بہار میں سیکولرزم کی شکست نے اقتدار کو مسلم مکت کردیا’’الزام جو آنا تھا دیوانوں کے سرآیا‘‘

خصوصی تحریر :سعید پٹیل جلگاؤں
بہار میں راجد سب سے بڑی پارٹی بن کرابھری ،لیکن مھاگٹھبندھن میں شامل بائیں بازوں کی پارٹی نے زیادہ نشستیں جیت کر سب کو تعجب میں ڈال دیا۔مارکسوادی،لینین وادی کمیونیسٹ پارٹی نے ١٢ نشستیں جیت کر شاندار کامیابی حاصل کی۔لیکن ان کی جیت سے بھی مہاگٹھبندھن کو اقتدار نہیں ملا۔اس چناؤ میں برسراقتداراین ڈی اے نے چناوی تشہیری مہم میں کوئ نیا مدعا پیش نہیں کیا۔بی جے پی کا سارا زور صرف وزیراعظم ہی کاچہرہ تھا۔بہار کو ترقی یافتہ ریاست بنانے کا وعدہ کرنےوالے وزیراعلیٰ کو اپنی سیاست اور اپنی کرسی بچانےکےلئے کوئ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔لوک جن شکتی کے چراغ پاسوان کی چناؤ میں تنہا رہنے کی چال مشکوک رہی۔کیونکہ انھوں نے جنتادل یو کےخلاف محاذ کھولا ہواتھا۔یہاں وزیراعلیٰ نتیش کمار کو اقتدار سے باہر کرنے کی حکمت عملی پر کام کیاگیا۔لیکن نتائج کی مجبوری نے پھر سے انھیں ان کے ساتھیوں نے قومی جمہوری اتحاد کو آخر اقتدار سونپ دیا۔حالانکہ ان کی جیت ویسی نہیں ہوئ جیسی وہ بول رہے تھےکہ ہم اکثریت حاصل کرلیں گے۔راجد کے تیجسوی یادو اس نوجوان سیاستداں نے خوب محنت سے مقابلے کو دلچسپ ہی نہیں بنایا بلکہ خود تیجسوی یادو بڑے پیمانےپر قومی سیاست میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب بھی ہوئے۔اس چناؤ میں راجد اور کانگریس کو نقصان اٹھانا پڑا۔اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہےکہ یہاں مسلم اور پسماندہ طبقات تقسیم ہوئے اور کانگریس کی کارکردگی رائےدہندگان کو اپنی طرف متوجہ کرنےمیں کمزور ثابت ہوئی۔ریاست میں ۱۸ مسلم امیدوار کامیاب ہونےکے بعد بھی وہ اقتدار کا حصہ نہیں بن سکے۔اور یہی حربہ یہاں پر کامیاب ہوا۔یعنی مسلم مکت حکومت کی تشکیل عمل میں آئی ہے۔شاید اب ریاست میں جذباتی سیاست زور پکڑیں گی۔اور یہی سیاست موجودہ دور میں این ڈی اے کودرکار تھی۔؟ بہار کی اسمبلی انتخابات اور حکومت سازی کے تعلق سے صرف یہی کہا جاسکتا کہ’’الزام جو آنا تھا دیوانوں کے سر آیا‘‘۔

Comments are closed.