اب کسے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ؟

گاندھی جی اور مولاناآزاد کے بعد
ترتیب و اضافہ:عبدالعزیز
گاندھی جی اورمولانا ابوالکلام آزاد کی زندگیوں میں ایک بات کتنی الم ناک ‘ لیکن اتنی ہی عظیم الشان نظرآتی ہے ۔مسلمانوں کی حمایت اور غم خواری میں اوراس وقت جب کہ مسلمانوں کے جان ومال و آبروکی کوئی قیمت اور وقعت نہیں رہ گئی تھی ۔ گاندھی جی اپنی ہی قوم کے ایک فرد کی گولی کا نشانہ بنے ۔ مجھے اپنی لاعلمی پر ندامت ہوگی لیکن فرط افتخار سے سر اونچا ہوجائے گا‘ اگر کبھی یہ معلوم ہوسکا کہ گاندھی کی طرح کسی بڑے مسلمان کو غیر مسلموںکی حمایت میں جانب سے ہاتھ دھونا پڑا! ہندستان کی دو اتنی بڑی ہستیوں کے ساتھ ان کے ہم مذہبوں نے کیا سلوک کیا اس پر کسی اور کو نہیںہم ہندستانی مسلمانوں کوضرور غور کرنا چاہئے۔
تقسیم ملک سے اب تک ہندستان کی سیاست جن دشواریوں اور نزاکتوں سے گزری اورا ب تک گزررہی ہے ۔اس کو تفصیل سے بیان کرنا نہ تو ضروری معلوم ہوتا ہے نہ میرے بس کی بات ہے ‘ لیکن اس دوران حکومت ہندستان کی خارجی اور اندرونی پالیسی پر مولانا کی سیاسی بصیرت آئینی تدبر‘ اخلاقی بلندی ‘ علمی فضیلت اور شخصی وقار کس طور اثر انداز ہوتارہاکسی تفصیل کا محتاج نہیں۔ ہندستان کے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور نگہ داش کے نہایت درجہ مشکل اور نازک فرائض جس خاموشی ‘ دل سوزی اورقابلیت سے مولانا نے انجام دیئے وہ ان ہی کاحصہ تھا۔ مولانا کی خدمات کی اہمیت اس لئے اور بڑھ جاتی ہے کہ ان کو مسلمانوں کی حمایت اور ان کے گرتے ہوئے حوصلوں کو اونچا کرنے اور رکھنے کے فرائض ایسے حالات اور ایسے زمانے میں انجام دیتے پڑے جن سے زیادہ مشکل اور نازک زمانہ مسلمانوں پر اس برصغیر میں شاید پہلے کبھی نہیں گزراتھا۔
مولانا نے جس طرح جس حد تک جن دشواریوں سے دوچار رہ کر جس کامیابی کے ساتھ ہندستان کے تباہ حال مسلمانوں کو تسکین دینے اور تقویت پہنچانے کی خدمت انجام دی اس سے بڑی خدمت اس سیکولر جمہوریہ کی ساکھ اندرون و بیرون ملک قائم کرنے میں کوئی اور نہیں انجام دے سکتا تھا۔ہندستان کی حکومت مولانا کی اس خدمت کو کبھی فراموش نہ کرسکے گی۔ کس عظمت اور کیسی غیرت کا یہ مقام تھا کہ یہ فریضہ یکہ و تنہا اس مسلمان کے حصہ میں آیاجس سے زیادہ مطعون اور مغضوب تقسیم ملک کی رات سے پہلے مسلمانوں ہی نزدیک دوسرا مسلمان نہ تھا۔
ہندوئوں یا حکومت ہند میں یہ غیر معمولی ساکھ مولانا نے محض حسن اتفاق سے نہیں پیدا کرلی تھی۔ہندو تو پھر ہمارے ہی آپ جیسے انسان ہیں ‘ ہم میں ایسے لوگ بھی ہیں اور رہے ہیں جن میں مولانا کسی سے پیچھے نہیں اور بہتوں سے آگے تھے ‘جن کا سابقہ انسانیت سے ناآشنا وحشیوں سے ہوتاتو وہ ان میں بھی اپنی سرداری مسلم کرالیتے ! سفاکی یا چالاکی سے نہیں برگزیدگی اور بہادری سے۔ مولانا کو صبر و صداقت کی کتنی آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہوگا تب کہیں جاکر یہ منزلت حاصل ہوئی ہوگی ۔ ’زیر شاخ گل افعی گزیدہ بلبل را ‘کا جیساماجراجو مولانا پر گزراہوگا ‘ اس کا احساس ان لوگوں کو کیسے دلائوں جو نہ اس صورت حال سے آشنا ہیں جن میں مولانا گرفتار تھے ‘ نہ اس کرب سے جو شاعر نے اس شعر میں بھردیا ہے۔
حکومت میں مولاناکو بعض ساتھیوں کے تعصب اور تنگ نظری کا بھی مقابلہ کرنا پڑتاتھااور کس غیرت مند کو نہیں کرنا پڑتا ۔یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب نامساعد حالات کاہجوم تھا ۔ان پر جوگزرتی تھی اور کیا کچھ نہیں گزرتی تھی اس کووقات اور خاموشی سے سہتے تھے۔ مولانا کو اپنا ہم خیال بنانے میں کبھی تامل نہیں ہوا لیکن اپنا غم گسار بناناانہوں نے کبھی گوارا نہیں کیا ۔ یہ ان کی طبیعت کابڑا ممتاز خاصہ تھا ۔ وہ اپنے عزائم کے سامنے کسی دشواری کو ناقابل تسخیر نہیں سمجھتے تھے۔دنیوی جاہ و منزلت سے بے نیاز تھے ۔ کسی سے جھگڑتے نہیں تھے‘ جھگڑنا اپنے رتبہ سے فروتر سمجھتے تھے ‘ لیکن اس کی نوبت آجاتی تو اپنی سطح سے نیچے نہیں اترتے تھے۔ حریف کے مقابلہ میں یہ ان کی پہلی جیت ہوتی تھی۔
علم کی معرفت اور مذہب کے شرف وسعادت نے ایسی بلند نظری اور خوداعتمادی پیدا کردی تھی کہ وہ زندگی کے مصائب و مکروہات اور سیاست کے شور و فتن سے پراگندہ خاطر اور تلخ نہیں ہوتے تھے ۔ جوشخص ہار جیت دونوں میں اپنا سہارا خود ہو اس کو کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن ایسے لوگ دنیا میں بہت کم ہوئے ہیں جو نارمل ہوں اور اپنا سہارا خود ہوں۔
یہاں دو واقعات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں ایک دہلی کی سب سے بڑی مسجد میں پیش آیا ‘ دوسرا ہندستان کے سب سے بڑے ایوان حکومت میں !1947کے اکتوبر میں شمالی ہند کے مسلمان بالعموم اور دہلی کے بالخصوص تقسیم ملک کے حملہ سے ہراس اور اوردرماندگی کی انتہا کو پہنچ چکے تھے ۔ ہندستان میں کوئی مسلمان لیڈر ایسا نہیں رہ گیاتھا جوا ن کو ڈھارس دیتا یاان کی حمایت میں آگے آتا بلکہ یہ کہنا بھی حقیقت سے بعید نہ ہوگا کہ لیڈر خود سراسیمہ اوردرماندہ تھے ۔
مولانا دہلی کی جامع مسجد میں تشریف لائے جو مسلمانوں کے جبروت و جلال ‘ شوکت و شادمانی ‘ اقبال واختلال کی کتنی کروٹیں دیکھ چکی تھی ۔ مسلمانوں کے خاموش ‘ مایوس اور ملول مجمع کو دیکھا ‘ جیسا مجمع آج سے پہلے انہوں نے نہ کسی اور نے ہندستان میں کبھی دیکھا تھا ۔پھر جیسے بوڑھے سردار کی شریانوں میں خون کے ساتھ عزیمت اور حمیت کے شرارے کوندنے لگے ہوں لیکن اپنے وقار پر قابورکھتے ہوئے جو اس کا ہمیشہ سے وطیرہ رہاتھا ‘ بولنا شروع کیا ……
یہ تقریراردو کے بیش تر اخبارات میں تمام و کمال چھپ چکی ہے اور پڑھنے والوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کواس کے اکثر ٹکرے زبانی یاد نہ ہوں ۔ چاہاتھا کہ ناظرین کی خاطر جہاں تہاں سے اس کے اقتباسات ہی پیش کردوں لیکن اس کوشش میں کامیابی نہیں ہوئی کہ کس حصے کو حذف کیاجائے اور کس کو نہیں۔اس تقریر پر تبصرہ بجائے خود ایک مضمون بن جاتا۔اس لئے بادل نخواستہ ارادہ سے باز رہنا پڑا۔ جامع مسجد کی اس تاریخی تقریر سے مسلمانوں کے حوصلے بندھے اور خوف و مایوسی کی تاریکی چھٹنے لگی اورا یسا معلوم ہونے لگاجیسے زلزلے کے بعد زمین کی شکست و شکن میں ہمواری اور اس زمین پر بسنے والوں کے پائوں میں استقامت آگئی ہو۔ کسے معلوم مولانا‘ ان کی تقریراوراس مجمع کے ہلکے گہرے نقوش جامع مسجد کے سنگ وخشت ‘ سقف و در‘ مینار و محراب ‘ نقش و نگار میں کس نامعلوم طریقہ سے پیوست یا مرتسم ہوگئے ہوں اور خدا ہی جانتا ہے کہ قوم کی تقدیر میں ان کی بازگت کب اور کس طور سے سنائی دے ۔
دوسری تقریر پارلیمنٹ میں پرشوتم داس ٹنڈن کے اس اتہام لگانے پر کرنی پڑی کہ وزارت تعلیم ہندی سے سرد مہری برت رہی ہے اور اردو کی بے جاپاسداری کرتی ہے ۔اس اتہام کے پیچھے کھلے چھپے کتنے اور الزامات تھے جن کا اندازہ کرنا ایسا کچھ دشوار نہیں ۔ مولانا نے پارلیمنٹ کے آداب اور خود اپنی روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے جس وقار برہم اور صداقت بے باک سے جواب دیا وہ ایک ناقابل فراموش تاریخی واقعہ بن گیا ہے ۔اس کی روداد بھی اخباروں میں آچکی ہے جس کو دہرانے کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی۔ پوری پارلیمنٹ جس کے اراکین میں سے شاید بہتوں نے مولانا کی یہ تقریر پورے طور پر سمجھی بھی نہ ہو‘ مولانا کے خطاب سے سناٹے میں آگئے۔ سکوت کا یہ عالم اور سطوت کا یہ سماں ہندستانی پارلیمنٹ میں اس سے پہلے شاید ہی کبھی دیکھا گیا ہو۔ اس کے بعد اردو کی حمایت کرنا شیوہ شرافت و انصاف سمجھاجانے لگا۔ انجمن ترقی اردو (ہند) کے اس تاریخی جلسے میں جو دہلی میں گزشتہ موسم سرما میں ہواتھا ۔مولانا کی اردو کی حمایت میں آخری تقریر ہوئی۔اس کے بعد اردو کا سب سے بڑا خطیب ‘ اردو کا سب سے شان دار انشا پردازاور اردو ہی کی کتنی حسین اور عظیم شخصیت ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی۔
اب کسے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ
پرو فیسر رشید احمد صدیقی نے ہندوستان کی فرقہ پرستی اور فسادات میں مسلمانوں کا قتل عام اور فرقہ پرستی کا ننگا ناچ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا افسوس! اسی سال ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کر لیں ۔اس کے بعد کا ہندستان اور بھیا نک ہونے لگا اور 2014سے تو ہندو ستان کی شکل و صورت ہی بدل گئی ۔ اس قدر حکومت اور حکومتوں کی سر پرستی میں زہر افشانیاں ہوئیں اور نفرتوں کی بیج بوئے گئے کہ 2020میں فرقہ پرستی اور فسطائیت کی فصل اگ کر ہندستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کھڑی ہوگئی۔ اب مسلمانوں میں نہ ابوالکلام آزاد جیسی شخصیت ہے اور نہ ہندو ئوں میں گاندھی جی جیسی ہستی ہے کہ فرقہ پرستی کے خلاف جان جوکھم میں ڈال سکے ۔جو چھوٹے بڑے ہیں اب ان ہی کو نمونہ بن کر ابھرنا ہوگا۔ سیاست کا میدان خاص طور پر انتخابی میدان میں جو لوگ نفرت‘ عداوت اور کدورت کا مقابلہ نفرت اور فرقہ پرستی کے بجائے انسانیت اور انصاف‘ انسانی حقوق اور انسانی فلاح وبہبود سے کریں بھولے سے بھی ہندو مسلمان‘ پاکستان اور قبرستان یا شمشان گھاٹ کا ذکر نہ کریں ۔بہار میں تیجسوی نے انسانی مدوں یا ایشوز سے ذرا بھی انحراف نہیں کیا ۔جیت فرقہ پرستی خلاف طے تھی۔ رزلٹ زبر دستی فرقہ پرستی کے حق میں کر دیا گیا۔ مگر یہ ایک نمونہ ضرور ہوا اگر مسلمانوں کے اکثر یتی علا قہ میں دوچار سیٹوں پر قبضہ کرنے کا فرقہ وارانہ کھیل نہ کھیلا گیا ہوتا اور کانگریس میں جان ہوتی تو شاید یہ رزلٹ بھی نہ ہوتا۔ مسلمانوں میں سے بہتوں کو اقلیت کی فرقہ پرستی کے خلاف آگے آنا ہوگا خواہ مولانا آزاد کی طرح مسلمانوں میں معتوب ہی بننا پڑے ہندو ئوں میں اخلاقی قیادت کا بحران ہے ۔اسے مسلمان ہی کو پر کرنا چاہئے ۔ بہت سارے سیکولر سٹ اور کمیونسٹ فرقہ پرستی کے خلاف میدان میں ہیں ان سے بھی امیدیں باندھی جا سکتی ہیں ۔ گاندھی جی اور مولانا آزاد کے بعد یہی راستہ دکھا ئی دے رہا ہے۔
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا (غالب)
()()()
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
Comments are closed.