اسد الدین اویسی کے خلاف بی جے پی نے پوری طاقت جھونک دی

ایم آئی ایم کی بہار میں شاندار جیت کے بعد بی جے پی کی ہوا گل

عبدالوہاب حبیب
9970073214
ملک بھر میں ہر شخص کی زبان پر فی الوقت حیدرآباد انتخابات کی چرچا ہے وہ اس لیے کہ مرکز میں قائد حکومت بی جے پی اس انتخبات میں اپنی زور و قوت کے ساتھ یکسو ہو کر مجلس اتحاد المسلمین کے قلعہ کو فتح کرنا چاہتی ہے۔ وہ پارٹی جس نے کئی ریاستوں میں کم سیٹوں کے باوجود حکومتوں کا تختہ پلٹ دیا ایسی کیا ضرورت تھی کہ اسے اپنے مرکزی وزراء کو بھی حیدرآباد کی گلیوں گلیوں کی خاک چھاننے مجبور کردیا؟ ایسی کونسی وجوہات ہیں جو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے بی جے پی قائدین اب معمولی کارپوریٹروں کے انتخابات کیلئے جلسے جلوس کر رہے ہیں ؟ انتخابات یقینا دلچسپ ہو ںگے کیونکہ حال ہی میں بی جے پی نے بہار میں کم سیٹوں کے باوجود آر جے ڈی سے ہاتھ ملا کر وہاں کی کرسی پر قابض ہے تو دوسری طرف حیدرآباد سے شروع ہو کر مہاراشٹر کے اورنگ آباد کے راستہ بہار میں یکمشت پانچ رکن اسمبلی منتخب ہو نے کے بعد ایم آئی ایم کے بھی حوصلے بلند ہیں اور تیسری طرف تلنگانہ کی سب سے بڑی پارٹی جو ریاستی کرسی اپنے قبضہ میں رکھے ہوئے ہیں تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کیلئے چیلنج ہے۔ دیکھا جائے تو ایسے کئی پہلو ہیں جس نے بی جے پی کو حیدرآباد کے میونسپل کارپوریشن انتخابات میں اپنے تن من دھن سے کودنے مجبور کردیا۔ بی جے پی کیلئے امیت شاہ، اسمرتی ایرانی، پرکاش جاویڑیکر، یوگی آدتیہ ناتھ انتخابی جلسوں میں شروع ہو کر کارپوریٹرس کیلئے ووٹ مانگ رہے ہیں۔وجہ صاف ہے کہ بی جے پی کا مقصد کانگریس مکت بھارت کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں تنہا پارٹی بننا ہے جسے کوئی علاقائی پارٹی بھی آنکھیں نہ دکھائے اور صرف یہی پارٹی گلی سے دہلی تک مقتدر ہو۔بی جے پی کے پاس تلنگانہ ریاست کے 119ودھان سبھا سیٹوں میں سے 2سیٹیں ہیںجبکہ لوک سبھا میں چار سیٹیں بی جے پی پارٹی سے ہیں۔ حیدرآباد ویسے تلنگانہ کی راجدھانی ہے اور یہ تلنگانہ کی معاشی دارالسطنت بھی جہاں صرف میونسپل کارپوریشن کا بجٹ لگ بھگ ساڑھے پانچ ہزار کروڑ روپئے ہے۔ حیدرآباد کا جتنا رقبہ ہے اس میں 82لاکھ کے لگ بھگ آبادی رہائش پذیر ہے اور اس آبادی سے 24ودھان سبھا سیٹیں منتخب ہوتی ہیں۔بی جے پی کا ان انتخابات میں اترنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنا ووٹ بینک بڑھائے کیونکہ بی جے پی کی اب تک تلنگانہ میں سیاسی وقعت نہ کہ برابر تھی۔ لیکن حال ہی میں دباک نامی سیٹ پر ہوئے ضمنی انتخابات میں بی جے پی نے ٹی آر ایس کی سیٹ ہتھیا لی۔ اس سیٹ پر بی جے پی کے تیرہ فیصد ووٹنگ سے بڑھ کر 38فیصدی سے زیادہ ہو گیا۔ اس کے بعد سے وہ چاہتی کہ تلنگانہ کے سب سے مضبوط شہر میں گھس پیٹھ کر کے اپنا ووٹ بینک بڑھائے جو فی الوقت نہ سہی لیکن آئندہ انتخابات میں بی جے پی کیلئے ضرور کام آئے گا۔ حیدرآباد شہری علاقہ میں مسلم آبادی 40فیصد کے قریب ہے اور ایم آئی ایم صدر اسد الدین اویسی اسی شہر سے ممبر آف پارلمنٹ منتخب ہو تے ہیں اور یہاں گذشتہ مرتبہ 150میونسپل کارپوریٹر س میں سے 44سیٹیں ایم آئی ایم کے پاس، ٹی آر ایس کے پاس 99سیٹیں، چار سیٹ بی جے پی کے پاس تھیں۔ حالانکہ انتخابات میں بلدیہ جاتی مسائل جیسے بجلی،پانی ،راستے، ڈرینیج اور کچرے جیسے مسائل پر انتخابات لڑے جاتے ہیں لیکن اس بار بی جے پی کے پوری طاقت جھونکنے سے یہاں مدعے پاکستان،بنگلہ دیش، روہنگیا،ہندو مسلم ہو چکے ہیں اور یہ اظہر من الشمس ہے کہ سماج میں جتنا زیادہ بٹوارہ ہو گا اس سے بی جے پی کو ہی سیاسی فائدہ حاصل ہو گا اور بی جے پی تلنگانہ کی یہی حیدرآباد والی کنجی اپنے قبضہ میں کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کے قائدین جو سماج میں بٹوارہ کیلئے زہریلے بیانات دیتے آئے ہیں وہی کہہ رہے ہیں کہ اسدالدین اویسی کو ووٹ دینا یعنی بھارت کے خلاف ووٹ دینا ہے۔ اور پرانے علاقہ میں اسدالدین اویسی اور اکبر الدین اویسی نے روہنگیا کا بھلا کیا ہے تو ان بیانات سے صاف ہے کہ بی جے پی ہندو ووٹوںکو صد فیصد اپنے حق میں کرنا چاہتی ہے تو دوسری طرف حال ہی میں حیدرآباد میں بارش سے ہونے والے نقصانات سے عوام ٹی آر ایس سے ناراض ہے جسے وہ کیش کرنا چاہتی ہے۔ تیسری طرف ٹی آر ایس کا قد کم کرنے بی جے پی ریاست میں وزیر اعلی چندر شیکھر رائو کے خاندانی اختلافات کو ہوا دے کر کے سی آر کی طاقت کم کرنا چاہتی ہے تو وہیں کانگریس کو اپنے منہ کے بل گرانے اس کے اس الزام کو کہ ایم آئی ایم ۔ بی جے پی کی بی ٹیم ہے اس لیبل کو ہٹانے بی جے پی ان انتخابات میں پورے زور و شور سے جیتنا چاہتی ہے تاکہ یہ عندیہ دیا جائے کہ مجلس ان کی مخالف پارٹی ہے۔ اب یکم دسمبر کو حیدرآباد میں ای وی ایم انتخابات نہ ہوکر بیلٹ پیپر انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس سے خود بی جے پی پر الزام کہ وہ ای وی ایم میں گڑ بڑ کرتی ہے ، یہ بھی عوام کو بتانا چاہے گی۔ تو منجملہ بی جے پی وقتی طور پر بہت زیادہ امید نہ سہی لیکن آنے والے وقت میں تلنگانہ کو بھی اپنے قبضہ میں لینا چاہتی ہے جو فوری نہ سہی بہ دیر ہی سہی ٹی آر ایس کے قلعہ کو منہدم کرنے کی خواہشمند ہے۔ کئی سوالوں کے جواب 4دسمبر کو مل جائیں گے جب ووٹ پیپر پر موجود کارپوریٹرس کی قسمت کا فیصلہ ہو گا اور یہ بی جے پی کیلئے گلی سے دہلی تک انتخابات میں پالیسی سازی کیلئے لیباریٹری کے طور پر کام کرے گا۔

Comments are closed.