امریکی ٹیکنالوجی کمپنی سائبر حملے کی زدمیں

عبدالرافع رسول
جمعرات 17دسمبر2020کوامریکہ کی سولر ونڈز نامی امریکی ٹیکنالوجی کمپنی کے سوفٹ ویئر میں ہیکنگ کا انکشاف ہوا ۔اس ہیکنگ حملے میں جن امریکی سرکاری اداروں اور ایجنسیوں کا نشانہ بنایا گیا ان میں وہ ادارہ بھی شامل ہے جو امریکی جوہری ہتھیاروں کی نگرانی کرتا ہے۔جبکہ امریکہ محکمہ توانائی کے ساتھ ساتھ اب تک اس جاسوس سائبر حملے سے ہوم لینڈ سکیورٹی، محکمہ خزانہ، داخلہ اور تجارت سمیت متعدد سرکاری دفاتر کے نیٹ ورک متاثر ہوئے ہیں۔ اس ہیکنگ حملے میں جسے ’’سن برسٹ ‘‘کا نام دیا گیا ہے ہیکرز نے ایک امریکی کمپنی سولر ونڈز کے تیار کردہ نیٹ ورک منیجمنٹ سوفٹ ویئر میں ایک چھوٹا سا خفیہ کوڈ داخل کیا۔ جس کے بعد ہیکرز کو یہ سوفٹ ویئر استعمال کرنے والی کمپنیوں اور اداروں کے نیٹ ورکس پر اعلیٰ حد تک کنٹرول حاصل کرنے کی رسائی مل گئی تھی، تاہم یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہیکرز کی جانب سے اس کوڈ کو ان کمپنیوں کے نیٹ ورک میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ یا تباہ کن اثر ڈالنے کی بجائے اسے ڈیٹا چرانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
اس جاسوس سائبر حملے میں چند اداروں سے قومی راز، دفاع سے متعلق امور کی تفصیلات اور دیگر متعلقہ معلومات چرانے کی کوشش کی گئی۔اگرچہ یہ سوفٹ وئیر ڈاون لوڈ کیا گیا ہو سکتا ہے مگر اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ ڈیٹا بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔ اس سائبر حملے کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ مہینوں جاری رہنے والے اس سائبر حملے کو رواں برس مارچ سے قبل شروع کیا گیا تھا۔امریکی کمپنی سولرونڈز نے اس سے قبل کہا تھا کہ اس سائبر حملے میں ان کے 18 ہزار سے تین لاکھ صارفین متاثر ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ صارفین یا عام شہریوں کے ڈیٹا کی چوری سائبر حملے کا ایک مقصد تھا۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے جمعہ کو امریکی ریڈیو ٹاک شو کے میزبان مارک لیون کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ کئی مہینوں کے دوران، دنیا بھر کی دیگر کمپنیوں اور حکومتوں کے ساتھ ساتھ متعدد امریکی سرکاری ایجنسیوں اور نجی کمپنیوں میں داخل ہوا ہے۔ان کاکہناتھا کہ امریکی سرکاری اداروں میں سرائیت کرنے کے لیے تھرڈ پارٹی کے سافٹ ویئر کو استعمال کر کے ایک کوڈ داخل کی واضح کوشش کی گئی ہے۔
سائبرحملے دور حاضر کی ایک نئی جنگ کی جہت کے طورپر فروغ پا رہے ہیںجبکہ روز مرہ زندگی میں سائبر حملوں کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ سائبر حملے دنیا بھر میں نہایت تیز رفتار، مہلک، خطرناک و حساس مانے جاتے ہیں۔سائبر حملوںسے کیا مراد ہے اور یہ کس طرح ہوتے ہیں۔ یہ مختلف اہداف کونشانہ بناتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سائبر حملے کیاہوتے ہیں ،کیسے ہوتے ہیں،کس طرح کئے جاتے ہیں ، کون ان حملوں کااہتمام کرتا ہے اور اسکرینوں کے پیچھے بیٹھے مبہم سائے اس جنگ میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔
سائبر حملے سائبر اسپیس میں مخالفین کے مابین کی جانے والی ایک تذویراتی جنگ ہوتی ہے۔ اس میں متحارب ممالک بڑے پیمانے پر، سستی اور خفیہ کارروائیاں کرتے ہیں۔ سائبر حملوںکے لئے وسیع میدان جنگ دستیاب ہوتاہے ۔ یہ کم سے کم پانچ مختلف جہتوںیعنی معاشی، معاشرتی، ثقافتی، دانشورانہ، فوجی اور سیاسی حملے ہوتے ہیں۔سائبر وار سستی اور ایک خفیہ جنگ کہلاتی ہے، پچھلی دو دہائیوں کے دوران اس کھیل کی نوعیت یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔انٹرنیٹ آج ایک اہم انفراسٹرکچر ہے۔ کوئی بھی ملک جو اس پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے اس کا نقصان بھی نسبتا زیادہ ہوتا ہے۔ آئی پی چوری سے لے کر، چھوٹے کاروبار، انتخابات تک اس کا نشانہ ہو سکتے ہیں۔ یہ انتہائی سستا ذریعہ ہے جس کی تربیتی ویڈیوز بھی آسانی سے آن لائن ہی دستیاب ہیں لہذا ضرورت صرف ایک ایسے گروپ کی ہے جو لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کنکشن رکھتا ہو۔حساس ڈیٹا بیس جیسا کہ کریڈٹ کارڈ کی خفیہ معلومات تجارتی بنیادوں پر سٹور کیا گیا عوام الناس کا ذاتی خفیہ بائیوڈیٹا، تجارتی راز و نیاز اور معاہدے خفیہ کوڈز، صارفین کی خفیہ معلومات اور آمدنی کا ریکارڈ، ملازمین کا خفیہ اور ذاتی ریکارڈ، حساس تنصیبات کی لسٹ اور کوڈز ،عسکری معلومات و غیرہ سائبر مجرموں کے لئے کشش کا باعث ہوتا ہے۔
جنگ کے میدان کے علاوہ سائبر حملوں کانشانہ بینک اور مالیاتی اداروں کے مین سرور یا کمپیوٹربھی بن جاتے ہیں اورہیکرز خود کار سوفٹ وئیر کی مدد سے انہیں نشانہ بناتے ہیں اور کسی بھی بینک میں یاباہر موجوداے ٹی ایم مشین کو کسی بھی دور لوکیشن سے کنٹرول کر کے لاکھوں روپے نکال لیتے ہیں یا پھر کھاتے داروں کی خفیہ معلومات چرا کر آن لائن کروڑوں روپے اپنے مخصوص اکاونٹ میں ٹرانسفر کرلیتے ہیں۔ہیکرزسائبر حملوں کے ذریعے سے تجارتی اداروں کے ان افراد کے اکاونٹس اورانکی خفیہ معلومات کوبھی نشانہ بناتے ہیں۔ جنہیں اداروں میں مالیاتی فنڈز ٹرانسفر کرنے میں کلیدی اہمیت حاصل ہوتی ہے جیسے مالیاتی کنٹرولر، چیف اکاونٹس آفیسرز، چیف کیشئر ، چیف مالیاتی آفیسر، اور چیف ایگزیکٹو وغیرہ ایسے افراد کے کمپیوٹر کو ہیک، یعنی ایک ریموٹ لوکیشن سے آپریٹ کر کے ان کے علم میں لائے بغیر غیر قانونی طریقہ سے ایک خطیر رقم کمپنی کے اکاونٹ سے آن لائن کسی بھی دوسرے اکاونٹ میں چند سیکنڈ میں کسی بھی ملک یا شہر میں بھیجی جاسکتی ہے۔کسی بھی مالیاتی ادارے کی ویب سائیٹ پر حملہ کی صورت میں سائبر حملہ براہ راست کھاتہ داروں کی ذاتی خفیہ معلومات تک رسائی سے لیکر آن لائن فنڈز ٹرانسفر تک کے عمل کو ہیک کر دیاجاتا ہے ۔جس کے لئے ایسے ادارے خطیر رقم خرچ کر کے انفرمیشن ٹیکنالوجی ماہرین کی مدد سے بچائو کرتے ہیں۔آن لائن بینک اکاونٹس سائبر جرم تو اکثرتب بھی ہو سکتا ہے جب ہم اپنے سمارٹ فون پر اپنا بینک بیلنس جاننے یا روز مرہ کی کسی ضرورت کے تحت یا اپنا یوٹیلٹی بل ادا کرنے کی غرض سے لاگ آن ہوتے ہیں تو سائبر جرائم پیشہ افراد دوران انٹر نیٹ سرچ ہمیں ایسی سکرین دکھا رہے ہوتے ہیں جو ہمارے بینک کی ویب سائیٹ معلوم ہوتی ہے مگر جب ہم اپنی انتہائی خفیہ معلومات اس ویب سائیٹ کو اصل جان کر درج کرتے ہیں تو ہمارا اکاونٹ نمبر، خفیہ شناخت، شناختی کارڈ نمبر وغیرہ سارا ڈیٹا جرائم پیشہ افراد سائبر جرائم کے تحت پس منظر میں اپنے کمپیوٹر پر محفوظ کر لیتے ہیں اور پھر ہمارے ذاتی اکاونٹ میں رقم ہونے کی صورت میں ہم سائبر کرائم کا شکار ہو جاتے ہیں۔
مختلف کمپنیاں اور مالک اپنے حریفوں پر سبقت لے جانے کے لئے کرتے ہیں۔ جیسے عالمی شہرت رکھنے والی کمپنیوں کے تکنیکی بلیو پرنٹ پیداواری اور فوجی صلاحیتوں کی معلومات، اس طریقہ واردات میں مین سرور کو ریموٹ لوکیشن سے نشانہ بنا کر ہیکرزسائبر حملوںکے ذریعے اپنے کنٹرول میں کر لیتے ہیں اور پھر اپنی منتخب یا درکار معلومات ڈائون لوڈ کر کے دوبارہ سسٹم کوآف کردیتے ہیں اور پتہ بھی نہیں چلتا کہ کیا ہوا۔
اکثر کاروباری افراد، طالب علم،بین الاقوامی محقق اپنے کاروباری لین دین، کتابوں کی آن لائن خریداری، اپنے تحقیقی مقالموں کی نشرو اشاعت اور خریداری بذریعہ کمپیوٹر آن لائن ویب سائیٹ پر اپنے ملکی یا غیر ملکی کرنسی والے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کرتے ہیں تاکہ جلد از جلد رقم کی ادائیگی ہونے کے بعد ان کی مطلوبہ چیز مل جائے۔ہیکرزسائبر حملوںکے ذریعے لوگوں کے ٹرانزیکشن کو ہیک کرتے ہوئے انہیںنشانہ بناتے ہیں اور لوگ اپنے کریڈٹ کارڈ میں موجود بیلنس رقم گنوا بیٹھتے ہیں یہ نقصان تب تو بہت ہی زیادہ ہوتاہے جب کسی کاروباری شخص کے کریڈٹ کارڈ میں کارپوریٹ بیلنس ہو جو چند لاکھ سے کروڑوں تک ہو سکتا ہے۔ ہیکرزسائبر حملوںکے ذریعے ہر وقت بین الاقوامی کمپنیاں جو آن لائن خریداری کرتی ہیں، کی نگرانی کرتے ہیں اور جیسے ہی کوئی شخص ان پر اپنی ذاتی خفیہ معلومات یعنی خفیہ کوڈ یا کریڈٹ کارڈ نمبر درج کرتے ہیں۔ توہیکرزسائبر حملوںکے ذریعے سے کاپی اور پیسٹ کرکے اسکے چند منٹوں میں اس کارڈ نمبر سے اپنی ہی بنائی ہوئی فرض آن لائن کمپنیوں سے کاروبار اور خریداری میں استعمال کرکے سارا بیلنس چرا لیتے ہیں اور یوں معصوم صارف سائبر حملوں کا شکارہو کر اپنی زندگی بھر کی کمائی سے محروم ہو جاتا ہے۔سائبر حملوں کا پتہ لگانا اور ہیکرز تک پہنچنا وہ بھی تب جب کہ ان کی موجودگی دنیا کے دوسرے ممالک میں ہو نہایت مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتی ہے۔
اس بات کا اندازہ آپ یوں لگالیں کہ جو شخص بھی روز مرہ زندگی میں کمپیوٹر استعمال کرتا ہے۔ موبائل رکھتا ہے، آن لائن بینک اکاوئنٹ پر ٹرانسفریکشن کرتا ہے اور انٹرنیٹ پر بیٹھ کر کوئی بھی کام کرتا ہے وہ سائبرحملہ آوربھی ہوسکتا ہے۔یہ حملے چونکہ کمپیوٹر کے ذریعے کئے جاتے ہیں اس لئے یہ’’ سائبر حملے کہلاتے ہیں۔آج کے جدید دورمیں کمپیوٹر کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے اور ہم اپنے روز مرہ کے اکثر کاموںمیں کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہیں چاہئے وہ گھر ہو یا دفتر پارک ہو ، کھیل ہو یا سفر ہم ٹیکنالوجی کو اپنی زندگی آسان بنانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ اور اسی لئے روز مرہ زندگی میں سائبرحملوں کا خطرہ بھی بہت بڑھ گیا ہے۔ جس سے بچنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو تا جارہا ہے۔سائبرہیکرزمعلومات کو نشانہ بناتے ہوئے مالی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اورفریق مخالف کوبڑے پیمانے پرنقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان حملوںکا سراغ لگانا بھی مشکل ہے۔ 2010میں بہت اچھی منصوبہ بندی کے ساتھ ایک گیم چینجر سائبر حملہ مالویئر اسٹکس نیٹ جاری کیا گیا تھا جس کا مقصد ایران کی ایٹمی صلاحیت کو نقصان پہنچانا تھا، طریقہ کار ایسا اختیار کیا گیا تھا کہ یوں محسوس ہو جیسے ایرانی یورینئم افزودگی کے پلانٹ میں انجینئرنگ کی سنگین غلطیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ ایک ہوشیار اور سوچ سمجھ کے ساتھ کیا گیا حملہ تھا۔ اسٹکس نیٹ کو امریکہ اور اسرائیل کے اشتراک عمل کا نتیجہ قرار دیا گیا اور انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ حکومتیں خفیہ انٹیلی جنس مقاصد کے حصول کے لئے مالویئر استعمال کر سکتی ہیں۔ضروری نہیں ہے کہ مالویئر کو حکومتی تعاون کی ضرورت ہو۔ ہیکرز اتنی اہلیت کے حامل ہیں کہ ان کو حکومتوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ عام طور پر مالویئر آسان، کم لاگت اور تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے۔
انڈر گراونڈ مارکیٹ میںنت نئے سائبر حملوں کی حکمت عملی، تکنیک و طریقہ کار آلات و اوزر بھی شیئر کیے جا رہے ہیںاوراے ٹی ایم مشین کو کسی بھی دور لوکیشن سے کنٹرول کر کے لاکھوںروپے نکالتے یاپھر کھاتے داروں کی خفیہ معلومات چرا کر آن لائن کروڑوں روپے اپنے مخصوص اکاونٹ میں ٹرانسفر کرلیتے ہیں۔مین سرور کو ریموٹ لوکیشن سے نشانہ بنا کر سائبرحملے کرنے والے ہیکرز اپنے کنٹرول میں کر اپنی منتخب یا درکار معلومات ڈائون لوڈ کر کے دوبارہ سسٹم کوآف کردیتے ہیں اور پتہ بھی نہیں چلتا کہ کیا ہوا۔بلاشبہ دور حاضر میں جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے دنیا بھر میں تمام فاصلے سمیٹ کر ہر شعبہ میںکارکردگی اور پیداوارکے ساتھ ساتھ ،اصطلاحات اورروابط کو بھی بڑھا دیا ہے۔ان تمام فوائد کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر ٹیکنالوجی ہی کی بدولت کاروباری دنیا کوزیادہ مالی اور اخلاقی نقصان بھی اٹھانا پڑ رہا ہے جو کہلاتا ہے سائبر کرائم۔
جو ہم بے خبری میں یا حادثاتی طور پر کمپیوٹر کے استعمال کے دوران ظاہر کر دیتے ہیں جیسے اپنا ذاتی اکاونٹ نمبر، خفیہ کوڈ، موبائل نمبر، خفیہ پن کوڈ، بینک کریڈٹ کارڈ نمبر و دیگر خفیہ معلومات جن کا کسی غیر کے علم میں آنا ہمارے اور ہمارے خاندان، کاروباریا نوکری کے لئے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔انٹر نیٹ انقلاب سے پہلے چوروں، ڈاکوئوں اور فراڈیوں کو کسی کو لوٹنے سے پہلے اس کے بارے میں دوستوں، محلے داروں عزیز و اقارب سے ذاتی معلومات لینا پڑتی تھیں، جس میں خاصا وقت درکار ہوتا تھا مگر اب تو تمام معلومات آن لائن میسر ہیں۔انٹر نیٹ، موبائیل فونز اور دیگر کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی بہتات سے جرائم پیشہ افراد بھی جدید ٹیکنالوجی کو اپنے مذموم مقاصد جیسے چوری، فراڈ،دہشت گردی، خوف و ہراس پھیلانا کے لئے استعمال کرتے ہیں لہذا وہ تمام جرائم جو کمپیوٹر ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہو ئے کئے جائیں۔ سائبر کرائم کہلاتے ہیں چاہئے ان کا دائرکار اور مالیت کچھ بھی ہو۔دراصل سائبر کرائم روایتی جرائم کی تو سیع ہی ہے، جوکہ جدید دور حاضر میں بذریعہ کمپیوٹر فروغ پا رہی ہے۔
چھوٹے موٹے فراڈ اور جعل سازی تو چند اشخاص کا گروہ یاکوئی بھی اکیلا شخص کرسکتا ہے مگر دنیا کے اکثر ممالک میں آرگنائزڈ سائبر جرائم گروہ بھی وجود میں آچکے ہیں۔جو سائبر جرائم کو اپنا کاروبار تصور کرتے ہیں۔ سائبر جرائم پیشہ عناصر نے نہ صرف آپس میں روابط کے لئے اپنی خفیہ پہچان کا طریقہ کار، کوڈ مقرر کر رکھے ہیں بلکہ انڈر گراونڈ مارکیٹ بھی وجود میں آچکی ہے۔ جہاں نت نئی سائبر جرائم کی حکمت عملی، تکنیک و طریقہ کار آلات و اوزر بھی شیئر کیے جا رہے ہیں۔ سائبر کرائم میں ٹارگٹ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک ذاتی معلومات دوسری تجارتی معلومات ۔ذاتی معلومات کو نشانہ بنا کر مال کمانا نسبتا آسان ہوتا ہے کیونکہ ایک عام آدمی اپنی معلومات اور شناخت کو زیادہ خفیہ نہیں رکھتا یا رکھنے کی کوشش نہیں کرتا۔مگر وہ ادارے جہاں تجارتی بنیادوں پر لوگوں کی ذاتی معلومات کو سٹور کیا جاتا ہے۔وہاں سائبر حملوں سے بچاو کے لئے بھی خصوصی انتظامات کئے جاتے ہیں۔سائبر جرائم دنیا کے چند ایک بڑے اور مہلک جرائم میں سے ایک ہے جو ترقی یافتہ ممالک کے لئے بھی درد سر بننے ہوئے ہیں۔ تمام ترقی یافتہ ممالک جن میں یورپی اور مغربی ممالک شامل ہیں اور ترقی پذیر ممالک جن میں افریقی وایشیائی ممالک شامل ہیں سائبر جرائم سے نمٹنے کی حکمت عملی اور قوانین بنا رہے ہیں تاکہ ان کا سد باب کیا جاسکے۔دنیا بھر میں مندرجہ ذیل سائبر جرائم سر فہرست ہیں۔
موبائل فون کا استعمال تو روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اس لئے بیلنس چرانا اور غیر قانونی طریقہ سے موبائل فون کا بیلنس ٹرانسفر بھی اب معمول کی بات بن گئی ہے۔ مختلف موبائل ٹیلی فون ڈائریکٹری سے ہیکرزسائبر حملوں کی وساطت سے صارفین کی ڈیٹا بیس چرا کر جو کہ چند ہزار سے لاکھوں نمبر تک ہو سکتا ہے اپنے تیار کردہ سوفٹ وئیر میں درج کر لیتے ہیں۔ جو محض ایک کلک پر ہزاروں صارفین کو میسج بھیج دیتے ہیں۔میسج میں ایک مخصوص نمبر پر کال کرنے یاایس ایم ایس کرنے کو کہا جاتا ہے اور ساتھ ہی خوشخبری دی جاتی ہے کہ آپ کا لاکھوں روپے کا انعام نکل آیا ہے۔ ایس ایم ایس میں موجود خاص نمبر کے پس منظر میں بیلنس ٹرانسفر کوڈ سیٹنگ کر دی جاتی ہے کہ جیسے ہی کوئی مطلوبہ نمبر یہ ایس ایس ایم واپس کرے گا ساتھ ہی اس کے موبائل نمبر میں موجود بیلنس بھی ٹرانسفر ہو جاتا ہے اور صارف لالچ میں آ کر اپنا قیمتی بیلنس گنوا بیٹھتے ہیں۔ موبائل فون پر اکثر لوگ ہمیں کال کر کے مشہور برانڈز اور کمپنیوں کا نام استعمال کر کے قیمتی انعامات نکلنے کی خوشخبری دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کا انعام آپ کے گھر پارسل کر دیا جائے گا صرف آپ اپنا قومی شناختی کارڈ نمبر اور اپنی والدہ کا نام لکھوا دیں یاد رکھیں یہ وہ انتہائی حساس اور خفیہ معلومات ہیں جو ہیکرز کے علم میں آنے کا مطلب ہے وہ آپ کے نام پر جعلی شناختی کارڈ ٹیلی فون سم غرض کہ کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں اور معصوم شہری انعام کی لالچ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا سکتے ہیں۔
یہ ایک ایسا مکروہ عمل ہے جس میں ہیکرزسائبر حملوں کی وساطت کسی شخص کے ذاتی کمپیوٹر سسٹم میں اس کی اجازت اور علم کے بغیر داخل ہو کر اس شخص کی ذاتی معلومات، ریکارڈ، فائلیں اور ڈیٹا بیس کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں ایسے سائبر جرائم نہایت کوالیفائیڈ کمپیوٹر ماہرین ہی کرتے ہیں جو اپنے علم کو مس یوز کرتے ہوئے ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں یہ عمل ہیکنگ کہلاتا ہے اور ایسا کرنے والے کو ہیکر کہتے ہیں۔
اس سائبر حملے میں جرائم پیشہ عناصر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ صارفین کے خفیہ کوڈ اور ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کرکے مالی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوران استعمال انٹرنیٹ پر اچانک آپ کی سکرین پر ایک پیغام آتا ہے کہ آپ کا لاٹری میں کروڑوں کا انعام نکل آیا ہے۔ ابھی مخصوص دیئے گئے لنک پر کلک کریں یا آپ کا کمپیوٹر سسٹم خطرے میں ہے جلدی کریں یا بین الاقوامی مایہ ناز کمپنی آپ کو بہترین نوکری دینا چاہ رہی ہے یا اسی طرح کی دیگر کئی جھوٹی خوشخبریاں یا لالچ دیکر جب ہم اس لنک پر کلک کرتے ہیں تو بعض اوقات ہمارے کمپیوٹر میں موجود حساس معلومات ہمارے زیر استعمال ای میل بمعہ خفیہ کوڈ ہماری پہچان، ہماری شناختی نشانیاں غرض کہ کئی اہم معلومات سائبر جرائم پیشہ عناصر کے ویب لنک پر منتقل ہو جاتی ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا جسے سائبر جرائم پیشہ عناصر اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا اور موبائل اب نئے اور مہلک طریقہ سے کسی بھی شخص کے ذاتی تشخص کو برباد کر سکتے ہیں اس جرم میں ذاتی عناد کی بنا پر اکثر خواتین کے بارے میں سوشل ویب سائٹ پر ان کی ذاتی معلومات تصاویر جیسے کے فیس بک، یوٹیوب یا فحش ویب سائٹس پر اپ لوڈ کر دی جاتی ہیں اور لوگوں سے ان کے موبائل نمبر پر رومانس اور ڈیٹ مارنے کو کہا جاتا ہے ایسے کرنے کے چند گھنٹوں کے دوران ہی متاثر خواتین کو درجنوں کالز آنا شروع ہو جاتی ہیں اور انٹرنیٹ پر لوگ ان کے بارے میں اپنی رائے درج کرنا شروع ہو جاتے ہیں غرض کہ کچھ ہی دیر میں معصوم خواتین کو بدنام کر دیا جاتا ہے۔ مغربی معاشرے میں تو خواتین نے ذہنی دبائو اور اپنی تذلیل پر خودکشیاں تک کر لی ہیں۔
Comments are closed.