روز صبح قرآن پڑھنے والوں میں سے تھے پٹیل ! وزیر بنے بغیر بھی یو پی اے حکومت کے چوتھے سب سے طاقتور رہنما تھے احمد پٹیل مضمون : رشید قدوائی

روز صبح قرآن پڑھنے والوں میں سے تھے پٹیل !
وزیر بنے بغیر بھی یو پی اے حکومت کے چوتھے سب سے طاقتور رہنما تھے احمد پٹیل
مضمون : رشید قدوائی
کہا جاتا ہے کہ بادشاہ محمد شاہ کے دربار سے نظام الملک کے باہر نکلنے سے طاقتور مغلوں کا زوال شروع ہو گیا۔ اسی طرح احمد بھائی محمد بھائی پٹیل کے انتقال سے آج کانگریس کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا اندیشہ واقعی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ان کی غیر موجودگی سب سے زیادہ اس وقت محسوس کی جائے گی جب کانگریس اور گاندھی کنبہ کی طرف سے پارٹی کو متحد رکھنے کے لئے جدوجہد کی جا رہی ہے۔ اب امکان ہے کہ غیر مطمئں کانگریسی رہنماوں، جی-23 (خط لکھنے والے 23 لیڈران) اور کچھ علاقائی لیڈروں کو موجودہ ایکو سسٹم سے الگ زیادہ ووکل، بےحد فعال اور غور وفکر کرنے والی زندگی ملے۔
اپنے تعزیتی پیغام میں سونیا گاندھی نے انہیں’ بھروسہ مند ساتھی’ بتایا۔ وہ اور راہل گاندھی آنے والے ہر موقع پر پٹیل کو یاد کریں گے۔ سونیا گاندھی سے قربت کے سبب احمد پٹیل عرف احمد بھائی تقریبا دو دہائیوں تک گو۔ ٹو پرسن یعنی ایسے شخص بنے رہے جو کسی بھی مشکل وقت میں سب سے پہلے یاد کئے جاتے تھے۔ کانگریس کے زیر اقتدار ریاست کے کسی بھی وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ، اشوک گہلوت یا وی نارائن سامی ان کے ایک ٹیلی فون کال کے بعد وہی سب کہتے تھے جو کانگریس اعلیٰ کمان سننا یا نافذ کرنا چاہتا ہے۔ غیر بی جے پی سیاسی پارٹیوں، کارپوریٹ دنیا، میڈیا گھرانوں، مذہبی تنظیموں کے سربراہوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے رہنماوں کے ساتھ بھی ان کا یہی معاملہ تھا۔ اس دوران کئی بار سمجھوتے بھی کرنے پڑے، لیکن زیادہ تر مواقع پر کوئی نہ کوئی حل نکل آیا۔
کانگریس کے اندر کہا جاتا ہے کہ احمد پٹیل نے 2002 کے فسادات کے دوران گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے خلاف جارحانہ اور سیاسی قدم اٹھانے پر اعتراض ظاہر کیا تھا۔ جبکہ کانگریس میں کچھ وکیل لیڈران اور منموہن سنگھ کی زیر قیادت کچھ وزرا سال 2004 میں مودی کے خلاف ایک سخت قدم کے حامی تھے۔ پٹیل نے مبینہ طور پر سونیا گاندھی اور منموہن سنگھ کو ‘ قانون کو اپنا کام کرنے’ کے لئے منایا۔ اسے لے کر پارٹی کا ایک چھوٹا حصہ ہمیشہ پٹیل کے خلاف رہا، لیکن بھروچ کے رکن پارلیمنٹ آخر تک مطمئن رہے کہ یہ قدم فائدہ مند ہو گا۔
اپنی ہار کو ‘ سیکولرزم کی ہار’ بتایا
ایسا نہیں تھا کہ پٹیل بی جے پی یا سنگھ پریوار کے تئیں نرم تھے۔ دراصل، وہ ان سے سب سے زیادہ پریشان تھے۔ سال 1989-91 تک جب گجرات نے رام جنم بھومی آندولن کے دوران وشو ہندو پریشد کے غیر معمولی عروج کو دیکھا، پٹیل نے سال 1977 ، 1980 اور 1984 میں بھروچ سے تین بار لوک سبھا کے رکن کے طور پر نمائندگی کی۔ حالانکہ، وہ سال 1989 کا لوک سبھا الیکشن ہار گئے۔ ان کے خلاف ایک فرقہ وارانہ مہم چلائی گئی۔ پٹیل ایک مقبول شخص تھے جنہیں مقامی لوگ ‘بابو بھائی’ کہہ کر پکارتے تھے۔ مبینہ طور پر وشو ہندو پریشد نے بابو بھائی سے نام بدل کر ہر دیوار، پوسٹر اور بینر میں ان کی مذہبی شناخت پر زور دیتے ہوئے ‘ احمد’ کر دیا۔ پٹیل کو 18،909 ووٹوں سے ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنی ہار کو ‘ سیکولرزم کی ہار’ بتایا۔
انتخابی سیاست میں موزینت کھونے کے سبب پٹیل مایوس نہیں ہوئے۔ سال 1993 میں راجیہ سبھا میں آتے ہی پٹیل نے اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہاراو سے قربت بڑھائی۔ اس وقت راو کو 10 جن پتھ یعنی سونیا کے ساتھ کام کرنے میں کئی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران راو نے انہیں سونیا کے ساتھ بات چیت کے ایک موثر ذریعہ کے طور پر استعمال کیا۔ راجیو گاندھی کے بعد ہر بار نئے کانگریس صدر نے عہدہ سنبھالا، لیکن پٹیل توجہ کا مرکز بنے رہے۔ دسمبر 2017 میں جب راہل گاندھی نے 87 ویں اے آئی سی سی صدر کا عہدہ سنبھالا تب تک ان کے کچھ ہم عصر لیڈران نجی بات چیت میں کہتے تھے۔ ‘ نیو سی پی ( کانگریس صدر) سیم اے پی (احمد پٹیل)۔
یو پی اے حکومت کے دوران سونیا گاندھی، اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور سینئر وزیر پرنب مکھرجی کے بعد اسٹیبلشمنٹ میں پٹیل چوتھے سب سے طاقتور شخص تھے۔ پارٹی میں پٹیل کو پرانے رہنماوں اور راہل سے قربت کا دعویٰ کرنے والوں کے درمیان ایک پل کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ ملک میں ایک بھی ریاست ایسی نہیں ہے جہاں پٹیل ذاتی طور پر زیادہ تر ضلع سطحی کانگریس عہدیداروں اور چنے ہوئے نمائندوں کو جانتے تھے۔
کبھی مرکزی وزیر بننے کی کوشش نہیں کی
کئی دیگر کانگریسی لیڈران کے برعکس پٹیل نے کبھی مرکزی وزیر بننے کی کوشش نہیں کی۔ 24 اکبر روڈ، نئی دہلی واقع پارٹی کے صدر دفتر کے ایک کمرے میں ان کا دفتر تھا جسے وہ 23 مدر ٹریسا مارگ واقع اپنے گھر سے چلانا پسند کرتے تھے۔
لٹین دلی میں 23 مدر ٹریسا مارگ کو ایک طاقت کے مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ پٹیل کے گھر تک سب کی پہنچ نہیں تھی۔ داخل ہونے اور نکلنے کے لئے کئی دروازے تھے۔ کانگریس کے وزرائے اعلیٰ، ریاستی اکائیوں کے عہدیداران اور پارلیمنٹ سے لے کر بلدیاتی الیکشن کے امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ یہیں طئے ہوتا تھا۔
روز صبح قرآن پڑھنے والوں میں سے تھے پٹیل
پٹیل کے ساتھ اپائنٹمنٹ ملنا تب تک آسان نہیں تھا جب تک کہ کسی کو لینڈ لائن نمبر سے دیر رات سلاٹ دینے کا فون نہیں آتا۔ جو بھی ان سے ملنا چاہتے وہ پٹیل سے الگ الگ جگہوں پر ملتے جس میں مسجد بھی شامل ہے جہاں وہ جمعہ کی نماز ادا کرتے تھے۔ ایک وقت کے بعد انہیں نماز پڑھنے کے لئے مسجدیں بدلنی پڑتی تھیں۔ سال 2011 میں حج کرنے والے پٹیل دن میں پانچ بار نماز پڑھنے، رمضان کے روزے رکھنے اور روز صبح قرآن پڑھنے والوں میں سے تھے۔
سال 2014 سے پٹیل سرگرم سیاست سے ریٹائرمنٹ ہونا چاہتے تھے، لیکن ہر بار جب انہوں نے اس موضوع کو چھیڑا تو سونیا اسے مسترد کر دیتی تھیں جس کے بعد ایک وفادار کے طور پر ان کے پاس ‘ ہائی کمان’ کے حکم کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ حال کے دنوں میں میں نے ان سے اپنی سوانح عمری لکھنے پر غور کرنے کے لئے کہا تھا لیکن انہوں نے فورا مسترد کر دیا۔ پٹیل نے کہا ‘ یہ (راز) میرے ساتھ قبر تک جائیں گے’۔
نوٹ : مضمون نگار رشید قدوائی کے یہ اپنے خیالات ہیں۔
Comments are closed.