اجتماعی شعور کا فقدان ,اتحاد اور مسلمان عمر فراھی

اجتماعی شعور کا فقدان ,اتحاد اور مسلمان

عمر فراھی ۔۔۔

ایک صحتمند اور صالح معاشرہ جو تہذیب و اقدار کی نمائندگی کرتا ہو اسے وجود میں آنے کیلئے قوموں کے اجتماعی شعور کا بیدار ہونا ضروری ہے ۔ مسلمانوں میں یہ بیداری مسلسل پانچ وقتوں کی ازان نماز اور جمعہ کے خطبات سے تو آہی جانا چاہئے تھی لیکن جب سوچ میں ہی تضاد پیدا ہو جائے ,سیاست اور مذہب کی تفریق کرکے انسانوں کی بڑی آبادی کو خلق اور خدا کی تعلیم و تربیت سے محروم کرکے مادہ پرست بنا دیا جائے تو ایک صالح معاشرے کی تخلیق بھی کیسے ہو سکتی ہے ۔ سیکولر نصاب تعلیم اور معاشرے کی تربیت میں ابلیس نے مسلمانوں کو سب سے پہلے جس عبادت سے غفلت میں مبتلا کیا وہ نماز ہے ۔مساجد میں باجماعت نماز کی صف میں بمشکل دو سے پانچ فیصد بچوں اور نوجوانوں کی تعداد ملتی ہے باقی سب چالیس کے اوپر ہوتے ہیں ۔اب یہ معاشرہ جب کسی بھی اجتماعی نظم سے دور ہوگا تو اس کا فحاشی میں مبتلا ہونا لازمی ہے ۔قران میں اسی پس منظر میں یہ آیت بیان ہوئی ہے کہ

ان الصلاۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر

کہتے ہیں کہ مکہ کی بے ربط تہذیب میں جہاں لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا ۔جہاں فحاشی اتنا عام تھی کہ عورتیں کسی معزز خاندان کے بہادر نوجوان کی ماں بننے کیلئے اس کے ساتھ ہم بستری کرنا بھی معیوب نہیں سمجھتی تھیں ایسے جاہلانہ اور مشرکانہ ماحول میں بھی وہ قومیں ایک سردار اور قائد کی رہنمائی اور نگہبانی میں متحد تھیں ۔یہ ان کا کوئی قبائلی اصول نہیں تھا بلکہ انسان کو مالک کائنات نے پیدا ہی کیا ہے سردار بنا کر اور جیسا کہ کہا بھی کہ انی جاعلی فی الارض خلیفہ ۔

اسی مکہ سے ایک تحریک اٹھی اور اس تحریک نے نظام عالم کی قیادت کی ۔یہ تحریک نہ برپا ہوتی تو آج ہم قومیت اور متحدہ قومیت کی بحث کے لائق بھی نہ ہوتے ۔

مگر اب اسی تحریک سے وابستہ افراد کی جو صورتحال ہے یقیناً ہمارے بعد کا مؤرخ یہ بات ضرور لکھے گا کہ زمین کے ایک خطے میں ایک قوم اور انسانی جماعت ایسی بھی تھی جسے اپنے پچیس کروڑ ہونے پر فخر بھی تھا اور وہ اپنے خلیفہ امام قائد یا سردار کی رہنمائی میں منضبط نہ ہونے پر مطمئن تھی ! کسی نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ

"قومیں جب کسی قائد کی قیادت میں منضبط نہ ہوں تو وہ فتنوں کے زد میں ہیں ”

ہندوستانی مسلمانوں کے ایک روشن خیال طبقے کا یہ بھی سوچنا ہے کہ جب مسلمانوں نے متحدہ قومیت کے نام پر سیکولرزم کو قبول کر ہی لیا ہے تو پھر سیاست میں کبھی مسلم لیگ تو کبھی مجلس اور مشاورت کےنام پر کسی ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی اور اسدالدین اویسی کی رہنمائی میں مسلم متحدہ محاذ بنا کر پچاسی فیصد کو پندرہ فیصد کے خلاف متحد ہونے کی دعوت کیوں دی جائے۔یہ خوف مسلمانوں کے اندر آزادی کے بعد سے ہی پایا جاتا ہے ۔1952 کے الیکشن میں جواہر لال نہرو نے ابوالکلام آزاد سے ایک دلچسپ مزاق کیا کہ مولانا اب آپ بھی پارلیمنٹ کے الیکشن کیلئے کسی مسلم اکثریتی علاقے کا انتخاب کر لیں ۔مولانا نے کہا کہ میں ایسا کیوں کروں جبکہ میں مسلمانون کا نہیں ہندوستان کا لیڈر ہوں !وہ شخص جس کے بارے میں نہرو کہتے تھے کہ وہ اپنی پیدائش کے وقت ہی پچاس سال کے تھے کیا اسے نہرو کے اس مزاق کا احساس نہیں ہوا ہوگا کہ آخر اتنی جلدی متحدہ قومیت کاشیرازہ کیسے بکھر گیا !

مولانا آزاد جیسی شخصیت کو نہرو جی کے اس مزاق کا یہی جواب دینا لازم تھا کہ وہ صرف مسلمانوں کے نہیں ہندوستان کے لیڈر ہیں لیکن آزاد ذرائع سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ آزاد صاحب کو یہ احساس بٹوارے سے کچھ سال پہلے ہی ہو چکا تھا کہ وہ صرف مسلمانوں کے ہی لیڈر ہیں ۔اگر وہ آج بھی ہندوستان کے لیڈر تصور کئے جاتے تو ہر سال اگیارہ نومبر کی ان کی برسی میں غلام نبی آزاد کے ساتھ صرف دو سے تین لوگ ہی ان کی تصویر کو شردھانجلی نہ پیش کرتے جبکہ سردار پٹیل کی برسی میں وزیر اعظم اور سونیا گاندھی کو لیکر سیکڑوں لوگ شریک ہوتے ہیں ۔

کہنا یہ تھا کہ بھارت میں ہندوؤں کیلئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے کہ ان کا قائد کون ہو۔ پارلیمنٹ خود ملک کے سارے عوام کی نمائندہ کونسل ہے ۔اس کونسل کی نمائندگی نہرو کے سپرد رہی ہو یا مودی کے وہی ملک کی سوا سوکروڑ کی آبادی کا نمائندہ یاقائد ہے ۔مگر سچائی یہ بھی ہے کہ آزادی کے فوراً بعد ہی متحدہ قومیت کے جذباتی نعروں سے وجود میں آنے والے نظریے کی ہوا بھی نکل گئی ۔سیاسی پارٹیاں اور ملک کی بیوروکریسی اس نظریے کے ساتھ انصاف نہ کر سکیں اور اب تو عدلیہ کا مزاج بھی۔۔۔۔ ۔بدقسمتی سے مسلمان جو سب سے زیادہ مظلوم اور خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہا ہے وہ آزادی کے پہلے بھی خالص مسلم قیادت کا اسیر تھا آزادی کے بعد بھی اپنی قیادت کے سحر سے باہر نہیں آپایا ہے تو اس لئے کہ اس کے ساتھ کسی بھی سیکولر سیاسی جماعت اور اس جماعت کے مسلم لیڈران نے بھی کبھی وعدہ وفا نہیں کیا اوریہ تشنگی اب بھی برقرار ہے ۔

ہم کہہ رہے تھے کہ مشرکین مکہ تمام برائیوں اور جہالت کے باوجود کم سے کم تفرقے والی جہالت سے تو پاک ہی تھے ۔ وہ ایک شوری اور سرداریت کے نظام کے ماتحت متحد تھے ۔مگر اس کے باوجود وہ روم اور ٰفارس کی حکومتوں کے مقابلے میں بےوقعت تھے تو اس لئے کہ ان کے پاس ایک معاشرے کی اصلاح اور اسے منضبط کرنے کی کوئی سوچ نہیں تھی ۔وقت کے رسول ﷺ کی دعوت کا اہم اعلان ہی لوگوں کو جہالت کی سوچ سے باہر نکال کر علم سے روشناس کرنا تھا ۔یہ علم اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ لوگوں کو ایک مضبوط اجتماعی ڈھانچے کے ساتھ منضبط کرکے حرام و حلال کی تمیز کا پابند کر دیا جائے تاکہ ایک پرامن معاشرے کا وجود عمل میں آسکے ۔خلفائے راشدین کا دور اس کا پورا نمونہ ہے ۔یوں کہہ لیں کہ یہی عملی معاشرہ اصل میں قرآن کی تشریح ہے ۔مگر اب یہ سب باتیں کرنا بھی بنیاد پرستی اور کٹر پنتھی سوچ کے مترادف ہے ۔آج بھارت میں جب تک مسلمانوں کے علماء دین اور اہل دانش کا اجتماعی شعور بیدار نہ ہو تو عوام کیسے متحد ہو سکتی ہے !؟

پھر آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ معاشرے کی اصلاح نیچے سے ہوتی ہے اوپر سے نہیں ۔عوام متحد ہو جائیں تو علماء خود متحد ہو جائیں گے !بچے ہی نالائق نکلنے لگیں تو ماں باپ اور استاد کیا کر سکتے ہیں ۔ہیں نا بات صحیح !

Comments are closed.