بابری مسجد اور ہم! الطاف جمیل ندوی

امت کے لئے مسجد کی اہمیت جان سے زیادہ ہے یہ تو مجموعی عقیدہ ہے کہ مساجد ہی امت کے لئے دنیا کا سب سے اعلی پلیٹ فارم ہیں جہاں وہ رب کبریاء کی بندگی کے ساتھ ساتھ آپسی محبت اخوت ہمدردی اور باہمی معاملات کا ادراک کرکے اپنی زندگیوں میں حرارت ایمانی غیرت اسلامی کی آبیاری کرتے رہے ہیں

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ بتاتی ہے یہ کبھی لاچار و مساکین کا مرکز تھی دعوت و تبلیغ کا منبع اسلامی پارلیمنٹ اسلامی تعلیمات کا مرکز اب جو بھی مساجد بنتی گئیں تو ان مساجد کی اماں کہلائی جاسکتی ہے اور ہر مسجد اسی طرز پر بنتی گئی تو پورے عالم عربی میں اسلامی تحریک کی آبیاری یہیں سے ہوتی رہی عجب بات ہے کہ تب منافقین بھی مساجد میں نماز ادا کرنے چلے جاتے جو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخلص مومن ان سے واقف تھے انہوں نے شاید ہی کبھی ان کے مساجد میں داخلہ پر ناراضگی کا اظہار کیا ہوگا کبھی کبھار تو کفار بھی مساجد میں چلے آتے اور استفادہ کرکے ایمان لے آتے جب تک یہ سلسلہ چلتا رہا اسلامی کی سرحدیں وسیع سے وسیع تر ہوتی گئیں اور اہل ایمان کے اخلاقیات ان کی شرم و حیا کو دیکھ کر غیر بھی چلا اٹھتے کہ واقعی یہ لوگ سچے اور پاکباز ہیں حق ہے کہ ان کی معیت اور ساتھ رہنے میں فلاح و کامرانی ممکن ہے

پھر زمانے نے کروٹ لی

اس زمانے کی کروٹ نے امت مسلمہ کے جسم میں وہ ناسور پیدا کیا کہ جو تب سے اب تک مسلسل رس رہا ہے جس کے درد و کرب کی چھبن ہر روز جسم مسلم کو چھلنی چھلنی اور خون آلود بنا رہا ہے امت جو بکھر گئی تب سے اب تک مسلسل بکھرتی ہی چلی جارہی ہے اس بات سے ہم واقف ہیں کہ کیا سے کیا ہوگی پھر امت مسلمہ کی حالت امت نے اپنی مساجد بجائے اسلام کی آبیاری و اشاعت کے ان کا دائرہ کار افکار تک محدود کردیا سیاست تبلیغ کا طریقہ کار بدل گیا اور مساجد کا تقدس جو تھا اس کا طریقہ بدل دیا گیا اب یہاں مخالف فکر پر لعن طعن کیا جانے لگا بجائے ہمدردی و الفت و اتحاد کے اب لوگ کہنے لگئے کہ فلاں مسجد میں نماز نہیں آئے گی میں فلاں مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکتا وہاں فلاں صاحب نماز پڑھتا ہے یا پڑھاتا ہے لوگ ان مساجد کی عظمت رفتہ بحال کرنے کے بجائے اپنے دائرے فکر کے لئے ان کا استعمال کرنے لگئے اور پھر مساجد کی بہت بڑی تعداد میں مساجد بنتی گئیں اور امت ان سے دور ہوتی گی اب ان مساجد کے متوالے بے ریش بے نمازی کفار و مشرکین کے معاونین ہی متولی بنتے گئے جہاں ایمان اسلام قرآن و سنت اسلام کے تصور آزادی پاکیزہ اخلاق تہذیب و تمدن اسلامی کا جنازہ پڑھا گیا تو نتیجہ یہی نکلا کہ امت بکھرتی رہی جو کہ اسلام کے اعلان کے ساتھ ہی اس سے باغی لوگ امت مسلمہ کے سروں کی فصل کے ساتھ ساتھ مساجد کو بھی یرغمال بنایا گیا نمازیوں کی جگہ ان مقدس مقامات میں جانوروں کو رکھا گیا یقین نہ آئے تو پچھلے ہفتہ آزربایجان کے حاصل کئے علاقہ کی مسجد دیکھی جاسکتی ہے یا ترکی میں ابلیسی انقلاب کے بعد آیا صوفیہ جس سے میوزیم میں تبدیل کیا گیا تھا جامع قرطبہ یا الاقصی کو یاد کیا جاسکتا ہے اس سلسلے میں وہیں ہم بابری مسجد کا نام بھی لے سکتے ہیں جس کے مینارے جس کے در و دیوار امت مسلمہ کی عظمت کی امین و شاہد بھی ہے پر کیا حاصل ہوگیا ہم نے اپنے ہاں کی ایک مسجد کی سالمیت کو باقی نہ رکھ سکے تو ہمیں اپنا اول اپنی اوقات کا تعین کرنا چاہئے کہ ہماری حیثیت ہے کیا ہم کون ہیں اور کہاں جارہے ہیں کیا ہم اپنے ماضی سے یوں ہی دستبردار ہوتے جائیں گئے تو ہم کہاں ہوں گئے ہم نے ایسا کیا کیا کہ ہماری پہچان ہی ہم سے چھینی جارہی ہے ہم نے غلط قدم کہاں اٹھائے اور کیوں اس کیوں کا جواب ہی ہماری ناکامی اور بربادی کا اصل سبب ہے پر اس کا تصور کرنا محال ہے تب تک جب تک ہم اپنی انانیت سے لاتعلق نہیں ہوجاتے یہ انانیت اور اپنے رہبر معظم صلی اللہ علیہ وسلم سے لاتعلقی ہی اصل سبب ہے ہماری بربادی کا کیا ہم ایسا جواب اپنی صفوں میں تلاش کر سکتے ہیں کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں کس حیثیت سے موجود ہیں ان کی تعلیمات ان کا اسوہ کاملہ کہاں پر ہم مان کر چلتے ہیں امت کیا سے کیا ہوگی اور ہم صرف ایک جز پر باتیں کئے جارہے ہیں جب اسلام اپنی اصل ہیت میں ہماری صفوں میں ہی موجود نہیں تو مساجد کیونکر باقی رہ جاتیں یہ وہی سزا ہے کہ تم لوگ دین سے بیزار ہوجاؤ گئے تو رب کریم بھی تم لوگوں سے بیزار ہوکر تم پر ایسے ظالم مسلط کریں گئے جن سے نجات تمہارے لئے ممکن ہی نہیں ہوگئی تم دعائیں مانگو گیے تو قبول نہیں کی جائیں گئیں تو

کچھ یادیں بیتے زمانے کی

 

مساجد مسلمانوں کے لئے پارلیمنٹ عبادت گاہ مرکز اخوت ہوا کرتی تھی

مسلمان آپس میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہوا کرتے تھے

مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوا کرتے تھے

مسلمان ایک دوسری کی مدد و نصرت کرنے میں پہل کیا کرتے تھے

مسلمان ایک دوسرے کے غم و خوشی کے ساتھی ہوا کرتے تھے

مسلمان راتوں کے عابد اور دن کے شہ سوار ہوا کرتے تھے

مسلمان باغیرت باحیا ہوا کرتے تھے جن کی نگاہیں اور اجسام پاکیزہ ہوا کرتے تھے

مسلمان ظلم و زیادتی کے بجائے امن و اخوت کے داعی ہوا کرتے تھے

مساجد مسلمان کی آہوں اور ان کے آنسوؤں کی امین ہوا کرتی تھی

مسلمان بھوک پیاس کے باوجود اللہ کی بندگی و اطاعت سے فرار اختیار کرنا کفر سمجھتے تھے

مسلمان علم و ادب کے محافظ و پاسباں ہوا کرتے تھے

مسلمان باوقار و خلوص و للاہیت کے داعی و پیام بھر ہوا کرتے تھے

پر اب ایسا شاید خال خال ہی کہیں دیکھا جاسکتا ہے تو

آئے اہل چمن آئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارو کیا ہم اپنا محاسبہ کرنے کے لئے کوشاں ہوسکتے ہیں آپ نے گھر اپنی زندگی اپنے معاملات اپنی مصروفیات میں اسلامی افکار و نظریات کو جگہ دے سکتے ہیں تو پھر مدد آکر رہے گی نہیں تو

مساجد جاتی رہیں گئیں مدارس اجڑتے رہیں گئے تہذیب و تمدن اسلامی کا جنازہ اٹھتا رہے گا اور

ہم خر مستیاں کرتے رہیں گئے کہ فرشتہ اجل آکر

ہم سے ہماری جاں لے کر چلا جائے گا اور ہماری تہذیب

و ثقافت کا جنازہ بھی اٹھ جائے گا ماتم کرنے والا

بھی کوئی باقی نہ رہے گا

 

امت مسلمہ کے نام

وہ دیکھو کچھ خواب پڑے ہیں

ملنے کے تھے

کِھلنے کے تھے

دیکھو کیسے ٹوٹے پڑے ہیں

اور وہ دیکھو اک آس پڑی ہے

پریت کی تھی

مِیت کی تھی

جیسے بالکل مر سی گئی ہے

ہاں! کچھ یادیں بھی ہیں

پیار بھری تھیں

بہت ہری تھیں

سوکھ کے کانٹا ہو گئی ہیں

اور وہ دیکھو

ارے اس کونے میں

دو آنکھیں ہیں ناں

بہت حسیں ہیں

مگر غمگیں ہیں

اٹھتی تھیں پھر جھکتی تھیں

جیسے کوئ راہ تکتی تھیں

ارے غور سے دیکھو ناں ان کو

بالکل ساکن ہو گئی ہیں

بالکل پتھر ہو گئی ہیں

اللہ ہمارے حال پر کرم و دستگیری کا معاملہ فرمائے

 

جاری

Comments are closed.