صدائے غیب ! عمر فراھی۔۔۔

صدائے غیب !

 

عمر فراھی۔۔۔

 

محبت اور زندگی کہنے کو تو محض دو لفظ ہیں لیکن انسان کی اپنی ذات کا پورا سرمایہ محبت اور زندگی کے بغیر ادھورا ہے ۔دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ محبت کے بغیر زندگی نہیں اور زندگی کے بغیر محبت نہیں اور محبت نہیں تو خوشحالی نہیں ۔اسی طرح انسان تنہا ہو تو محبت کے کوئی معنی نہیں ۔لیکن جب اس کی ذات سے رشتوں کے چند باب اور وجود منسلک ہو جائیں تو زندگی ایک کتاب کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔اس کے بعد زندگی کی اس کتاب کے ہر صفحے سے سکھ دکھ محبت اور نفرت کی ایک لامتناہی کہانی شروع ہو جاتی ہے ۔انسان جب تکلیف سے گزرتا ہے اور اس کی زندگی سے محبت اور سکون ناپید ہو جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اس کا نصیب خراب ہے ۔مگر جب خوشحالی سے گزرتا ہے تو کہتا ہے وہ تقدیر کا دھنوان ہے ۔جبکہ کسی بھی انسان کو زندگی کی پوری کتاب پڑھے بغیر کسی ایک لمحے اور حصے کے مشکل اور اچھے اوقات کو اپنے نصیب کا فیصلہ نہیں سمجھنا چاہیے ۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس طرح کچھ کتابیں صرف طنز و مزاح اور تفریح کا مواد فراہم کرتی ہیں زندگی کی کچھ کتابوں کا عنوان بھی نفرت اور مصیبت کے موضوع سے ہی شروع ہوتا ہے اور آدمی کی زندگی جہنم بن جاتی ہے ۔آدمی کو اسے اپنی تقدیر اور نصیب کا فیصلہ نہیں سمجھنا چاہئے ۔زندگی کی اس کتاب میں بھی تبدیلی ممکن ہے اگر کوشش کی جائے اور کوشش کی جانی چاہئے ۔ کبھی کبھی زندگی کی اس کتاب میں محبت کے ابواب کا اضافہ کرنا ضروری ہوتا ہے ۔یعنی رشتوں اور ارادوں کو تبدیل کرکے نئی زندگی کی شروعات کی جاسکتی ہے۔ لیکن بہت چھوٹی سے زندگی میں زندگی کی کتاب میں ترمیم و تحریف سے بہتر ہے وہ چاہے قوموں سے قوموں کے معاملات ہوں یا انفرادی فیصلے زندگی کی شروعات میں ہی رشتوں اور تعلقاتیوں کا درست انتخاب کیا جائے تاکہ زندگی کی اس کتاب سے آنے والی نسل اور خاندان کو ایک اچھا موضوع اور Title فراہم ہو سکے ۔کتابیں اپنے موضوعات اور Title سے ہی پہچانی جاتی ہیں ۔ایک اچھا موضوع اسی وقت تخلیق میں آسکتا ہے جب کسی ملک معاشرے اور خاندان میں سکون اور خوشحالی ہو ۔سکون اور خوشحالی کیلئے محبت لازمی ہے لیکن !

محبت قربانی چاہتی ہے !

دنیا میں ہر شخص محبت بھری زندگی اور کتاب کی آرزو تو رکھتا ہے مگر قربانی کوئی نہیں دینا چاہتا۔حقیقت میں زندگی ایک کاروبار بھی ہے ۔یہاں بھی کچھ پانے کیلئے کچھ کھونا پڑتا ہے ۔ہر شخص ہر شخص کیلئے اپنی حیثیت کے مطابق اگر قربانی دینے یا ہاتھ بٹانے کیلئے آمادہ ہو جائے تو وہی خوشحالی کا دور پھر لوٹ سکتا ہے جو انسانوں کو قدیم زمانوں میں انبیاء اور صلحاء کی دعوت و عزیمت کے شروعاتی دور میں میسر رہا ہے اور آخری رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے دور میں دنیا تقریباً انیسویں صدی تک بہت سارے فتنوں سے محفوظ رہی ہے ۔ ہم بھی ایک مولوی دانشور خطیب اور مبلغ کی طرح مشورہ دے سکتے ہیں کہ آپ یہودیوں کی روش اختیار کر لیں اب بھی خوشحالی اور غلبہ ممکن ہے لیکن اب یہ سب فقط دانشورانہ اور مولویانہ باتیں ہیں ۔یہود و نصارٰی نے بھی صرف ایک بیمار معاشرے کی تخلیق کی ہے اور دنیا ان کی اس نئے طرز کی خوشحالی اور ترقی سے بدسکونی کا شکار ہوکر اپنا سر پھوڑنے کو تیار ہے ۔علامہ نے اس غلامانہ ذہنیت کا‌ جواب دیا ہے کہ

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

 

ہم موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے ماتحت جس مفاد پرستانہ پر فتن دور میں جکڑتے جارہے ہیں شاید عالم انسانیت کو جس پر سکون ماحول کی ضرورت ہے وہ دوبارہ کسی صدائے غیب کے بغیر ممکن نہ ہو سکے ۔علامہ نے اپنی نظم صدائے غیب کے ذریعے یہی کہنے کی کوشش کی کہ

 

گرچہ برہم ہے قیامت سے نظام بست و بود

ہیں اسی آشوب سے بے پردہ اسرار وجود

 

زلزلے سے کوہ و در اڑتے ہیں مانند سحاب

زلزلے سے وادیوں میں تازه چشموں کی نمود

 

ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام

ہے اسی میں مشکلات زندگانی کی کشود

کہنے کو تو بہت آسانی سے ہم لوگ صدائے غیب کی بات کر جاتے ہیں مگر شاید اہل ایمان بھی عالم انسانیت اور کرہ ارض کو دہلا دینے والی اس آواز اور اس آواز سے برپا ہونے والے شور کو برداشت کرنے کے متحمل نہ ہوں !

Comments are closed.