اس سلسلہ میں مسلمانوں کی بھی ذمہ داریاں ہیں – محمد صابر حسین ندوی

اس سلسلہ میں مسلمانوں کی بھی ذمہ داریاں ہیں –
محمد صابر حسین ندوی
7987972043
اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں نے مدارس کو طاق نسیاں پر رکھ دیا ہے، اور اب وہ یہ نہیں چاہتے کہ دینی مراکز اور افراد دین و عوام کی خدمت کریں، ہر جانب ایک لہر یہ چل پڑی ہے کہ روزگاری کے نئے نئے راستے تلاش کئے جائیں، بیشک یہ کوئی غلط بات نہیں ہے؛ بلکہ ثواب کا کام بھی ہے، مگر ہندوستان جیسے ملک میں دینی جذبہ و احساس کو باقی رکھنے والے مراکز کی سوتے ہی اگر خشک ہوجائیں، لوگ بھیڑ چال بن کر سرپٹ دنیاداری کی طرف دوڑ پڑیں اور وہ ایک گروہ بھی نہ رہے جن سے دنیا میں ایمان و عزت اور غیرت؛ نیز روحانیت و للہیت کا چراغاں ہوتا ہے، تو پھر کیسے فاشزم اور کمیونزم کے دور میں دل کی دنیا سجائی جائے گی، ارتداد کے طوفان میں وحدہ لاشریک کی حقانیت، ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے توقیری کے دوران حب رسول اور تابعداری کے حقائق کون واضح کرے گا، ویسے بھی اگر یہ طبقہ اپنے آپ کو ان مدارس سے الگ کر لے تو پورے وثوق و ایمان سے کہا جاسکتا ہے؛ کہ وہ اپنی محنت اور ایمانداری سے تجارتی میادین میں نئے معیارات کو چھو سکتے ہیں؛ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ پھر ان مسانید کو کون سنبھالے گا؟ جس امت کے دل روشن ہیں، مادیت میں طمانیت کی دوا فراہم کی جارہی ہے اور انسان کو انسانیت کا درس دیا جارہا ہے، ان تعبیرات کی بنا پر کوئی یہ نہ سمجھے کہ ان میں موجود خامیوں سے چشم پوشی کی کوشش کی جارہی ہے؛ بلکہ جرح و تعدیل اور تنقید کی راہیں ہمیشہ کھلی ہوئی ہیں، لیکن یہ بھی تو خیال کیجئے! کہ اگر وہ راہیں ہی بند کردی جائیں تو اصلاح کس کی اور شکوے کس سے؟ پچھلے کئی مہینوں سے نہ صرف مدارس کے انتظام و انصرام بلکہ ان سے متعلق اساتذہ و اسٹاف کی حالت تشویشناک بنی ہوئی ہے، خود کشی تک کے واقعات رو نما ہونے لگے؛ اے لوگو! اگر تمہارے معمار ہی بے دست و پا ہوجائیں، ناامیدی میں جلتی ایک جوت بھی بجھادی جائے تو پھر الحاد و لادینیت اور نئے نئے بتوں کے سامنے تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، وقت کی نزاکت اور ضرورت کو سمجھو! اپنے گریبان میں جھانکو اور معاشرتی طور پر صحیح و غلط کا جائزہ لو! ورنہ ہماری زندگی میں یہ کڑواہٹیں گھول جائیں گی اور ہندوستانی سرزمین پر ہم ایک بحران کا شکار ہوجائیں گے، اس سلسلہ میں استاذ گرامی قدر فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ کی تحریروں میں سے ایک اہم اقتباس نقل کیا جاتا ہے، جس میں حقیقت حال خون جگر سے رقم کیا گیا ہے، آپ رقمطراز ہیں:
"اس پس منظر میں عرض ہے کہ گزشتہ سات مہینوں سے یوں تو پورا ملک معاشی مشکلات سے گزر رہا ہے؛ لیکن سب سے زیادہ جو طبقہ دشواری سے دوچار ہو اہے ، وہ دینی خدمت گزاروں کا ہے، گورنمنٹ ملازمین کی تنخواہیں اس معیار کی ہوتی ہیں کہ اگر ان کو نصف تنخواہ بھی مل جائے تو روزمرہ کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں، پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین کی صورتحال بھی یا تو یہی ہے یا اس سے بہتر ہے، پھر یہ کہ ان حضرات کے پاس پس انداز کی ہوئی رقم بھی ہوتی ہے،کرونا کی اس وبا کے دوران اس جمع شدہ رقم سے بھی لوگوں نے اپنی ضرورتیں پوری کیں؛ لیکن غیر منظم اور کم یافت کے حامل ملازمین یا یومیہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدوروں کے پاس کوئی رقم پس انداز نہیں ہوتی، پھر بھی مزدورں کے لیے یہ آسانی ہے کہ وہ کوئی بھی ذریعہ معاش اختیار کر سکتے ہیں، اور ان کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں بھی عار نہیں ہوتی، دینی خدمت گزاروں کی صورت حال یہ ہے کہ نہ ان کے پاس کوئی پس انداز کی ہوئی دولت ہے، نہ وہ محنت مزدوری کر سکتے ہیں، اور نہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا سکتے ہیں، بعض لوگ ان کی اس پریشانی کے لیے صرف اداروں کی انتظامیہ کو قصوروار قرار دیتے ہیں؛ لیکن یہ درست نہیں ہے؛ کیونکہ مدارس کا نظام عوامی تعاون سے چلتا ہے اور عام طور پر یہ تعاون رمضان المبارک میں حاصل ہوتا ہے، اور اس سال اسی ماہ میں لاک ڈاؤن نافذ ہونے کی وجہ سے مدارس کی آمدنی کہیں معمولی پیمانہ پر ہوئی اور کہیں وہ بھی نہ ہوسکی؛ اگر مدرسے میں پیسے ہوں اور خدامِ مدرسہ کی خدمت نہ کی جائے، تو یہ بات قابل شکایت ہوسکتی ہے؛ لیکن اگر مدرسے میں پیسے ہی نہ ہوں تو انتظامیہ بھی کیا کر سکتی ہے!
مگر سوال یہ ہے کہ اس سلسلہ میں عام مسلمانوں کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں یانہیں؟حقیقت یہ ہے کہ مدارس کے اساتذہ و عملہ اور مساجد کے ائمہ و مؤذنین پوری قوم کی خدمت کر رہے ہیں؛ اس لئے قوم کی ذمہ داری ہے کہ وہ بہتر اور باعزت طریقے پر ان کی کفالت کریں، اس کفالت کی ایک صورت تو یہ ہے کہ مدارس و مساجد کی انتظامیہ کو تعاون پیش کیا جائے، اور موجودہ حالات کے پس منظر میں ہنگامی مدد کی جائے، دوسرے: دینی خدمت گزاروں کی انفرادی طور پر کفالت قبول کی جائے؛ اگر ہر شہر میں دس اصحاب خیر مل کر اپنا گروپ بنائیں اور یہ گروپ خدام دین میں سے ایک فرد یاایک سے زائد افراد کی بنیادی ضروریات– راشن، علاج اور بچوں کی تعلیمی فیس– کا آئندہ چھ ماہ کے لیے ذمہ لے لیں اور خاموشی کے ساتھ اپنی اعانت ان تک پہنچا دیں، توان پر کچھ زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا، اورکتنے ہی خدام دین کی کفالت ہو جائے گی، ہر شہر میں ایسے ہزاروں گروپ بن سکتے ہیں اور بہ سہولت مدارس اور مساجد کے خدمت گزاروں کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے، یہ دس افراد کے گروپ کی بات تو بطور سہولت کہی گئی ہے؛ ورنہ ملت میں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو تنہا خدمتِ دین میں مشغول کئی خاندان کی کفالت کر سکتے ہیں، اس طبقہ پر خرچ کرنے میں دوہرا اجر ہے، ایک تو صدقہ کا، دوسرے :بالواسطہ دینی خدمت میں تعاون کا؛ چنانچہ مشہور محدث امام عبداللہ بن مبارکؒ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی اعانتیں علماء پر ہی خرچ کرتے تھے، اور فرماتے تھے کہ مقام نبوت کے بعد علماء سے بڑھ کر کوئی بلند مرتبہ نہیں، (الاتحاف:۴/۴۱۷) مشہور فقیہ علامہ علاء الدین حصکفیؒ فرماتے ہیں: التصدق علی العالم الفقیر أفضل و الی الزھاد (درمختار:۳/۳۰۴) ’’ محتاج عالم یا عابد و زاہد لوگوں پر صدقہ کرنا افضل ہے‘‘۔ (شمع فروزاں:١٦/١٠/٢٠٢٠)
Comments are closed.