی پسند کا دین اختیار کرے اور جو چاہے بے دین رہے۔۔۔۔۔ اس نظریہ سے ہندوستانی مسلمانوں کو عملی طور پر کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔۔۔۔ مگر بعض مفاد پرست صحافی اور نام نہاد ملی لیڈر امریکہ کا پروسا ہوا بیانیہ مقدس صحیفہ کی طرح چلاتے رہتے تھے۔
موجودہ سیناریو بالخصوص ٢٠١٤ میں شکست فاش کے بعد ہندوستان میں سیکولرازم کی سب سے بڑی اور قدیم علمبردار پارٹی کے ذمہ دار لیڈروں نے کہا کہ سیکولرازم سے ہماری شدید وابستگی ہماری شکست کی وجہ بنی۔ اس کے بعد پارٹی کے چوٹی کے لیڈروں نے اپنی پارٹی کی آئیڈیالوجی سے انحراف کرتے ہوئے سافٹ ہندوتوا کی ڈگر پر چلنا شروع کیا۔ ذاتی طور پر اپنے کو برہمن ثابت کرنا، جینیو پہننا اور مندر مندر زیارت کے لئے جانا قابل اعتراض نہیں ہے۔ اس لئے کہ سیکولرازم کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ہندو ذاتی طور پر بے دین ہوجائے ،پوجا نہیں کرے مندر نہیں جاۓ تلک نہیں لگاۓ دینی شعائر کو ترک کر دے۔ ہاں تقاضا یہ ہے کہ حکومتی سطح پر اور پارٹی کی سطح پر ایسا کوئی کام نہ کرے جس سے یہ میسیج جاۓ کہ یہ ہندوؤں یا اونچی ذات والوں کی پارٹی ہے یا کسی مخصوص مذہب کی پارٹی ہے۔ اسی طرح سیکولرازم غیرمسلموں سے یہ تقاضا نہیں کرتا کہ وہ مسلمانوں والی ٹوپی اوڑھے، روزے افطار کرے مساجد اور مزارات کی زیارت کرے۔۔۔۔۔ سیکولرازم کا یہ بھی تقاضا نہیں ہے کہ مسلمان ہندوؤں یا عیسائیوں یا کسی اور مذہب کے دینی شعائر اپناۓ، کلائیوں پر علامتی دھاگہ باندھے، کڑے پہنے، ٹیکہ لگاۓ، دیوی دیوتاؤں کے آگے سر جھکائے دیوی دیوتاؤں پر چڑھاۓ گۓ پرشاد کھاۓ، آرتی اتارے، گلے میں صلیب لٹکاۓ وغیرہ وغیرہ۔
کانگریس پارٹی جب جب اقلیتوں کے مسائل پر کوئی اقدام کرنا چاہتی تھی ان کے ساتھ زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھاتی تو منصوبہ بند طریقے سے اس پر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی منہ بھرائی کا طعنہ دیا جاتا تھا۔ اس طرح اکثریتی طبقہ میں اسے بدنام کیا گیا تو اقتدار کی ہوس میں اس نے مسلم ایشوز پر بولنا چھوڑ دیا دوسرے لفظوں میں اکثریتی منہ بھرائی کے لئے اقلیتوں کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔۔۔۔ اس لئے کہ ہندوتوا مارکہ جب شیو سینا نہیں لے سکی تو راہل گاندھی جن کے خاندان کے بارے میں مسلم پرست کا لیبل لگا کر بے سر پیر کی باتیں سوشل میڈیا کے توسط سے پھیلائی گئی وہ ہندوتوا مارکہ نہیں لے پائیں گے۔
کانگریس پارٹی ایک تو یہ کہ یہ دراصل پچھلے کئی سالوں سے دو کشتی کی سوار پارٹی ہے۔ اور دوسری جانب یہ زبردست داخلی انتشار کا شکار ہے۔ ٢٠١٤ دہلی الیکشن میں ایک بھی سیٹ حاصل کرنے میں ناکام رہنے کے بعد مسز سونیا گاندھی نے کیجریوال کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا تھا ان جیسا عوامی رابطہ کےلئے وہ بھی مناسب وقت opportune time پر غور و فکر اور تجزیہ کریں گی ۔۔۔ لیکن دہلی کانگریس کی گٹ بندی اب تک مسئلہ بنا ہوا ہے یہاں تک کہ بہترین وزیر اعلی مسز شیلا دکشت بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔
ہر الیکشن کے وقت اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں نے کئی مصلحتوں کی بنا پر کانگریس کو ووٹ دیا مثال کے طور پر : ١- کانگریس ملک کی واحد سیکولر پارٹی ہے جو کل ہند سطح پر موجود ہے، ٢- کانگریس ہی بی جے پی کو ٹکر دے سکتی ہے اس لئے کہ یہی ایک سنٹرسٹ مضبوط پارٹی ہے اور لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن افسوس اس کے پاس نہ پورے ملک میں زمین ہے اور نہ کیڈر ۔۔۔۔ نتیجہ … بہار میں ٧٠ سیٹیں ضد کر کے لے لی مگر جو حلقہ جات انتخاب اسے ملے وہاں مقامی طور پر ان کے لئے اہل امیدوار نہیں تھے اس لیے پیراشوٹ سے لاۓ گۓ امیدوار کو ٹکٹ دیا جو ظاہر ہے مقامی لوگوں کو قابل قبول نہیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے کانگریس بے دلی سے یہ الیکشن لڑ رہی ہے۔ کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ پرینکا گاندھی کا سارا فوکس اتر پردیش پر ہے وہ بہار کی انتخابی مہم میں ایک روز یا چند گھنٹوں کے لئے بھی نہیں آئی۔ راہل گاندھی ستر سیٹوں کے لئے تین دن غالباً چھ جلسوں سے خطاب کیا !
وقت اب بدل چکا ہے۔ ماقبل آزادی کی جدوجہد اور مابعد آزادی نہرو جی کی قیادت میں قابل ستائش حصول یابیوں کو کپ تک کانگریس کیش کرانا چاہتی ہے۔
تاہم اس سے انکار نہیں کہ مرکزی ایشوز پر اپوزیشن کا کردار نبھانے ، آواز اٹھانے، اور حکومت کو گھیرنے کا کام راہل گاندھی کے علاوہ کوئی اور نہیں کر رہا ہے۔ مایاوتی، اکھیلیش، تیجسوی وغیرہ سب کے سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، خواتین کے ساتھ بدسلوکی، عصمت دری کے کیسز میں دن بدن ااضافہ اور کسانوں کے مسائل پر کس کس پارٹی کے لوگ سڑک پر اترے؟ بی جے پی سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو ایر کنڈیشنڈ کمروں سے باہر نکلنا ہوگا۔ کس طرح گیس سلنڈر کندھے پر اٹھاۓ بی جے پی کے بڑے لیڈران سڑک پر اترتے تھے، یاد کریں اور اپنا موازنہ کریں۔
Comments are closed.