Baseerat Online News Portal

تاریخ کابڑاکڑواسچ

سمیع اللہ ملک
کیامودی سرکارامریکااورمغرب کی مددسے چین کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرونفوذکوروکنے میں کامیاب ہوسکے گا؟کیاسی پیک پراجیکٹ کوپایہ تکمیل تک پہنچنے میں رکاوٹ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتاہے؟کیالداخ میں ہونے والی چین بھارت فوجی جھڑپ کے پیچھے امریکی ساش کارفرماتھی؟کیاحالیہ لداخ میں بھارتی سینا کی شرمناک شکست کے بعد امریکااس خطے میں جنگ کی آگ بھڑکاکراپنے مذموم مقاصدکے حصول میں کامیاب ہوسکے گا؟ایسے کئی اورسوالات عالمی سیاست منظرنامے پرگردش کر رہے ہیں جس پردوامریکی ماہرین نے اپنے مقالے میں روشنی دالی ہے۔اسٹریٹجک امورکے دوامریکی ماہرین نے ایک مقالے میں کہاہے کہ لائن آف ایکچیوئل کنٹرول(ایل اے سی)پرچین نے حال ہی میں بھارت کاجوحال کیاہے اس کا تدارک یقینی نہ بنایاگیاتوآئندہ اس حوالے سے کوئی بھی کارروائی پہلے سے کہیں زیادہ دشوارثابت ہوگی۔
لداخ میں لائن آف ایکچیوئل کنٹرول کے نزدیک بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے لوک سبھا میں اس اعتراف کے بعدکہ چین نے لداخ کے 38ہزارمربع کلومیٹرکے علاقے پر قبضہ کرلیاہے اوراس کے ساتھ ساتھ چین اروناچل پردیش میں ہندچین سرحدکے مشرقی حصے میں مزید90ہزارمربع کلومیٹرعلاقے پردعوی کررہاہے۔امریکی ماہرین نے مقالے میں لکھاہے کہ یہ قبضہ ختم کرانابھارت کیلئے ناگزیر ہے مگراس کے امکانات دھندلاتے جارہے ہیں۔امریکی ریاست میساچوسیٹس کے شہرکیمبرج میں میسا چوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی(ایم آئی ٹی)کے سینٹرفارانٹرنیشنل اسٹڈیزکیلئے لکھے جانے والے ایک تحقیقی مقالے میں ایم آئی ٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر وپن نارنگ اورنیو یارک اسٹیٹ کی البینی یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسرکرسٹوفرکلیری کے مطابق چین کے مقابلے میں بھارت کیلئے کچھ بامعنی کرنے کاآپشن کمزورپڑتاجارہاہے اوراب ہرگزایساآسان نہیں،جیسادکھائی دیتاہے۔
مقالے میں اس نکتے پرزوردیاگیاہے کہ چینی فوج نے جس نوعیت کی مہم جوئی دکھائی ہے،اس کا تدارک بروقت لازم ہے تاکہ یہ عمل روکاجاسکے اورنقصان کاگراف نیچے رکھنابھی ممکن ہو۔وپن نارنگ اورکرسٹوفرکلیری نے اس سلسلے میں عالمی سلامتی اورعلاقے فتح کرنے سے متعلق امورکے ماہرامریکاکی جارجیایونیورسٹی کے ڈین آلٹمین کابھی حوالہ دیاکہ ’’کسی بھی فوج کی طرف سے حملے کے نتیجے میں اگرکسی ملک کاکچھ علاقہ ہاتھ سے جاتارہے،تواسے واپس لینے کیلئے جوکچھ بھی کرناہے وہ محض بھرپورنہ ہوبلکہ بروقت بھی ہو۔اس معاملے میں ٹائمنگ کی بہت اہمیت ہے‘‘۔
کسی بھی علاقے کودوبارہ حاصل کرنے سے متعلق بروقت اقدامات کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ جارح قوت اپنا قبضہ مضبوط کرنے کیلئے کوشاں رہتی ہے۔وہ معاملات کواپنے حق میں کرنے کیلئے نیونارمل کاقیام یقینی بناتی ہے یعنی یہ کہ جوکچھ اب دکھائی دے رہاہے وہی حقیقت پرمبنی ہے اوردعوے کرنے،ہوامیں تیرچلانے کی کچھ اہمیت نہیں۔لداخ کے معاملے میں یہی ہواہے۔ چین نے بات چیت کی راہ ہموارکرنے پرتوجہ دی ہے،تاکہ مقبوضہ رقبے پراپنی گرفت زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائی جاسکے۔اگر وقت زیادہ گزرجائے توقبضہ ختم کراناانتہائی دشوارثابت ہوتاہے۔وپن نارنگ اورکرسٹوفر کلیری کے اس مقالیکاعنوان ہے:انڈیاز پینگانگ پکل:نیودہلیزآپشنزآفٹراِٹزکلیش وِدچائنا۔آلٹمین کے مطابق دنیابھرمیں کسی دوسرے ملک کی زمین پرقبضہ کرنے کے59 واقعات ریکارڈہوئے ہیں جن میں47معاملات میں جارح اورقابض قوت نے اپناقبضہ ایک عشرے سے بھی زائدمدت تک برقرار رکھاہے۔بھارت کیلئینئی اورتلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمالیہ کے دامن میں چین اپنی نئی”ریئل اسٹیٹپرتادیرقابض رہ سکتاہے۔
مقالے کے مطابق بھارت کے پاس پہلاممکنہ متبادل یاحل تویہ ہے کہ وہ بھرپورکوشش کرکے اپنی زمین سے پیپلزلبریشن آرمی (چینی فوج)کونکال باہرکرے مگراس کیلئیزیادہ نفری اورزیادہ سامان درکارہوگا۔بھارت کی اب تک کی مشکلات دیکھتے ہوئے یہ ناممکن دکھائی دیتاہے۔وقت چین کاساتھ دے رہاہے جوایل اے سی پراپنی پوزیشن مستحکم ترکرتاجارہا ہے۔یہ سب کچھ بھارت کے امکانات کومزیددھندلارہاہے۔فوجی کمانڈروں کی بڑھک سے قطع نظر،بھارت کیلئے اس وقت کسی ایک مقام پربھی جواب دیناممکن نہیں رہا۔تمام متنازع مقامات پرکچھ کردکھانے کی بات تورہنے ہی دیجیے۔
مزید یہ کہ لداخ کے علاقے کی طبعی ساخت دفاع کرنے والے کیلئے زیادہ موافق ہے۔بھارتی فوج کے اندازوں کے مطابق معاملہ یہ ہے کہ کسی بھی علاقے میں اپنی حیثیت منوانے کیلئے ایک کے مقابلے میں تین کے تناسب سے کام کرناپڑے گا۔دفاع کرنے والا ایک ہوتوحملہ کرنے والے تین ہونے چاہییں۔پیچیدہ پہاڑی علاقوں میں یہ تناسب ایک اوردس کااوربعض انتہائی بلند مقامات پراس سے بھی زیادہ ہے۔1999میں بھارتی فوج کوکارگل میں ایسی ہی بھیانک صورت حال کاسامناکرناپڑاتھااورکئی ہزارفوجیوں کے تابوتوں نے سارے بھارت میں کہرام مچادیاتھا۔
بھارت کیلئے دوسرااوربدترآپشن یامتبادل یہ ہے کہ کسی اورمقام پرچین کے کچھ علاقے پرقبضہ کرے اورلائن آف ایکچیوئل کنٹرول پرچینی قبضہ ختم کرانے کیلئے اسے بروئے کارلائے ۔ اسپیشل فرنٹیئرفورس(ایس ایف ایف)نے اگست کے اواخر میں پینگانگ سو تالاب کے جنوبی کنارے پرچند بلندیاں کنٹرول میں لی تھیں،تاہم ایک سینئربھارتی آرمی افسرکے مطابق یہ معاملہ اپنے ہی علاقے کاتھا۔اس کی مددسے چین کولداخ میں بھارتی علاقے سے قبضہ ختم کرنے پرمجبورنہیں کیاجاسکتا۔مقالے میں یہ نکتہ بھی تفصیل سے بیان کیاگیاہے کہ بھارتی بحریہ بحرہندکے خطے میں توچینی بحریہ سے کسی حد تک برابری کرسکتی ہے مگربحیرہ جنوبی چین اورمغربی بحرالکاہل کے خطے میں چین کے مقابل اس کے آپشنزخاصے محدوداور کمزورہیں۔ علاوہ ازیں سمندروں میں جو کچھ بھی ہوتارہاہے اس کازمین پرزیادہ اثراب تک دیکھانہیں گیا۔
معاشی معاملات میں بھی بھارت کوچین کے مقابل مشکلات کاسامنارہاہے۔دوطرفہ تجارت کاتوازن چین کے حق میں ہے۔فارماسیو ٹیکلزاورالیکٹرانک مائکروچپس کے شعبوں میں چین خصوصی طورپربھارت سے بہت آگے ہے۔بھارت اگرچاہے تومعاشی سطح پرکوئی آپشن اپناسکتاہے یعنی دوطرفہ تجارت کوچین پردباوڈالنے کیلئے بروئے کارلایاجاسکتاہے مگرفی الحال لداخ کی صورت حال کے حوالے سے چین کوپریشان کرنے کیلئے معاشی محاذپرکچھ خاص نہیں کیاجاسکتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چین پردباؤ ڈالنے کیلئے سفارتی سطح پرتھوڑی بہت کوشش کی جاسکتی ہے۔آسٹریلیا،جاپان اورامریکاکے اتحادکوبروئے کارلانے پرتوجہ دی جاسکتی تھی مگراب اس اتحاد سے بھی کچھ زیادہ توقع وابستہ نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس بات کی بظاہرکوئی نسبتی اہمیت نہیں کہ چینی فوج لداخ کامفتوحہ علاقہ بھارت کے حوالے کرے۔
بھارت کیلئے تیسرااوریقینی طورپربدنماترین آپشن یہ ہے کہ وہ لداخ میں اپنے علاقے پرچین کاقبضہ،غیراعلانیہ طورپرہی سہی، تسلیم کرلے اوراندرون ملک مرتب ہونے والے دباؤ کویہ کہتے ہوئے ختم کرنے کی کوشش کرے کہ جس علاقے پرچین نے قبضہ کیاہے وہ بھارت کاہے ہی نہیں!مگرایساکرنے کی صورت میں چین کومزیدبہت کچھ کرنے کاموقع ملے گا کیونکہ اس کے حوصلے بڑھ جائیں گے۔بھارتی اخبارات کاکہناہے کہ بھارت نے مشرقی لداخ میں عملاًچینی بالادستی تسلیم کرلی ہے۔چین نے بھی کمپنی شین جھیک انفوٹیک اورشنہوا انفوٹیک کے ذریعے پورے بھارت پرنظررکھی ہوئی ہے۔بھارتی وزارت داخلہ،خارجہ اوردفاع کے حکام کی ڈیجیٹل مانیٹرنگ ہورہی ہے۔
بھارت کے پاس فوجی،سفارتی اورمعاشی آپشنزموجودہیں مگرپھربھی ہوسکتاہے کہ نئی دہلی کے پاس بھارتی علاقے پرچینی فوج کے قبضے کوتسلیم کرنے کے سواکوئی معقول آپشن نہ بچے ۔ چین کومستقبل میں مزیدبھارتی علاقے پرقبضہ کرنے سے روکنے کیلئے نئی دہلی کے پالیسی سازوں کواس خطے میں بڑے پیمانے پرعسکری نقل وحرکت یقینی بناناہوگی۔عسکری امور کے متعدد بھارتی ماہرین خبردارکرچکے ہیں کہ لائن آف ایکچیوئل کنٹرول کے علاقے میں بڑے پیمانے پرفوجی نقل وحرکت کے نتیجے میں وہاں بھی وہی صورتِ حال پیداہوسکتی ہے جو مقبوضہ جموں وکشمیرمیں لائن آف کنٹرول پردکھائی دے رہی ہے۔یہاں یہ نکتہ نظر اندازنہ کیاجائے کہ بڑے پیمانے پرفوجی نقل وحرکت عام حالات میں بھی مشکل ہی ہوتی ہے تو کورونا وبا کے دورمیں کیااثرات مرتب ہوں گے،اس کااندازہ لگاناکچھ دشوارنہیں اوراس وباکے ہاتھوں جومعاشی بحران پیداہواہے اس نے امکانات کوخاصامحدود کردیاہے۔
وپن نارنگ اورکرسٹوفرکلیری نے اپنے مقالے میں لکھاہے کہ کبھی نہ کبھی توبھارت کواپنی ناکام پالیسیوں پربھی غورکرناہوگا کہ آخرایسی کون سی غلطیاں سرزدہوئیں،کون سی کوتاہی کا ارتکاب ہوا،جس کے نتیجے میں چین نے عسکری مہم جوئی کی راہ پر گامزن ہوکرکئی مقامات پرقبضہ کیا۔یہ توکوئی بھی سوچ سکتاہے کہ بھارتی قیادت کوخفیہ رپورٹس کی بنیادپرپتاتوچل ہی گیاہوگاکہ چینی فوج کس نوعیت کی مہم جوئیاں کرنے والی ہے توپھرروک تھام کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟اس وقت توبھارت کیلئے کرنے کافوری کام یہ ہے کہ خوںریزی روکے ۔ یہ خوںریزی جوہری ہتھیاروں کی حامل دوبڑی ریاستوں کے درمیان کسی بڑے اورزیادہ تباہ کن عسکری مناقشے کی راہ بھی ہموارکرسکتی ہے۔بین الاقوامی سیاست میں کسی بھی علاقے پرقبضہ قانون کا90فیصدنہیں بلکہ 100فیصدقانون ہے۔
قومی سلامتی کے بھارتی پالیسی سازاورماہرین کواب طے کرناہوگاکہ خطے میں تمام پڑوسیوں پربالادستی کاخواب کہیں بھارت کاشیرازہ نہ بکھیردے۔ شمال اورشمال مشرق میں چین سے خطرات بڑھتے ہی جارہے ہیں اورحالیہ رات کی تاریکی میں بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان نے دن کی روشنی میں جس طرح بھارت کوخاک چٹائی ہے،اسے جہاں ساری دنیانے اسے دیکھ لیاہے وہاں سفاک ہندوکوبھی اپنی اوقات یادآگئی ہے۔
چین سے نمٹنے کیلئے کیااورکس طور کرنا ہے۔ ایسے میں عسکری منصوبہ بندی اور قومی سلامتی کے معاملات سے جڑے ہوئے تمام لوگوں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہتھکنڈوں کے بغیر حکمت عملی ترتیب دینا فتح تک پہنچانے والا سب سے سست رفتار راستہ ہے، اور حکمت عملی کے بغیر اپنائے جانے والے ہتھکنڈے شکست سے قبل کی چیخ پکار کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت کے خاتمے اورخصوصالداخ کے دہلی حکومت کے زیرتسلط آتے ہی چین نے بھارتی اقدام پر اعتراض کیاتھا۔مودی حکومت کے پاس خفیہ اطلاعات تھیں کہ چین لداخ میں بہت کچھ کربھی رہاہے اوربہت کچھ کرنے والابھی ہے۔بھارتی عوام اپنی حکومت سے پوچھ رہی ہے کہ چینی فوجی بھارت کے علاقے میں کب داخل ہوئے؟دو جون 2017کومودی نے روس کے سینٹ پیٹرزبرگ انٹرنیشنل اکنامک فورم میں چین کادل جیتنے کیلئے کہاتھاکہ چین اوربھارت میں سرحدی تنازع کے باوجودپچھلے چالیس سال میں دونوں ممالک کے درمیان ایک بھی گولی نہیں چلی۔چین نے بھی مودی کے اس بیان کاخیر مقدم کیاتھا۔یہ تین سال پہلے کی بات ہے اوراب صورتحال یہ ہے کہ لداخ میں شرمناک پسپائی کے بعدمودی دنیابھرسے منہ چھپا رہاہے بلکہ ایک رائے یہ بھی گردش کررہی ہے کہ اپنی فوجیوں کی’’بلی”دیکرامریکاسے فوجی مددکاڈرامہ رچایاگیا۔
امریکااورمغرب کوچین کا”ہوا”دکھاکرفوائدسمیٹنے کی پالیسی اختیارکی گئی اوربھارت کسی حدتک اس میں کامیاب توہوگیاکہ25/اکتوبرکو امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو اوروزیر دفاع مارک ایسپرکے ساتھ اعلی سطحی مذاکرات کے بعدحساس سیٹلائیٹ ڈیٹاکی فراہمی کے حوالے سیایک دفاعی معاہدے پردستخط کئے ہیں۔اس حساس ڈیٹاکی مددسے انڈیااس قابل ہوجائے گاکہ وہ میزائلوں، ڈرونزاوردیگر اہداف کودرست اوربالکل ٹھیک ٹھیک اندازسے نشانہ بناسکے گا۔قابل ذکربات تویہ ہے کہ افغانستان میں امریکا ایڑھی چوٹی کازور لگاتے ہوئے اپنی ہرقسم کی جدیدترین ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے باوجودجس طرح رسواہوکرنکل رہاہے،کیابھارت صرف ٹیکنالوجی کے حصول کے بعداس لائق ہوجائے گاکہ ہزاروں میل دوربیٹھے امریکاپرچین کاجوخوف طاری ہے،اس کامقابلہ کر سکے؟
تاہم امریکی سیاسی ودفاعی تجزیہ نگارچین کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرورسوخ سے خوفزدہ ہوکربھارت کی’’بلی‘‘دینے میں عافیت سمجھ رہے ہیںتاہم مودی کویہ بات ذہن نشیں کرنی چاہئے کہ چین بھارت کی طرح انتخابات کوذہن میں رکھتے ہوئے اگلے پانچ سال کیلئے پالیسیاں نہیں بناتا بلکہ وہ اگلے پچاس سال کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی پرکام کرتاہے اور اسے انجام تک پہنچاتاہے۔ امریکاکے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ اپنے مفادات کی تکمیل کے بعدفوری اپنے اسی دوست کی’’بلی‘‘دیتاہے جس کی لاش پر یہ قدم رکھ کراپنی کامیابی کاراستہ عبورکرتاہے تاہم یہ بھی تاریخ کابڑاکڑواسچ ہے کہ امریکانے اب تک دنیاکے39ممالک میں جارحیت کاارتکاب کیاہے لیکن فتح کرناتودرکنارآج تک کسی بھی ملک میں مکمل قبضہ نہیں جماسکاہے بلکہ ہرملک سے ذلت و رسوائی سے نکلناپڑاہے۔لیکن اب یہ طے ہوگیاہے کہ اس مرتبہ امریکاکے حصے کی بھی رسوائی بھارت کے چہرہ کوداغدار کرکے چھوڑے گی ،ان شااللہ۔

 

Comments are closed.