خواہش پرستی یا اصول پسندی۔ محمد صابر حسین ندوی

خواہش پرستی یا اصول پسندی۔
محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043
زندگی صبح و شام پر مشتمل ہے، اور یہ دن و رات کسی کے قابو میں نہیں، انسان صرف ان اوقات کے درمیان رہ کر خود کو بنانے اور سنوارنے کا مکلف ہے، ان دونوں کی کنجی اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، جنہیں ایک مقررہ مدت کیلئے گامزن کردیا گیا ہے، جو اپنے آقا کی اطاعت سے سر مو انحراف نہیں کر سکتے؛ اب یہ انسان کی مرضی ہے کہ وہ کس طرح زندگی گزارنا پسند کرتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ انہیں شب و روز کی قدر سے انسان بنتے اور بگڑتے ہیں، چنانچہ انہیں ساعتوں میں پچھلی قوموں نے وہ کارنامے انجام دیے جن سے تاریخی کتابیں لبریز ہیں اور انسانیت سرشار ہے؛ بلکہ آج بھی وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے وقت کے اسی دھارے میں رہ کر قابل رشک کام کیا ہے، مگر وہ سارے لوگ قربانی، ایثار اور وقت کی قدرانی کے زینہ سے ہی یہاں تک پہنچ سکے ہیں، بلاشبہ خواہشات نفسانی، لاغر سوچ، کمزور قوت ارادی اور ہوا کے دوش پر چلنے والے زندگی تو گزار دیتے ہیں؛ لیکن ان کی عمر تمام کا خلاصہ لا یعنی اور لاحاصل ہوتا ہے، وہ انسانیت کیلئے کوئی کارہائے نمایاں انجام نہیں دے پاتے، منزلیں ان کے گرد سے بھی دور رہتی ہیں، تو وہیں اصول، پابندی، پختہ سوچ اور عزم سے انسان اس مقام تک چلا جاتا ہے؛ کہ انسانیت رشک کرتی ہے، یقیناً وہ قربانیاں دیتے ہیں، آنکھوں کی نیندیں حرام کرتے ہیں، کروٹیں بدل بدل کر لمحات گزارتے ہیں، مگر پھر وہ ان سب محنتوں اور مشقتوں کا ثمرہ اس قدر میٹھا پاتے ہیں؛ کہ نہ صرف خود مطمئن اور سکون قلب کی زندگی حاصل ہوتی؛ بلکہ وہ انسانیت کیلئے اتنا کچھ چھوڑ جاتے ہیں جن سے نسلیں استفادہ کرتی ہیں، اور حقیقی معنوں میں یہی َزندگی ہے جو زندگی کہلانے کے لائق ہے، مولانا وحیدالدین خان کی ایک وقیع تحریر "خواہش پرستی، یا اصول پسندی” پر موجود ہے، جو دنیاوی زندگی کے دو متضاد نتائج کو بیان کرتی ہے، یہ عملی میدان کیلئے مہمیز بھی لگاتی ہے، اور خواہش پرستی پر تنبیہ بھی کرتی ہے، آپ رقم طراز ہیں:
انسان کو اُس کے پیدا کرنے والے نے اِس طرح پیدا کیا ہے کہ اس کے اندر متضاد صفتیں پائی جاتی ہیں۔ اِس لئے کہاگیا ہے کہ انسان تضادات کا مجموعہ (mixture of opposites) ہے۔ مثلاً انسان کے اندر ایک طرف طاقت ور خواہشیں موجود ہیں، اوردوسری طرف انسان کے اندر اصول (principles) کا گہرا شعور پایا جاتا ہے۔ انسان کی خواہشیں اُس کو سطحی قسم کی خود پرستی کی طرف کھینچتی ہیں، اور اصول کی معرفت اس کے اندر یہ سوچ پیدا کرتی ہے کہ وہ اعلیٰ حقیقتوں کے لیے جیے. اِسی طرح ہر انسان کی زندگی دو متضاد تقاضوں کے درمیان ہوتی ہے— خواہش پرستی، اور اصول پسندی۔ خواہش پرستی کا طریقہ اختیار کرکے انسان اپنے آپ کو حیوانیت کی سطح پر گرا لیتا ہے۔ اِس کے برعکس، اصول پسندی کی زندگی اختیار کرنے والا شخص اپنے آپ کو فرشتوں کی صف میں پہنچا دیتا ہے۔ خواہش پرستی کیا ہے۔ خواہش پرستی یہ ہے کہ آدمی سطحی جذبات کے زیر اثر زندگی گزارے۔ غصہ، انتقام، کینہ، حسد، تشدد، عدم رواداری، خود غرض، لالچ، نفرت، گھمنڈ، انانیت، بے اعترافی اور بددیانتی، وغیرہ۔ یہ سب خواہش کی مختلف صورتیں ہیں۔ سماجی زندگی میں یہ خواہش بار بار آدمی کے اندر ابھرتی ہے۔ جو لوگ اِن خواہشات کا شکار ہوجائیں، ان کی زندگی خواہش پرستی کی زندگی ہوجائے گی۔ وہ بظاہر انسان ہوتے ہوئے بہ اعتبار حقیقت، حیوان کی سطح پر زندگی گزارنے لگیں گے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ انسان ایک بااصول انسان ہو۔ با اصول انسان وہ ہے جو دوسروں سے محبت کرنا جانے، جو وعدہ پورا کرنے والا ہو، جو معاملات میںہمیشہ دیانت داری برتے، جو ہر حال میں سچ بولے، جو دو عملی جیسے رویّے سے پاک ہو، جس کے اندر تواضع پائی جائے، جو دوسروں کا اعتراف کرنا جانتا ہو، جس کے اندر درگزر کرنے کی صفت ہو، جو بے غرض ہو، جس کے اندر اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنے کا مزاج ہو۔ ایسا انسان با اصول انسان ہے، اور بااصول انسان ہی حقیقی معنوں میں اس کا مستحق ہے کہ اس کو انسان کہا جائے۔” (الرسالہ دسمبر 2008)
Comments are closed.