کانگریس کے برے دن، قیادت کی نا اہلی

عبد العزیز
کانگریس میں خرابی بڑھتی جارہی ہے -جو لوگ کانگریس میں رہ کر پارٹی کے کاموں کا احتساب اور جائزہ لینے کی بات کر رہے ہیں ان کی مخالفت پارٹی کے حاشیہ بردار کرسی اور عہدے کے لیے کر رہے ہیں یا جو مستحق نہیں تھے عہدہ پا گئے ہیں وہ راہ دکھانے والے کی محض اس لیے مخالفت کر رہے ہیں کہ وہ نہیں چاہتے کہ حقدار کو حق ملے۔ کپیل سیبل نے پارٹی کوIntrospectiion( خود احتسابی) کی بات کہی کہ بہار کے الیکشن اور مختلف ریاستوں کے ضمنی انتخابات میں کانگریس کی کارکردگی کی انتہائی خراب ہوئی ہے تو سلمان خورشید نے اسے پارٹی کی مخالفت سے تعبیر کیا تاکہ گاندھی خاندان میں ان کی پذیرائی ہو اور جب عہدے کی تقسیم ہو تو محروم نہ ہو ں۔ لوک سبھا میں کانگریس کے باصلاحیت ممبر ہیں سشی تھرور، منیش تیواری وغیرہ مگر گاندھی خاندان نے ادھیر رنجن چودھری جیسے کم صلا حیت کے آدمی کو لیڈر آف اپوزیشن بنا دیا گیا ۔
مغربی بنگال میں بھی اسی طرح کا عمل دہرایا گیا بنگال میں گاندھی خاندان کو کوئی متحرک اور فعال چہرہ نظر نہیں آیا ۔اب ادھیر چودھری کپیل سبل جیسے لوگوں کو جو ان سے دس گنا با صلاحیت ہیں اور کانگریس کے لیے ان کی خدمات ہیں ایسے دانشور اور چوٹی کے قانون داں کے کسی پارٹی میں رہنے سے اس کے وقار اور مرتبہ میں اضافہ ہوتا ہے ایسے آدمی کو ادھیر رنجن چودھری جیسے لوگ جن کے بارے میں ریاست یا ریاست کے باہر کوئی اچھی رائے نہیں ہے وہ فرما رہے ہیں کہ کپیل سبل جیسے لوگ جو خود احتسابی کی بات کر رہے ہیں اگر پارٹی پسند نہیں ہے تو پارٹی چھوڑ دیں جہاں جانا چاہیںچلے جائیں۔ جس پارٹی میں شامل ہو نا چاہیں شامل ہو جائیں۔ افسوس کی بات ہے کہ سونیا گاندھی یا راہل گاندھی کی طرف سے ایسی نا مناسب باتوں کی مذمت نہیں کی گئی۔ ایسی ہی تساہل پسندی یا تغافلِ عارفانہ کی وجہ سے سندھیا جیسے لیڈر کو پارٹی سے نکلنا پڑا نہ ریاستی قیادت فکر مند ہوئی نہ راہل گاندھی یا سونیا گاندھی نے کسی قسم کی کوشش کی ۔جس کی وجہ سے مدھیہ پردیش جیسی ریاست جہاں کانگریس کی حکومت تھی ہاتھ سے نکل گئی۔ ضمنی انتخاب میں بھی بی جے پی سے مات کھا گئی جب ہاتھ میں آئی ہوئی چیز سے اس طرح محرومی ہو جائے تو آخر ایسی پارٹی سے عوام کیسے بھروسہ رکھ سکتے ہیں؟ پارٹی کے غلط لوگ یا پارٹی کی مرکزی قیادت بھی کپیل سبل کے ساتھ ایسا سلوک کر رہی ہے کہ وہ پارٹی چھوڑ کر چلے جائیں یا ہمیشہ کے لیے منہ بند کر لیں جو بھی اچھا برا ہو خاموشی سے تماشا دیکھتے رہیں ۔
کانگریس کی سب سے بڑی کمزروی پارٹی میں عدم جمہوریت ہے جب کسی پارٹی میں جمہوریت نہیں ہوتی ہے تو اس پارٹی میں مشاورت کا عمل آہستہ آہستہ دم توڑ دیتا ہے۔ پھر وہ چند گنے چنے لوگ جو مرکزی لیڈر کی خوشامد اور حاشیہ بردار ی میں لگے رہتے ہیں ان کی پارٹی بن کر رہ جاتی جو لوگ تنقید و احتسابی عمل کی طرف توجہ دلا تے ہیں وہ پہلے آمرانہ قیادت اور چندال چوکڑی انہیں ناپسندیدہ نظر سے دیکھتی ہے۔ پھر وہ بدظن ہوکر پارٹی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں یا ان کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح پارٹی کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ کانگریس کے اندر اور اس کے باہر ہیں جو لوگ اسے مضبوط ومستحکم دیکھنا چاہتے ہیں ۔اس کے محض دو اسباب ہیں ایک وجہ تو یہ ہے کہ ملک کو ایک مضبوط اپوزیشن کی ضرورت ہے جو حکمراں جماعت کو چیلنج کرسکے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کرسکے ۔ دوسری وجہ یہ کہ ملک میں اپوزیشن کے اندر کوئی دوسری پارٹی نہیں ہے جو ملک گیر ہو اور جس کی کئی ریاستوں میں حکومت ہو جو حکمراں پارٹی کی متبادل بن سکے ۔کانگریس اپنی اس حیثیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
اس وقت سونیا گاندھی کو زبردستی قیادت کے منصب پر پارٹی کو ٹوٹنے سے بچا نے کے لئے باقی رکھا گیا ہے۔ وہ بیمار بھی ہیں اور ضعیف العمر بھی ہیں۔ سونیا گاندھی اور پارٹی کے بزرگ لیڈروں نے راہل گاندھی کو قیادت کے منصب کے لیے پرموٹ کیا تھا مگر وہ لوگ سبھا کے گزشتہ الیکشن میں کانگریس کی کراری ہار سے دل برداشتہ ہو گئے اور قیادت سے بظاہر الگ ہو گئے ۔مگر وہ الگ ہونے کے باوجو پس پردہ پارٹی پر نیم در وں ، نیم بروں ہوکر پارٹی پر حاوی ہیں۔نہ خوو پارٹی کی قیادت سنبھال رہے ہیں اور نہ دوسرے کے لیے راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت پارٹی کو اندر اور باہر سے راہل گاندھی سخت نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ڈیڑھ سال ہونے کو آیا یہ ملک گیر پارٹی اپنا ایک ہمہ وقتی صدر یا لیڈر نہیں چن سکی۔ کام چلائوقیادت پر انحصار کئے ہوئے ہے۔میرے خیال سے پارٹی کے لئے برادن تو ہے ہی ملک کے لیے بھی برادن ہی کہا جا ئے گا کیونکہ ایک سو سالہ پارٹی زندگی کی علامت سے محروم ہوا چاہتی ہے جو لوگ اسے اندر اور باہر سے صحیح اور خیر خواہانہ مشورہ دے رہے ہیں اس کو نظر انداز کر رہی ہے۔ راہل گاندھی کو جواں فکر اور جواں سال تیجسوی پرساد یادو کی قیادت سے سبق لینا چاہیے اور کچھ کر دیکھا نا چاہئے۔ نہیں تو پرینکا گاندھی یا کسی اور کے لیے دیوار نہیں بننا چاہئے۔
()()()
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
Comments are closed.