کیا سیکولرزم کی ذمہ داری صرف مسلمانوں کی ہے

محمد امتیاز (نورانی)
چیئر مین :کریبس گروپ آف ہاسپیٹل
ہندوستانی مسلمانوں پر بہت سارے خوف کے علاوہ ایک خوف یہ بھی ہمیشہ سر پر سوار رہتا ہے کہ کہیں ملک میں سیکولر طاقتیں کمزور نہ پڑ جائیں ۔ یہ مسلمانوں کی سیاسی جدو جہد کا مر کزی نقطہ ہے جو فی نفسہ ایک درست نقطہ نظر ہے کہ ملک میں اس طبقہ کا ساتھ دیا اور لیا جائے جس کے پاس عددی اکثریت بھی ہے اور وہ صدیوں سے مظلوم بھی ہے لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے مسلمانوں کے علاوہ ملک میں سیکولرزم کے جتنے صارفین ہیں بلکہ مسلمان تو سیکولرزم کا آدھا سدھا صارف ہے، مسلمانوں کے علاوہ باقی تقریباً سارے ہی سیکولرزم کے ’’راج بھوگتا ‘‘ہیں۔ یوپی بہار جیسی کلیدی ریاستوں میں یادو اور ہریجن کی سابقہ حکومتیںاس کی بڑی واضح مثالیں ہیں ۔ اور کانگریس پارٹی اس کی سب سے بڑی مثال ہے لیکن وہ کسی خاص برادری تک محدود نہیں البتہ خاندانی پارٹی ضرور ہے اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں سیکولر خیمے تلے پھلنے پھولنے والوں اور اقتدار تک پہونچنے والوں کی متعدد مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔سیکولر خیمے کے ان سارے راج بھوگتاؤں کو سیکولرزم کی اتنی پرواہ کبھی نہیں ہوئی جتنی مسلمانوں کو رہی ہے ۔مسلمانوں کو سیکو لر محاذ پر وقتاً فوقتاً’’مرے تھے جن کے لیے وہی رہ گئے وضو کرتے کرتے ‘‘ کا تلخ تجربہ ہوتا رہتا تھا اور اب زیادہ کثرت کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ہر انتخاب سے پہلے یہ ماحول بن جاتا ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ بٹ جائے گا تو یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا ۔بی جے پی آجائے گی ،یہ کر دے گی وہ کر دے گی ۔اس خوف تلے مسلمانوں نے ہمیشہ بی جے پی کے خلاف سیکولر محاذ کو ووٹ کیا ۔لیکن پھر بھی بی جے پی آئی اور اس نے مسلمانوں اور ملک کے ساتھ وہ کیا جواسے کر نا تھا ۔
ایسی صورتحال میں مسلمانوں کو خواہی نخواہی یہ سوچنا ہوگا وہ سیکولرزم کے ان اتحادیوں کے ساتھ کب تک باقی رہ کر رسوا ہو تے رہیں گے ۔کیا یہ ان کے ساتھ کھلا ہوا فراڈ نہیں ہے کہ وہ پندرہ فیصداعلی ذاتوں کے غیر سیکولر محاذ کے خلاف نچلے طبقات کے پینسٹھ اور اپنے بیس، کل ملا کر پچاسی فیصد کے سیکولر محاذ کے ساتھ کھڑے تھے۔اور پندرہ فیصد آج تقریباًپچاسی فیصد اقتدار پر قابض ہے ۔کیا ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم جن لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں ہمیں ان کے ساتھ کھڑے ہو نا چاہیے جو ہمیں تنہا چھوڑکر کبھی بھی کسی طرف بھی جا سکتے ہیں حتی کہ وہ اسی کی گود میں بیٹھ سکتے ہیں جسنے ان کا صدیوں سے استحصال کیا ۔یہ بات یو پی بہار خصوصاًاورپورے ملک کیلئے عموماً کہی جا سکتی ہے کہ نچلے طبقات کو خود اپنی برادری کے مفادات اور اپنی حکومت کی پرواہ نہیں تو وہ سیکولرزم اور مسلمانوں کے بارے میں کیا سوچیں گے۔یہ بات کس سے پو شیدہ ہے یوپی کے یادؤں اور ہریجنوںنے خود اپنی پارٹی کو ووٹ نہیں کیا اور بہار کے یادؤں نے پچھلے الیکشن میں اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ کیا اور حالیہ الیکشن میں اپنی پارٹی کے مسلم امیدوارو ں کو ووٹ نہیں کیا جس کی ایک مثال کیوٹی سیٹ کی ہے جہاں راشٹریہ جنتا دل کے عبدالباری صدیقی الیکشن ہار گئے ۔زمین سے جڑے جانکاروں کا ماننا ہے کہ انھیں یادو بیلٹ کا ووٹ نہیں ملا اس لیے یہ چند ہزار ووٹوں سے رہ گئے۔ جانکاروں کی اگر مانیں تو یہ صرف ایک جگہ کا واقعہ نہیں ہے بلکہ کئی ایک اہم مسلم امیدواروں کو یادو برادری کے اس دغا بازی کے خمیازہ کی صور ت اپنی سیٹ گنوانی پڑی ۔اس بار مسلمانوںمیں عام تاثر یہی ہے کہ جہاں آر جے ڈی کا مسلم کنڈیڈیٹ تھا وہاں اسے یادو برادری کے ووٹوں سے کلی طور پر یا پھر بڑے پیمانے پر محرومی کا سامنا کر نا پڑا ۔ اس کا بہت سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ یا دؤں کو مسلمانوں کا ووٹ تو چاہیے لیکن مسلم کنڈیڈیٹ انھیں منظور نہیں ۔زیادہ واضح لفظوں میں مسلمان یادؤں کو ووٹ دیں نہیں تو انھیں بی جے پی کھا جائے گی البتہ یادؤں کو ایسی کوئی مجبوری لاحق نہیں کہ وہ مسلمانوں کو ووٹ دیتے پھریں ۔یہ طرز عمل مسلم ووٹوں کی تذلیل کی انتہا ہے۔اسی پر بس نہیں ہے بلکہ مسلم کنڈیڈیٹ کو نظر انداز کر کے ووٹ بی جے پی کو دیا گیا ہے ۔یہ محض دعوی نہیں ہے ۔ یہ زبان زد عام حقیقت ہے ۔ان لوگوں کو اس بات کا بھی ہوش نہیں رہا کہ ان کی یہ حرکت ان کی اپنی پارٹی کے لیے حکومت سے بے دخلی کا سبب بن سکتی ہے اور جو کہ بن بھی گئی ۔یہ بات مسلمانوں میں جڑ پکڑ رہی ہے کہ دوسرے کے ہاتھ میں لالٹین دے کر سانپ مارنے نہیں جانا چاہیے۔ اویسی کی پارٹی کی پانچ سیٹوں پر کامیابی کو اسی تناظر میں دیکھا جا نا ایک فطری بات ہو گی ۔
یہاں اب سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان اس قماش کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کریں گے اور کریں گے تو کب تک ؟ایسی صورت میں مسلمان کے سامنے صرف دو راستے ہیں۔ایک یہ کہ جہاں تک ممکن ہو اور کامیابی کی امید ہو اس حد تک وہ مسلم کنڈیڈیٹ کو ہی ووٹ دیں چاہے انھیں آزاد امیدوار کھڑا کرنا پڑے لیکن ووٹ اپنے ہی امیدواروں کو دیا جائے۔ جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں دوسری شکل یہ اختیار کی جاسکتی ہے کہ مقامی اور پارٹی سطح پر مسلمانوں کے مفادات کو سامنے رکھ کر معاملات طے کیے جائیں ۔سیکولر زم کا مریض ہی اگر بننا ہے تو بہتر ہے کہ اپنے مفادات کا اسیر ہوا جائے ۔اس طرز عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ مسلم مخالف لہر کی لام بندی دم توڑ جائے گی ساتھ ہی دغا بازوں سے ہماری جان چھوٹے گی ۔کوئی ذرا یہ تصور کر کے دیکھے الیکشن سے پہلے این ڈی اے اور مہاگٹھ بندھن کے تیسرے مورچے کے نام پر کتنے مورچے وجود میں آئے اور انھوں نے سیکولرزم کو کس قدر نقصان پہونچایا جن پارٹیوں کی اوقات ڈھنگ سے دوچار سیٹوں کی بھی نہیںتھی ڈپٹی سی ایم کی کر سی ان کا حق قرار پائی تو بھلا مسلمانوں میں ایسا کون سا عیب ہے کہ انھیں اپنے جائز مطالبات تمام اندیشوں سے اوپر اٹھ کر پیش نہیں کرنے چاہئیں جبکہ ان کا ووٹ تناسب سولہ یا سترہ فیصد ہے ۔میںآنکڑوں پر اپنی بات ختم کرونگا جس سے مسلمانوں کے بہار میں ووٹ فیصد کا اندازہ ہو سکے ۔جن ضلعوں مسلم ووٹ فیصد بہت بہتر ہے وہ یہ ہیں۔ کشن گنج ۶۸ فیصد، کٹیہار ۳ ۴ فیصد،ارریہ ۴۲ فیصد، پورنیہ ۳۸ فیصد،دربھنگہ۲۳ فیصد،سیتا مڑھی ۲۱ فیصد،ویسٹ چمپارن ۲۱ فیصد ۔ ان کے علاوہ مدھوبنی ،ایسٹ چمپارن ،بھاگل پور،سیوان، گو پال گنج ،سپول وغیرہ جیسے درجن بھر ضلعے ایسے ہیں جہاں مسلمان پندرہ فیصد کے آس پاس یا اس سے زیادہ ہیں ۔صرف ایک ضلع لکھی سرائے میں مسلمان ۴ فیصد ہیں اور بکسر میں ۶فیصد ہیں ،چار ضلعوں میں مسلمان سات فیصد جبکہ دو ضلعوں میں آٹھ فیصد ہیں باقی کے تمام ضلعوں میں دس سے بیس فیصد یا اس سے اوپر ہیں ۔
Comments are closed.