جنگ بند: انتخابی مہم شروع

 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

پہلگام دہشت گردانہ حملہ کے بعد کئی طرح کے سوال اٹھ رہے تھے ۔ گناہ گاروں کو سزا دینے کے معاملہ میں متحد تھا ۔ وزیر اعظم نے دہشت گردوں کو ایسی سزا دینے کی بات کہی تھی جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ اپوزیشن نے یقین دلایا کہ وہ حکومت کے ساتھ ہے ۔ عوام کا دباو تھا کہ سرحد پار سے کی گئی اس گھنونی حرکت کے خلاف حکومت کاروائی کرے ۔ بھارت نے فوری طور پر سفارتی تعلقات منسوخ کر دیئے ۔ ٹریڈ بند اور سرحد سیل کر دی ۔ پاکستانی شہریوں کو ان کے ملک واپس بھیج دیا اور ‘سندھ ندی پانی’ کا معاہدہ رد کر دیا ۔ اس واقع کو فرقہ پرست اور اس کے حامی میڈیا نے ہندو مسلم کا رنگ دینے کی کوشش کی ۔ کئی مسلمانوں کو نام پوچھ کر قتل کر دیا گیا ۔ نینی تال میں مسجد پر پتھراو اور مسلمانوں کی دوکانوں کو نقصان پہنچایا گیا ۔ چھوٹے موٹے کام کرنے والے مسلمانوں کو پیٹنے کے واقعات بھی سامنے آئے ۔ حالانکہ پہلگام میں ایک مسلمان اور عیسائی دہشت گردوں کی گولی کا نشانہ بنا تھا ۔ متاثرین کو وہاں کے مسلمانوں نے ہی اسپتال تک پہنچایا ۔ سیلانیوں سے آٹو، ٹیکسی اور ہوٹل تک کا کرایہ نہیں لیا ۔ دہشت گردی کے خلاف احتجاج میں مسلمانوں نے پورے سری نگر میں بازار بند رکھا ۔ تمام مذہبی رہنماؤں نے اس کی مذمت کی ۔

جنگ کے حالات بن رہے تھے ۔ سرحد پر ماحول کشیدہ تھا ۔ اسی درمیان حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا اعلان کیا ۔ لیکن متاثرین انصاف اور عوام گناہ گاروں کے خلاف کاروائی چاہتے تھے ۔ حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف سخت ایکشن کیا ۔ خبر آئی کہ 7 مئی کی درمیانی شب انڈیا نے اچانک حملہ کرکے دہشت گردوں کے نو ٹھکانے تباہ کر دیئے ۔ دشمنوں کو بتا دیا کہ ہمارا صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے ۔ خاص بات یہ کہ جوابی حملہ کی قیادت ہمارے فضائی عملے کی ایک ممتاز خاتون صوفیہ قریشی نے کی ۔ حکومت نے انہیں یہ موقع بھی دیا کہ وہ ملک کے عوام اور دنیا کے سامنے آکر اس حملے کی تفصیلات بیان کریں ۔ ان کے ساتھ دوسری رفیق کار ونگ کمانڈر محترمہ ویومیکا سنگھ بھی تھیں ۔ اس کے ذریعہ حکومت نے یہ پیغام بھی دیا کہ وہ فرقہ پرستی کی حمایت نہیں کرتی ۔ لیکن نفرت سماج کے ایک حصہ میں اس طرح گھر کر چکی ہے کہ خارجہ سکریٹری وکرم مسری اور صوفیہ قریشی بھی اس کی زد سے نہیں بچ سکے ۔

ملک کے عوام چاہتے تھے کہ وزیراعظم نریندر مودی حالات کے بارے میں انہیں بتائیں ۔ مگر وہ تقریباً 20 دن تک ملک کے سامنے نہیں آئے اور نہ ہی آل پارٹی میٹنگ میں شریک ہوئے ۔ سیز فائر کے بعد انہوں نے پیر یعنی 12 مئی کی رات 8 بجے قوم سے خطاب کیا ۔ اس سے قبل پیر کی دوپہر تک بھارت پاک تنازعہ کے حوالے سے کئی طرح کے سوالات زیر بحث تھے، جیسے کہ امریکہ بھارت اور پاکستان کے معاملے میں مداخلت کیسے کر سکتا ہے ۔ کیا چین نے بھارت کے خلاف حملہ کرنے میں پاکستان کی مدد کی؟ کیا بھارت نے امریکہ سے رابطہ کرکے جنگ بندی کے لئے شروع کی؟ ان سوالات کے درمیان پہلے خبر آئی کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) کی سطح پر بات چیت چل رہی ہے اور اس کے کچھ ہی دیر بعد یہ خبر آئی کہ وزیر اعظم مودی رات 8 بجے قوم سے خطاب کرنے والے ہیں ۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ خطاب آپریشن سندور اور اس کے بعد ہونے والے واقعات کے بارے میں ہو گا ۔ اس پورے معاملے پر وزیر اعظم کے خطاب کا ملک کو انتظار تھا کیونکہ ان کی خاموشی غیر ضروری طور پر معاملات کو پیچیدہ بنا رہی تھی ۔ شاید نریندر مودی نے سیاسی فائدے کے لیے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا ہوگا، لیکن اس سے بھارت کو سفارتی نقصان ہوا اور ایک پارٹی کے طور پر بی جے پی کو بھی ممکنہ نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔ اس لیے اتوار کو پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا کی رہائش گاہ پر بی جے پی کے وزراء اور سینئر لیڈروں کی میٹنگ ہوئی اور منگل سے پارٹی نے 10 دن یعنی 23 مئی تک ترنگا یاترا نکالنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں آپریشن سندور کی کامیابیوں کو ملک کو بتایا جائے گا ۔

ویسے وزیراعظم نے اپنے خطاب میں امریکہ صدر ٹرمپ کی کئی باتوں سے اختلاف کیا ہے ۔ انہوں نے صاف کیا کہ اگر دہشت گردانہ واقعہ ہوا تو بھارت اس کا جواب دے گا ۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ کشمیر کے مسئلہ پر ہم ثالثی کرنے کو تیار ہیں ۔ کشمیر کو انڈیا دو طرفہ مسئلہ مانتا ہے اس لئے اس کی پالیسی رہی ہے کہ اس معاملہ میں اسے کسی کی بھی ثالثی قبول نہیں کی ہے ۔ اسی لئے وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر پاکستان سے بات ہوگی تو پی او کے پر ہوگی اور ایٹم بم کی بلیک میلنگ نہیں چلے گی ۔ اسی طرح انہوں نے "سندھو ندی پانی معاہدہ” کے بارے میں کہا کہ پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتا ۔ اپنے خطاب میں انہوں نے ملک کے بھائی چارے کو خراب کرنے کی کوششوں کو کامیاب نہ ہونے دینے کی بات بھی کہی تھی ۔ فوج کے حوصلہ اور بہادری کی تعریف کرنا بھی ایک اچھا قدم تھا ۔ مگر لوگوں کے ذہن میں اب بھی یہ سوال ہے کہ جب پاکستان بھارت سے ہار رہا تھا تو جنگ بندی کیوں کی گئی؟ اس کا اعلان بھارت پاک کے بجائے ٹرمپ نے کیوں کیا؟ ٹرمپ کے بعد پھر بھارت نے وہی اعلان کیا ۔ پھر پاکستان نے تازہ حملے شروع کر دیئے ۔ اسی لئے ڈی جی ایم او نے کہا کہ ہم ابھی بھی حالت جنگ میں ہیں ۔ واقعات کا یہ سارا سلسلہ اتنی تیزی سے ہوا کہ لوگ اس الجھن میں رہ گئے کہ بھارت کو کس مجبوری نے جنگ بندی پر آمادہ کیا؟ کیا جنگ بندی کے لیے کسی کاغذ پر دستخط کیے گئے ہیں، اگر نہیں تو جو کچھ زبانی کہا کیا اسے مان لیا جائے؟ پھر پاکستان اسے کیوں نہیں مان رہا؟ پاکستان سے ایک طرف حملے ہو رہے ہیں اور دوسری طرف شہباز شریف اسے اپنی فتح بتا رہے ہیں ۔ یہ تمام سوالات اپوزیشن کی بجائے بی جے پی کے حامیوں اور خاص کر صحافیوں کی طرف سے زیادہ اٹھنے لگے ۔ اس دوران خارجہ سکریٹری وکرم مصری اور ان کے خاندان کے افراد سوشل میڈیا پر ٹرول ہونے لگے کیونکہ جنگ بندی کے بارے میں معلومات دینے والے وہی تھے۔ یہ ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے کہ بی جے پی نے بھسماسور کو ٹرول فوج کی شکل میں پالا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے آپریشن سندور سے اپنا مقصد حاصل کیا؟ جواب ہے ہاں ۔ جہاں تک تفصیلات کا تعلق ہے، میں اس وقت اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہوں گا کیونکہ ہم ابھی بھی جنگ میں ہیں اور دشمن کے خلاف میدان میں ہیں ۔ ہمارے تمام پائلٹ گھر واپس آچکے ہیں ۔ ائیر مارشل بھارتی نے ایک جامع جواب دیا ۔ ہماری فوج نے متوازن کارروائی کی ۔ لیکن حکمراں جماعت بی جے پی پہلگام حملے کا جس طرح انتخابات میں فائدہ اٹھانا چاہتی تھی ۔ اس میں وہ ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔ اسی لئے وزیراعظم کو آگے آنا پڑا ۔ انہوں نے آدم پور ایئر بیس سے چین اور پاکستان کو سخت پیغام دیا ہے ۔ انہوں نے پاکستان کو کہا کہ جب بھی لڑو گے ہارو گے، دہشت گردوں کو چھپنے کے لئے کوئی جگہ نہیں ملے گی ۔ گھر میں گھس کر ماریں گے ۔ اب نریندرمودی کی شبیہ سدھارنے اور آپریشن سندور کی کامیابی سے عوام کو واقف کرانے کے لئے دس دن تک ترنگا یاترا چلے گی ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن اب کیا رخ اختیار کرے گی ۔ کیا وہ نفع نقصان کی گہرائی ناپنے میں لگی رہے گی یا ان حالات میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کرے گی ۔

Comments are closed.