غیرمسلموں کے تہواروں میں مبارک باد دینے کی شرعی حیثیت محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

غیرمسلموں کے تہواروں میں مبارک باد دینے کی شرعی حیثیت

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

جولوگ غیرمسلم ممالک اورخطوں میں رہتے ہیں، ان کے لئے ایک بڑامسئلہ اس وقت پیداہوجاتاہے، جب ان کے تہوراآتے ہیں؛ کیوں کہ غیرمسلم دوست بھی ہوتے ہیں اوروہ مسلمانوں کے تہواروں میں انھیں مبارک باددیتے رہے ہیں تواب مسلمان اپنے غیرمسلم دوست کومبارک باددے یا نہ دے؟اس تعلق سے علماء کے دورجحانات ہیں:
(الف)  ان کے تہوراوں میں مبارک باد دینادرست نہیں؛ کیوں کہ مبارکباد دینے کامطلب ہے تہواروں کی تائید اورتوثیق اورچوں کہ ان کے تہوار شرک پرمشتمل ہوتے ہیں؛ اس لئے مبارک باددیناشرک کی تائیدہوگی اوریہ نادرست ہے، علامہ ابن قیم ؒ فراماتے ہیں:
وأماالتہنئۃ بشعائرالکفرالمختصۃ بہ، فحرام بالاتفاق، مثل أن یہنئہم بأعیادہم وصومہم، فیقول: عید مبارک علیک، أوتہنأبہذا العید، فہذا وإن سلم قائلہ من الکفرفہو من المحرمات، وہوبمنزلۃ أن یہنئہ بسجودہ للصلیب؛ بل ذلک أعظم إثماعنداللہ وأشد مقتاً من التہنئۃ بشرب الخمر وقتل النفس وارتکاب الفرج الحرام ونحوہ، وکثیر ممن لاقدرللدین عندہ یقع فی ذلک، ولایدری قبح مافعل، فمن ہنأعبدابمعصیۃ أوبدعۃ أوکفر فقد تعرض لمقت اللہ وسخطہ۔(  أحکام أہل الذمۃ: ۱؍۲۰۶)
کفرکے ساتھ مخصوص شعائرکی مبارک باددینابالاتفاق حرام ہے، مثلاً: ان کے تہواروں اورروزوں کی مبارک باددے اورکہے: تمہاری عیدمبارک ہویا یہ عید تمہیں رأس آئے، تواگرچہ کہ اس کاکہنے والاکفرسے مامون رہے گا؛ لیکن یہ محرمات میں سے ہے اوریہ صلیب کے سجدہ کی مبارک باد دینے کے درجہ میں ہے؛ بل کہ گناہ کے اعتبارسے اللہ کے نزدیک اس سے بڑھاہواہے اورحرام شرم گاہ کے ارتکاب، ناحق کسی کوقتل کرنے اورشراب نوشی کی مبارک باد دینے سے زیادہ قبیح ہے، اوربہت سارے وہ لوگ ایساکرتے ہیں، جن کے پاس دین نہیں ہوتا اورجواس کی شناعت سے واقف نہیں ہوتے، لہٰذا جس نے کسی کومعصیت ، بدعت یاکفرکی مبارک باددی تواس نے اپنے آپ کواللہ کی ناراض گی کے سامنے پیش کیا۔
برصغیرکے علماء بھی اسی کے قائل ہیں؛ چنانچہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبندکے ویب سائٹ میں ایک سوال کاجواب یوں دیاگیاہے:
غیرمسلم حضرات کے تہواروغیرہ ان کے مشرکانہ اعتقاد پرمبنی ہوتے ہیں؛ اس لئے ہمارے لئے مشرک سے براء ت اوربے تعلقی کااظہارضروری ہے اورچوںکہ مبارکبادی دینے میں ان کے فکروعقیدے کی توثیق وتائیدہوتی ہے؛ اس لئے اس سے احتراز ضروری ہے، بسااوقات یہ سلب ایمان کابھی باعث ہوسکتاہے(جواب نمبر:145649، Fatwa ID: 103-121/L=1438، https://darulifta-deoband.com/home/ur/world-religions/145649)۔
ان حضرات کی نمایاں دلائل یہ ہیں:
۱-  مبارکبادی دیناشعائرکفرکااقراراوراس سے رضامندی کی دلیل ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
إِن تَکْفُرُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ عَنکُمْ وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَ ۔(الزمر: ۷)
اگرتم کفرکروتواللہ تم سے بے نیازہے اوروہ اپنے بندہ کے کفرسے راضی نہیں ہوتا۔
۲-  غیرمسلم کے تہوارمیں مبارک بادی دینے سے غیرمشروع چیز کی تائید، توثیق اورایک غیرمشروع چیز کی پیروی کے مترادف ہے،جب کہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
وَمَن یَبْتَغِ غَیْْرَ الإِسْلاَمِ دِیْناً فَلَن یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْن۔(آل عمران: ۸۵)
او رجو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہو گا وہ اُس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہو گا ۔
۳-  دین اسلام کواللہ تعالیٰ نے مکمل کردیاہے، جس میںعیدوتہوارکے تعلق سے بھی رہنمائیاں موجودہیں، ان میں غیروں کے اعمال نہیں ہیں تو مبارک بادی دینا گویاایک ایسی چیزکی ایجاد کی تائیدہے، جوممنوع ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً۔(المائدۃ: ۳)
(اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند فرمایا۔
(ب)  دوسرارجحان یہ ہے کہ جن کافروں سے مصالحت ہو، ان کومبارک باددیناجائزہے؛ کیوں کہ یہ صرف زبان سے اداکئے جانے والے کلمات ہیں، ان کے مشرکانہ عقائدسے رضامندی اوراس کے اقرارکی دلیل نہیں ہیں، یہ بس بھائی چارگی اوراچھے سلوک کی بات ہے؛ البتہ اس بات کی رعایت ضروری ہے کہ مبارک بادی کے کلمات ایسے نہ ہوں، جومبادیات اسلام سے متعارض ہوں، اسی رائے کے قائل عالم اسلام کے مشہورفقیہ ڈاکٹریوسف القرضاوی بھی ہیں؛ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
فلامانع إذن أن یہنئہم الفردالمسلم، أو المرکز الإسلامي بہذہ المناسبۃ مشافہۃ أوبالبطاقات التی لاتشتمل علی شعائرأوعبارات دینیۃ تتعارض مع مبادی الإسلام … والکلمات المعتادۃ للتہنئۃ فی مثل ہذہ المناسبات لاتشتمل علی أي إقرارلہم علی دینہم، أورضاً بذلک، إنماہی کلمات مجاملۃ تعارفہاالناس۔ (  فی فقہ الأقلیات المسلمۃ، ص: ۱۴۹)
بس کوئی چیز اس بات سے مانع نہیں ہے کہ مسلم فرد، یا اسلامی مرکزکی جانب سے سے ان کے تہواروں میں زبانی طور پر یا تہنیتی کارڈس(Greeting Cards)کے ذریعہ سے مبارک باد دی جائے، بشرطیکہ ایسے دینی شعائر یا عبارات پر مشتمل نہ ہو، جو اسلامی بنیادی تعلیمات سے متصادم ہو…اوران مواقع پرمبارک بادی کے لئے مستعمل ہونے والے الفاظ نہ توان کے دین کی تائیدپرمشتمل ہوتے ہیں اورناہی ان سے رضامندی کا اقرار ہوتا ہے، یہ توبس خوش اخلاقی کے ساتھ پیش کئے جانے والے چندکلمات ہوتے ہیں۔
ان حضرات کی نمایاں دلائل درج ذیل ہیں:
۱-  اللہ تعالیٰ نے مصالحت کرنے والے کفارسے عدل واحسان کاحکم دیاہے؛ چنانچہ ارشادباری ہے:لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ٭إِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْہُمْ وَمَن یَتَوَلَّہُمْ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ ۔(الممتحنۃ: ۸-۹) ’’ جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے٭ اللہ انہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں‘‘، مبارک بادی بھی اسی قبیل سے ہے۔
۲-  حضرت اسماءؓ بنت ابوبکرؓ کی ماں آئیں توانھوں نے آپﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! میری ماں میرے پاس آئی ہیں، وہ مشرکہ ہیں، وہ کچھ امیدرکھتی ہیں توکیامیں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟‘‘تواللہ رسول ﷺ نے جواب دیا: صلی أمک۔’’اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو‘‘(  صحیح  البخاری، حدیث نمبر: ۲۶۲۰)۔
۳-  اللہ رسول ﷺ نے لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے معاملہ کرنے کاحکم فرمایاہے، حضرت معاذؓ کووصیت کرتے ہوئے فرمایا: اتق اللہ حیثما کنت، وأتبع السیئۃ الحسنۃ تمحہا، وخالق الناس بخلق حسن۔ (مسندأحمد، حدیث نمبر: ۲۲۰۶۰) ’’جہاں کہیں بھی رہو، اللہ سے ڈرواورغلط کام کے بعدنیکی کرو، وہ برائی کومٹادیتی ہے اورلوگوں کے ساتھ اچھے ڈھنگ سے پیش آؤ‘‘۔
۴-  اللہ تعالیٰ نے اچھائی کابدلہ اچھائی سے اورسلام وتحیۃ کابدلہ بہترسلام وتحیۃ سے دینے کاحکم فرمایاہے: وَإِذَا حُیِّیْْتُم بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْہَا أَوْ رُدُّوہَا إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ حَسِیْباً۔(النساء: ۸۶) ’’اور جب تم کو کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اُس سے بہتر (کلمے) سے (اُسے) دعا دو یا انہیں لفظوں سے دعا دو بیشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے‘‘، اور مبارک بادی دینا بھی اسی قبیل سے ہے۔
تاہم دونوں گروہ نے ان کے تہواروں میں شرکت کی اجازت نہیں دی ہے( فی فقہ الأقلیات المسلمۃ، ص: ۱۵۰، الموسوعۃ المیسرۃ فی فقہ القضایا المعاصرۃ(قسم فقہ الأقلیات المسلمۃ)،ص: ۳۴۱)۔
قول راجح
راقم حروف کے نزدیک راجح یہ ہے کہ نہ توکھلے عام مبارک باد دینے کی اجازت دی جائے اورناہی کلیۃً ممنوع قراردیاجائے؛ بل کہ جہاںمبارک بادی نہ دینے پرخطرہ ہوجان کا، فتنہ کا، انتشارکا، مال کا، یاپھرحالات اورماحول اس کامتقاضی ہوتووہاں مبارک بادی دینے کی گنجائش ہے، ہذاماعندی، واللہ أعلم بالصواب!

محمد جمیل اختر جلیلی
پوچری، دھنباد
(جھارکھنڈ)

Comments are closed.