سرورِ جاوداں! ظفر امام قاسمی

جب میری عمر کھیلنے کودنے کی ہوا کرتی تھی اور بھلے برے کی تمیز سے یکسر نا آشنا اور بے بہرہ تھا، اس وقت ہماری پرچون کی ایک دوکان ہوا کرتی تھی، شروع شروع میں تو ہمارے والد صاحب مدظلہ ہی اس کو سنبھالتے تھے اور دوکان کا سودا سلف لانے سے لیکر غلہ (رقم رکھنے کی صندوقچی) میں بیٹھنے تک کا سارا کام وہی نپٹایا کرتے تھے۔
پھر رفتہ رفتہ وقت گزرتا گیا، اور مجھ سے بڑے والے بھائی ( جناب مظہر الاسلام صاحب) کا حساب کتاب کچھ پختہ ہوگیا اور وہ اس قابل ہوگئے کہ گاہکوں کو سنبھال سکیں تو والد صاحب نے دوکان کے گاہکوں کو انہی کے حوالے کردیا اس کے بعد اکثر اوقات میرے بھائی ہی دوکان پر بیٹھنے لگے۔
میں چونکہ اس کا چھوٹا بھائی تھا اور اس وقت تک کچھ کچھ سوچ سمجھ کی کرنیں خانۂ ذہن میں پھوٹ چکی تھیں، گوکہ ابھی کہیں باضابطہ طور پر جا کر پڑھائی کا آغاز نہیں کیا تھا، تو کبھی کبھار میں بھی ان کے ساتھ دوکان پر جا بیٹھتا اور دوکانی کاموں کے جوار بھاٹے کو سمجھنے کی ناکام کوشش کرنے لگتا۔
ہماری اس دوکان کا ایک مستقل گاہک تھا، جو مذہب کے اعتبار سے ہندو اور عمر کے لحاظ سے جہاں دیدہ آدمی تھا، اس کے سر کے سارے بال سفید تو ہوئے ہی تھے، بھنوئیں بھی سفید ہونے کو آئی تھیں،تنگ دستی اور غربت نے اس پر اتنی یلغاریں کی تھیں کہ اس کا جسم جیتے جی ادھ موا ہوگیا تھا،کمر حالتِ رکوع میں پہونچ گئی تھی اور شاید باید ہی اس کا وجود نئے کپڑے کے لمس سے لذت آشنا ہوپاتا تھا، بس لے دے کر ہر وقت رانوں کے بیچ ایک فرسودہ قسم کی دھوتی پھنسی رہتی تھی اور ایک پھٹا پرانا تہبند وہ کندھے پرلٹکائے رکھتا تھا، ضرورت کے وقت اسی کو زیب تن کرلیا کرتا تھا۔
اس کا روز مرہ کا معمول تھا کہ جب دن ڈھل جاتا، شام کے سائے مکمل طریقے پر شفق کی اوٹ میں پرسکون ہوجاتے، پرندوں کی بستیوں میں ہو حق کی صدائیں خاموش ہوجاتیں اور مسجد کے میناروں سے مغرب کی مترنم اذانیں بلند ہونے لگتیں تو زمانے کا وہ ستم رسیدہ انسان کمر جھکائے اور زمین پر لاٹھی ٹیکتے بڑی مشکل سے کہیں سے دو تین روپے اکٹھے کر کے ہماری دوکان پر آجاتا اور پچاس پیسے کا تیل، پچیس پیسے کا نمک، ایک روپیہ کا چاول اور آٹھ آنے کا آلو وغیرہ خریدتا اور ان کو اپنے تہبند میں لپیٹ کر آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر جس طرف سے آتا اس طرف ہی غائب ہوجاتا، اور گھر جاکر اپنے اسی مرتعش جسم کے ساتھ خود سے چولہا پھونکتا اور چولہے کے دہانے سے نکلتے دھوئیں سے ہاتھا پائی کرتے ہوئے کھانا تیار کرتا اور دن بھر کے بھوکے پیٹ میں چند نوالے ڈال کر بے خبر سوجاتا۔
چند سال ہوئے وہ زمانے کے سرد و گرم سے نبرد آزما ہوتے ہوئے موت کی آغوش میں سوچکا ہے،اس کے مٹی کی خوراک بننے کے بعد اس کے بیٹے بھتیجوں نے دبی زبان میں بعض مسلمانوں کے پاس یہ انکشاف کیا کہ اس نے دل سے مسلم دھرم کو اپنا لیا تھا اور مذہب اسلام پر ہی اس کی موت ہوئی ہے۔(واللہ اعلم)
اس کے مرنے سے چند مہینوں پہلے جبکہ وہ بیمار چل رہا تھا، بیماری اور فقر و فاقہ نے اسے ہڈیوں کا پنجر بناکر چھوڑ دیا تھا، ایک دن میں سائکل چلاتے ہوئے کہیں سے آرہا تھا کہ دیکھا کہ وہی بوڑھا لاٹھی کے سہارے ڈولتے اور لڑھکنیاں کھاتے کہیں سے آ رہا ہے، اس کی نقاہت و لاغری کو دیکھتے ہوئے ایک ان دیکھے جذبۂ ترحم نے میرے دل میں کروٹیں لینا شروع کردیا (اور باوجودیکہ مجھے معلوم تھا کہ اس کا پیشاب اور پاخانہ بسا اوقات لنگی میں ہی خطا کرجاتا ہے، جس سے سائیکل کے کلئیر کے آلودہ ہونے کا قوی امکان تھا) اور فورا ہی میں نے اسے سائیکل پر سوار ہونے کی پیشکش کر دی۔
بوڑھا چونکہ میرے گاؤں کا ہی تھا، اس لئے مجھے وہ خوب پہچانتا تھا،اس کا دوکاندار جو ٹھرا، لہذا اس نے بھی ہامی بھرلی، اور تشکر آمیز نگاہوں کے ساتھ بمشکل تمام میری سائیکل پر سوار ہوا،پھر میں نے رینگنے کے سے انداز میں اسے اس کے گھر تک پہونچا دیا، سائیکل سے اترنے کے بعد اس نے ایک بار پھر میرا شکریہ ادا کیا اور لاٹھی ٹیکتے ہوئے اپنی جھونپڑی میں داخل ہوگیا۔
اثناء راہ میں نے اس سے کہا تھا کہ ” چچا! اب آپ موت کے منہ میں جانے والے ہیں،قبل اس کے کہ موت آپ کے اس ہڈیوں کے پنجر جسم پر اپنا آہنی پنجہ گاڑ دے، ایک بار آپ دل سے اس خدا کو اپنا رب مان لیجیے جس نے آپ کو پیدا کیا، اور اس کے اس رسول ﷺ کا کلمہ پڑھ لیجیے جس پر ایمان لانا ہر انسان پر لازم ہے، تاکہ آپ کی موت کے بعد والی زندگی کامیاب و کامران ہو، اور آپ جہنم کے دردناک عذاب سے بچتے ہوئے سدا بہار جنت میں اپنا ٹھکانہ بنا سکیں۔ “
میری باتیں سن کر ایک پھیکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں کی سطح پر رینگ گئی تھی اور اس کی زبان سے میرے کانوں نے بس اتنا ہی سنا تھا ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، کیا مسلمان کیا ہندو سب برابر ہیں، جو جیسا کرم کرے گا ویسا ہی پھل پائے گا “ یہ سن کر میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اسے کیا کہوں کہ میری سائیکل اس کے کھلیان میں داخل ہوچکی تھی۔
بہرحال ایک دن جب کہ میں اپنے بھائی کے ساتھ دوکان پر بیٹھا تھا،مغرب کی اذان ہوچکی تھی،مسجد میں صفیں آراستہ ہو رہی تھیں، لوگ جماعت میں شامل ہونے کے لئے مسجد کی طرف لپک رہے تھے، کہ وہی پیکرِ درد اور مجسم دکھ، ناتواں اور ضعیف سراپا لاٹھی ٹیکتا ہوا ،رانوں کے بیچ میں دھوتی اڑسائے،اور کندھے کے اوپر ایک تہبندلٹکائے آتا دکھائی دیا، میں جو لوگوں کے مسجد کی طرف نماز کے لئے بھاگتے ہوئے اس دل آگیں منظر سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ سامنے سے آتے اس سراپے کو دیکھ کر یک بیک میرے خام دماغ اور ناقص عقل میں بجلی کے مانند ایک خیال کوند گیا، معا میں نے اپنے بڑے بھائی سے اس کا اظہار کیا کہ” مسلمانوں سے تو ہندو لوگ ہی بھلے ہیں، نہ ان کے لئے نماز ہے نہ روزہ، وہ ایک دم بے فکر ہوکر زندگی گزارتے ہیں، اور ایک مسلمان ہیں کہ انہیں دن میں پانچ بار نماز پڑھنی پڑتی ہے، روزہ بھی رکھنا پڑتا ہے اور ایک خاص وضع کی زندگی گزارنی پڑتی ہے“ میں ادھر اپنے بچکانے خیالات کا اظہار کئے جا رہا تھا اور نہ جانے ابھی میرے خیالات کی جولان گاہ میں کن کن خیالات کو کوندنا باقی تھا کہ میرے بھائی کو میرا مسئلہ سمجھ میں آگیا، معا اس کے لبوں پر ایک جانفزا مسکراہٹ نمودار ہوگئی، اور بڑے پیار سے صرف ایک ہی جواب میں میری تشفی کرادی کہ ” مسلمانوں ( جو حالت اسلام میں مرینگے)کو ان کے بدلے جنت ملے گی اور جبکہ ہندو کافر ( جو حالتِ کفر میں مرینگے) ہمیشہ جہنم کے ایندھن بنے رہینگے “
اپنے بھائی کے اس جواب کو سن کر دل کے آبگینے پر خوشی و مسرت کی جو لکیریں ابھر آئی تھیں اور آنکھوں کے کٹورے پر تشکر کے جو آنسو نمودار ہوئے تھے، آج عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کی لطافتیں ذہن کے کینوس میں کسی سدا بہار پھول کی طرح تازہ اور شگفتہ ہیں، اور ہمہ وقت پلکیں بارگاہِ ایزدی میں ادائیگی تشکر کے لئے سرنگوں رہتی ہیں کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا اور اپنے نبی ﷺ کی امت میں پیدا فرمایا۔
باری تعالی سے دعا ہیکہ جب وہ اس دنیا سے ہمیں لے جائے تو اس حال میں لے جائے کہ ایمان کا گلدستہ ہمارے پاس ہو اور اعمال صالحہ کا پروانہ ہمارے ساتھ ہو۔ آمین یا رب العالمین۔۔۔
ظفر امام، کھجور باڑی
دارالعلوم بہادرگنج
٨/ ربیع الثانی ١٤٤١ھ
Comments are closed.