آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
نماز میں دیوار گھڑی سے وقت دیکھنا
سوال: مسجدوں میں عام طور پر قبلہ کی سمت والی دیوار میں گھڑی لگی ہوئی ہے، نماز پڑھتے ہوئے گھڑی کی طرف نظر چلی جاتی ہے، اور نمازی وقت دیکھ لیتا ہے، تو کیا اس کی وجہ سے نماز پر کوئی اثر پڑے گا؟ (رفیع الدین، بنڈلہ گوڑہ)
جواب: اگر گھڑی پر بلا ارادہ نظر پڑ جائے اور وقت سمجھ میں آجائے؛ لیکن زبان سے اس کا تلفظ نہیں کرے تو نہ نماز فاسد ہوگی اور نہ مکروہ؛ کیوں کہ اس میں اس کے قصدوارادہ کا دخل نہیں ہے، بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جو چیز دیوار پر لکھی ہوئی دیکھتے ہیں، زبان سے بھی اس اس کا تلفظ کر گزرتے ہیں، تو اگر اس نے وقت کا تلفظ بھی کر لیا تو نماز فاسد ہو جائے گی؛ کیوں کہ گفتگو بالارادہ کی جائے یا بلا ارادہ ، اس سے نماز فاسد ہو جاتی ہے، ہاں اگر زبان سے تلفظ تو نہیں کیا؛ لیکن بالارادہ گھڑی پر نظر جمایا تو یہ مکروہ ہے، اس سے بچنا چاہئے: وإن کرہ أی لاشتغالہ بما لیس من أعمال الصلاۃ، وأما لو وقع علیہ نظرہ بلا قصد وفھمہ فلا یکرہ (ردالمحتار: ۲؍ ۳۹۸)
صحن مسجد کا حکم
سوال: بعض مسجدوں میں تعمیر شدہ حصہ تو مختصر ہوتا ہے؛ لیکن صحن بہت وسیع ہوتا ہے، جس میں عموماََ نماز ادا کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی، تو اس صحن کا کیا حکم ہے، یہ مسجد میں داخل سے یا مسجد سے باہر ہے، معتکف صحن کے حصہ میں ٹھنڈک کے دنوں میں گرمی کی راتوں میں وقت گزار سکتا ہے یا نہیں؟ ( عبدالاحد، اعظم گڑھ)
جواب: مسجد کے لئے تعمیر ضروری نہیں، اگر کھلی ہوئی زمین میں مسجد کی نیت کر لی جائے تو وہ بھی شرعاََ مسجد ہے، اور اس پر مسجد کے تمام احکام جاری ہوں گے، یہ دراصل وقف کرنے والے کی نیت پر موقوف ہے، جس نے وقف کیا تھا، اگر اس نے اس کھلی ہوئی زمین میں بھی مسجد کی نیت کی، یا لوگوں کو بحیثیت مسجد نماز پڑھنے کی اجازت دی، تو اس کا شمار مسجد ہی میں ہوگا اور اس پر مسجد ہی کے تمام احکام جاری ہوں گے: إعلم أنہ لا یشترط فی تحقق کونہ مسجدا البناء لما فی الخانیۃ: لو کان لہ ساحۃ لابناء فیھا أمر قومہ بالصلاۃ فیھا بجماعۃ الخ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار: ۲؍ ۵۳۶)
اگر شوہر آپریشن کی وجہ سے صنفی حق ادا کرنے کے لائق نہ رہے؟
سوال: زید کا ایک بیماری کی وجہ سے ناف سے نیچے کا آپریشن ہوا، جس تکلیف کے لئے آپریشن کیا گیا تھا، اس سے آرام بھی ہوا؛ لیکن بیوی سے ہمبستری کی طاقت باقی نہیں رہی، اس کی بیوی جوان اور شوہر کی ضرورت مند ہے، کیا ایسی صورت میں عورت کے مطالبہ پر اس کا نکاح فسخ کیا جا سکتا ہے؟ (نکہت سلطانہ، مہدی پٹنم)
جواب: نکاح کا سب سے اہم مقصد یہ ہے کہ شوہر وبیوی عفت وپاکدانی کی زندگی گزار سکیں، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب دونوں ایک دوسرے کی جنسی ضرورت پوری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں؛ اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص بیوی سے ظہار کر لے، جیسے: کہے: ’’ تم مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے‘‘ تو اب اس کے لئے بیوی سے صحبت کرنا جائز نہیں ہوگا، جب تک کہ ظہار کا کفارہ ادا نہ کر دے تو شرعاََ شوہر کو مجبور کیا جائے گا کہ یا تو ظہار کا کفارہ ادا کرو اور بیوی کا جنسی حق پورا کرو، یا اسے طلاق دے دو: علی القاضی إلزام المظاھر بالتکفیر دفعا للضرر عنھا……….. أو ضرب الی أن یکفر أو یطلق (ردالمحتار: ۲؍۵۴۸)اسی طرح اگر شوہر نامرد ہو یا کسی اور وجہ سے بیوی کا صنفی حق ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو قاضی اس کا نکاح فسخ کر دے گا: وإذا وجدت المرأۃ زوجھا مجبوبا أو مقطوع الذکر فقط أو صغیرا جدا کالرز…………. فرق الحاکم بطلبھا………… بینھما فی الحال (الدرالمختار مع الرد: ۲؍۱۱۶) اس لئے اس صورت میں اگر بیوی محسوس کرتی ہے کہ وہ صبر نہیں کر سکے گی تو وہ قاضی شرع کے پاس فسخ نکاح کا دعویٰ پیش کر سکتی ہے اور اس کی وجہ سے اس کا نکاح فسخ کیا جا سکتا ہے، ہندوستان میں جو دارالقضاء اور محاکم شرعیہ قائم ہیں، ان کا اسی پر عمل ہے۔
غیر محرم سے دوستی اور تحفہ
سوال: آج کل مخلوط تعلیم کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں اجنبی لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان دوستی کا رواج عام ہے، یہ دوستی بہت سی دفعہ ناجائز تعلق تک بھی پہنچ جاتی ہے، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دونوں آپس میں نکاح کر لیتے ہیں، اس دوستی کے درمیان دونوں ایک دوسرے کو تحفہ بھی دیتے ہیں، ایسے تحفہ دینے اور اس کے قبول کرنے کا کیا حکم ہے؟ بعد کو اگر کسی فریق کو اپنے اس عمل پر پچھتاوا ہوا،اور اس نے توبہ کر لی تو اسے کیا کرنا چاہئے؟ (عنایت کریم، آصف نگر)
جواب: غیر محرم لڑکے اور لڑکیوں سے دوستی کرنا جائز نہیں ہے، تحفہ دینا یوں تو ایک جائز عمل ہے؛ لیکن ایسی دوستی میں تحفہ کا مقصد ناجائز تعلق استوار کرنا ہوتا ہے؛ اس لئے تحفہ دینا بھی جائز نہیں ہے، فقہاء نے اس کو رشوت کے حکم میں رکھا ہے اور صراحت کی ہے کہ جس کو اس طرح کا تحفہ دیا گیا ہو، وہ اس کا مالک نہیں ہو جاتا، اس کو راہ راست کی ہدایت ملنے کے بعد اسے واپس کر دینا چاہئے، اور جس نے تحفہ دیا تھا، اس کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنا دیا ہوا سامان واپس لے لے: المتعاشقان یدفع کل واحد منھما لصاحبہ أشیاء فھی رشوۃ لا یثبت الملک فیھا وللدافع استردادھا (الفتاویٰ الہندیہ: ۴؍۴۰۳)
مرض وفات میں واجب الادا مہر معاف کرنا
سوال: ہندہ عرصہ سے بیمار تھی، موت سے ہفتہ دس روز پہلے اس کی بیماری بڑھ گئی، اسی حالت میں اس کے انتقال سے ایک دن پہلے گھر کی عورتوں نے کہا کہ شوہر کا مہر معاف کر دو، اور اس نے اشارہ سے’’ ہاں‘‘ کہہ دیا تو کیا مہر معاف ہوگیا؟ (ایاز احمد، سکندرآباد)
جواب: ہندہ کا مہر اس کے شوہر کے ذمہ دین ہے ،جب کوئی آدمی مرض وفات میں مبتلا ہو جائے تو وہ خود اپنے مال کا مالک باقی نہیں رہتا، اب اس کے مال سے اس کے ورثہ کا حق متعلق ہو جاتا ہے؛ لہٰذا ہندہ سے جس وقت مہر معاف کرایا گیا، اس وقت اس کے مہر پر اس کے ورثہ کا حق ثابت ہو چکا تھا؛ اس لئے اگر وہ معاف کر بھی دے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا؛ بلکہ ورثہ کو حق ہوگا کہ وہ ہندہ کے ترکہ کی حیثیت سے اپنے حق کا مطالبہ کرے، ہندہ کے اس حالت میں مہر معاف کر دینے سے مہر معاف نہیں ہوگا: ولا بد فی صحۃ حطھا من أن لا تکون مریضۃ مرض الموت (البحر الرائق: ۳؍۲۶۵)
کورونا ویکسین کا استعمال
سوال: اس وقت پوری دنیا میں کورونا ویکسین کی تیاری کی کوششیں جاری ہیں، ہمارے ملک میں بھی ویکسین کی تحقیق چل رہی ہے، امید کی جاتی ہے کہ ۲۰۲۰ء کے ختم یا ۲۰۲۱ء کے شروع میں کورونا کی ویکسین آجائے گی، معلوم نہیں کہ ویکسین مین کن اجزاء کا استعمال ہوگا، ہو سکتا ہے کہ اس میں حرام جانوروں کے اجزاء یا حلال جانوروں کے حرام اجزاء استعمال کئے جائیں، تو ایسی صورت میں کیا اس ویکسین کا استعمال اس مریض کے لئے جائز ہوگا جو بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے، اور کیا اس شخص کے لئے اس کی اجازت ہوگی جو ابھی اس بیماری میں مبتلا نہیں ہے؛ لیکن وہ بیماری سے بچنے کے لئے احتیاطی طور پر ویکسین لینا چاہئے؟(خبیب احمد، بنجارہ ہلز)
جواب: بیماری کی حالت انسان کے اختیار سے باہر ہوتی ہے، اور اس میں شریعت نے بوقت ضرورت ناجائز چیزوں سے بھی علاج کی اجازت دی ہے، اگر ڈاکٹروں کی رائے ہو کہ کسی حرام چیز ہی سے اس کا علاج ہو سکتا ہے تو اس کا استعمال جائز ہے: الاستشفاء بالحرام إنما لا یجوز اذا لم یعلم أن فیہ شفاء، أما ان علم ولیس لہ دواء غیرہ یجوز (ردالمحتار، کتاب البیوع، باب المتفرقات: ۵؍۲۲۸)اگر ابھی بیمار نہ ہوا ؛ لیکن وباء پھیلی ہوئی ہو اور وباء سے متأثر ہونے کا اندیشہ ہو، ڈاکٹر کی ہدایت ہو کہ ویکسین کا استعمال کیا جائے تو یہ بھی علاج ہی کے حکم میں ہے؛ کیوں کہ حفظان صحت علاج کی پہلی منزل ہے۔
مہر کی کم سے کم مقدار
سوال: مہر کی کم سے کم کتنی مقدار ہو سکتی ہے؟(اریبہ، شاہ علی بنڈہ)
جواب: مہر کی کم سے کم مقدار امام ابو حنیفہؒ کی نزدیک ۱۰؍ درہم ہے، موجودہ اوز ان میں اس کی مقدار ۳۰؍ گرام ۶۱۸؍ ملی گرام ہوتی ہے، کم سے کم اتنی چاندی یا اتنے روپئے جس سے چاندی کی یہ مقدار خریدکی جا سکے، مہر مقرر کرنا ضروری ہے؛ تاہم بہتر یہ ہے کہ مہر فاطمی مقرر کیا جائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں اور ازواج مطہرات کا مہر پانچ سو درہم تھا، جو موجودہ اوزان کے اعتبار سے ایک کلو چھ سو بانوے گرام چاندی ہوتی ہے، نہ مہر اتنا زیادہ رکھا جائے کہ ادائیگی دشوار ہو جائے اور نہ اتنا کم رکھا جائے کہ اس کی کوئی اہمیت باقی نہ رہے۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.