مسئلہ ایڈز اور کرونا نہیں بلبیر پاشا اور منجولا کےکردار کو داغدار کرنا ہے !

عمر فراھی ۔۔
2001میں ممبئی کی سڑکوں پر جگہ جگہ لگے ہوئے بڑے بڑے اشتہارات میں اسکوٹر پر سوار ایک نوجوان اور پیچھے ایک دوشیزہ کو سفر کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا ۔اس تصویر کے نیچے یہ تبصرہ بھی تحریر تھاکہ
"بلبیر پاشاکو ایڈز ہو گیا کیا ۔۔؟
شاید منجولا کے پاس جاتا رہا ہوگا !
اور شراب کے نشے میں کنڈوم لینا بھول گیا !”
یہ اشتہارات ایڈز بیداری مہم کے تعلق سے لگائے گئے تھے لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کا مرکزی عنوان ایڈز نہیں کنڈوم کے استعمال کو فروغ دینا ہے ورنہ ایڈز اگر اتنی ہی خطرناک بیماری تھی اور یہ ناجائز تعلقات قائم کرنے سے ہوتا ہے تو میڈیا میں احتیاط کے طور پر بحث کا موضوع عورت اور مرد کے مخلوط کلچر , ناجائز تعلقات اور بے پردگی پر روک لگانے پر ہونا چاہئے تھا نہ کہ کنڈوم کے استعمال پر ۔مگر ایسا اس لئے نہیں ہو سکتا تھا کیوں کہ لبرل نظام سیاست کی معیشت کی بنیاد ہی سود سور شراب بے حیائی اور زنا کے فروغ پر قائم ہے ۔اس کے علاوہ آزادی نسواں اور رزق کی تنگی پیدا کر کے کارپوریٹ مافیاؤں کی طرف سے بہت سے خوفناک ڈرامے تخلیق ہی اس لئے کئے جاتے ہیں تاکہ عورت کو زیادہ سے زیادہ گھر سے باہر نکال کر بازار کی زینت بنادیا جائے۔عورت جب بے پردہ ہوتی ہے تو صرف فیشن کاسمیٹکس اور ملبوسات کی تجارت کو ہی فروغ نہیں ملتا عورت بذات خود اپنے خوبصورت جسم اور حسن کے ساتھ بازار کی زینت بن جاتی ہے ۔آپ کو یاد ہوگا کہ جب سرد جنگ کے بعد سویت روس معاشی بدحالی کا شکار ہوا تو یوروپ کے قحبہ خانوں میں روسی عورتوں کی بھر مار ہو گئی ۔یہی حال قحط بنگال کے بعد سے بنگالی عورتوں کا بھی ہوا جس میں غریب اور مسلم عورتوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل رہی ہے ۔اب کویڈ کے نام پر جو پورے عالم میں معاشی بدحالی پیدا کی گئی ہے اس کے اثرات بھی بہت خطرناک ہو سکتے ہیں ۔متحدہ عرب امارات جہاں ابھی تک ہوٹلوں میں غیر شادی شدہ جوڑوں کو ٹھہرنے کی اجازت نہیں تھی اب کرونا وبا کے بعد حکومت نے یہ اجازت دے دی ہے ۔باقی عام انسانی آبادی میں جہاں مرد حضرات کی کمائی سے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہو پارہے ہیں عورتوں کی ایک بڑی تعداد نوکری اور ملازمت کیلئے باہر نکلنے پر مجبور ہوگی ۔مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کہ باہر کی دنیا میں عورتوں کا کس طرح استحصال ہوتا ہے اور دنیا کے ہر شہر میں جو فائیو اسٹار ہوٹل ہیں وہاں کتنے مہذب طریقے سے خوبصورت اور اسمارٹ لڑکے اور لڑکیوں کے زندہ گوشت اور جسم کا کاروبار عروج پرہے ۔گراہک ہوٹل کے کاؤنٹر سے خوبصورت عورتوں اور لڑکوں کے مینو کارڈ منگوا کر کال گرل یا کال بوائے کاآرڈر دے دیتا ہے ۔فحاشی کے اس عمل کے درمیان کاسمیٹک اور فیشن کی صنعتیں تو فروغ پا ہی چکی تھیں۔وہ لوگ جو ابھی کنڈوم کے استعمال سے ناواقف تھے یا جس کا نام لینا بھی عام معاشرے میں گناہ سمجھا جاتا تھا ایڈز کی خوفناک بیماری اور اس بیماری کے پروپگنڈے نے لوگوں کے اندر سے یہ جھجھک اور کراہیت بھی ختم کر دی یا جو لوگ ابھی تک کنڈوم سے واقف نہیں تھے بلبیر پاشا اور منجولا نے سب کچھ سمجھا دیا۔ اس بیماری کی اشتہارات کے ذریعے جس طرح دہشت پھیلائی گئی میں نے ان بیس سالوں میں آج تک کوئی ایڈز کا مریض نہیں دیکھا لیکن اسی HIV پازیٹیو کی طرز پرآج کرونا پازیٹیو سے جس طرح لوگوں کوخوف زدہ کیا جارہا ہے اور ہر شخص ماسک لگانے پر مجبور ہے اس کے مقاصد بھی واضح ہیں کہ کس طرح کارپوریٹ مافیاء اپنی اپنی ویکسین کی تجارت کے علاوہ اور بھی بہت سے مقاصد حاصل کر لینا چاہتے ہیں ۔کیا فرق ہے ایڈز اور کرونا میں ۔WHO کے ذریعے دونوں امراض میں مبتلا افراد کو الگ تھلگ رہنے کی ہدایت جاری کی گئی تھی تاکہ اس کے چھوت سے دوسرا متاثر نہ ہو۔فرق اتنا ہے کہ 2002 میں Contagion اور Quarantine کے تصور کی ایجاد نہیں تھی ورنہ کہا جاتا کہ ایڈز کے مریض کو Quarantine میں رکھا جائے گا ۔اچھی بات یہ رہی کہ 2002 میں سعودی عرب کے اخلاقی حالات آج سے کسی قدر بہتر تھے اور ایڈز کے پھیلنے کی گنجائش نا کے برابر تھی ورنہ اگر وہاں کے بادشاہ اور علماء دین نے اس وقت بھی ایڈز کی بیماری کے نام پر حرم کو مقفل کر دیا ہوتا تو آج دیگر مسلم ممالک کی تمام مسجدوں کے باہر یہ بورڈ تو لکھ کر آویزاں ہی کردیا جاتا کہ ایڈز کے مریض کا مسجد میں آنا منع ہے ۔خیر دجال اپنے جساساؤں کے ذریعے عالم انسانیت کی اخلاقی صورتحال کو تباہ کرنے کا منصوبہ تو اسی نوے سال پہلے ہی اسں وقت تیار کر چکا تھا جب ترک ناداں نے خود خلافت کی قبا چاک کردی ۔ اس طرح نیو ورلڈ آرڈر کی اس رکاوٹ کے بعد دنیا کے ہر ملک میں سرمایہ دارانہ لبرل طرز سیاست نے ایک عالم گیر ادارے کے ماتحت فتنے کی شکل اختیار کرلی ہے۔میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ پہلی بار خسرہ کی بیماری کے ٹیکے کو پوری دنیا کے ہر بچے کو جبراً لگایا گیا ۔پہلی بار دنیا کی تاریخ میں ایک عالمی ادارے کی طرف سے پولیو کا ڈراپ جبرا دیا گیا ۔پہلی بار جبرا لوگوں سے ماسک لگوایا گیا اور کرونا پازیٹیو مریض کو جبراً گھر سے علاج کیلئے مجبور کیا گیا ۔اگر سب کچھ سچ ہے تو اس بیماری کو لیکر امریکہ چین اور WHO کے درمیان نوک جھونک کے کیا معنی ؟ اور اب لندن کے اخبار نیو ہیرالڈ میں کرونا ویکسین کے تعلق سے فائیزر کے سابق چیف اور سائینسداں ڈاکٹر مائیکل یاڈون کے بیان بھی پڑھ لیں ۔کیا یہی بات ہم پچھلے نو مہینے سے اپنے مضامین کے ذریعے نہیں کہتے آ رہے ہیں کہ کس طرح
چین کے ووہان شہر سے اس بیماری کا شور اٹھایا گیا اور وہاں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے اور چین اس کرونا دور کے بعد مالا مال بھی ہوگیا ہے جبکہ دنیا کے دیگر ممالک کو معاشی بدحالی کے دلدل میں جھونک دیا گیا ہے ۔
اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ 2002 میں ایڈز کے نام پر خوف اور دہشت بٹھانے کا جو کام سڑکوں پر لگائے گئے بڑے بڑے اشتہارات سے کامیاب نہیں ہو سکا آج الیکٹرانک میڈیا ,WHO اور ریاستی حکومتوں کی قانونی پابندیوں اور جبر سے کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔اس پوری صورتحال میں علماء کی اپنی علمائیت کا جلوہ تو صفر کے درجے پر پہنچا ہی دیا گیا ہے بیشتر مسلم ممالک اور ان کے حکمرانوں کی تحقیق اور ردعمل بھی بہت ہی مایوس کن ہے ۔
۔ تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے جب کسی بیماری کے خوف سے نہ صرف حرمین شریف میں نماز پر پابندی لگی WHO کی ہدایت پر بیشتر مسلم ممالک کی مساجد میں بھی نماز پر پابندی لگائی گئی۔دنیا کی تاریخ میں کوئی مرض ایسا نہیں رہا جو لا علاج رہا ہو یہ بات پہلی بار دیکھی جارہی ہے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں کروڑوں اربوں ڈالر کے کنڈوم بیچ کر مالا مال ہوگئیں اور اب بھی یہ تجارت اپنے عروج پر ہے لیکن جس بدکاری کی وجہ سے اس بیماری کے پھیلنے کا سبب بتایا گیا تھا دنیا کی کسی حکومت نے اس پر کبھی پابندی لگانے کیلئے سنجیدہ کوشش نہیں کی تو اس لئے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی تشکیل سرمایہ داروں کو خوش کئے بغیر نا ممکن ہے۔
ابھی ہمارے ملک میں کرونا وائرس سے کچھ ہزار اموات ہی ہوئی ہیں لیکن پھر بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ موت کہ اصل وجہ یہ کرونا وائیرس ہی جسے (nCovid.. 19) کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اس کے برعکس جو بات ثابت ہے کہ تمباکو سے کینسر پھیلتا ہے اور اندازہ کیا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہر دس میں سے ایک آدمی کینسر کی بیماری میں مبتلا ہو جائے گا پھر بھی تمباکو کی کاشت پر پابندی نہیں لگائی جاتی اور نہ ہی کسی الیکٹرانک میڈیا پر اس کی پابندی پر سنجیدگی سے بحث ہو رہی ہے تو کیوں ؟
جس WHO کی ایک ہدایت پر احتیاط کے طور پر پوری دنیا میں ایک ساتھ لاک ڈاؤن ہو سکتا ہے لوگ ماسک لگانے پر مجبور ہیں اسی کی ہدایت پر شراب نوشی فحاشی بے حیائی اور تمباکو کے کاروبار پر پابندی نہیں ہے تو اس لئے کہ ہم سب سرمایہ دارانہ نظام کے رتھ کو کھینچنے والے جس کارپوریٹ مافیاؤں کی زد میں ہیں اور یہ پوری طرح بنت حوا کو بازار کی زینت بنا کر مکمل طور پر ایک عالمی شیطانی حکومت کا اعلان کر دینا چاہتے ہیں !
تعلیم اور ترقی کے نعرے کے تحت یوروپ سے لیکر ایشیاء تک دنیا کی تین چوتھائی آبادی میں تو یہ تحریک کامیاب ہو چکی ہے عرب کے بدلتے ہوئے منظر نامے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ایڈز اور کرونا سے زیادہ مہلک اور خطرناک فتنوں کی زد میں ہیں اور وہ فتنہ آدم کی اولاد بلبیر پاشا اور منجولا کے کردار کو داغدار کرنا ہے جس کے تعلق سے قرآن نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی تنبیہ کر دی تھی کہ ائے بنی آدم کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان پھر تمہیں اسی فتنے میں مبتلا کر دے جیسا کہ اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوا کر کیا ۔سورہ اعراف
Comments are closed.