میوات کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا سعید احمد فیروز پوری رحمۃاللہ علیہ

محمد یوسف میواتی قاسمی
معدن العلوم جھمراوٹ میوات
۱۱/ ذی القعدہ ۱۴۴۶ھ مطابق ۱۰ / اپریل ۲۰۲۵ بروز ہفتہ علی الصباح یہ دکھ بھری خبر سننے کو ملی کہ علاقہ کے پرانے اور بزرگ عالم دین حضرت مولانا سعید احمد کاشفی فیروز پوری وصال فرما گیے ہیں ۔ اس خبر نے مجھے ذاتی طور پر بہت متاثر کیا ۔ ممکن ہے بہت سے احباب کے لیے حضرت مولانا کی شخصیت غیر متعارف رہی ہو اور یہ کوئی عیب کی بات بھی نہیں ہے مگر جو خوش نصیب ان سے قریب رہے اور ان کے مزاج سے شناسائی میں کامیاب ہوئے تو وہ مولانا کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ، حضرت مولانا کا وجود طالبین اصلاح اور شائقینِ تاریخ کے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھا ، اللہ تعالیٰ نے اس عمر میں بھی ان کے حافظے کو سلامتی بخشی ہوئی تھی ، انہوں نے وہ دور دیکھا تھا جس کے دیکھنے والے خال خال ہی ملتے ہیں اور اگر مل جاتے ہیں تو انہیں کچھ یاد نہیں رہتا مگر آپ کی مجلس میں آنے والا دامن بھر کر لوٹتا تھا ، راقم بھی آپ کے خوشہ چینوں میں شامل رہا، کیا پتا تھا کہ یہ شمولیت مہر و وفا کی داستان رقم کرے گی ، پتا ہی نہیں چلا کہ کب عمومی ملاقاتیں خصوصیت اختیار کر گئیں ، آپ سے رابطہ ہوا تو آئے دن مضبوط ہوتا چلا گیا، آپ کی خدمت میں حاضری سے انکشافات کا در وا ہوا ، قسمت کی یاوری دیکھیے کہ آپ کے یہاں سے وہ نایاب و قیمتی سرمایہ بھی ہاتھ لگا جو اگر ضایع ہو جاتا تو تاریخ ہم اہل میوات کو کبھی معاف نہ کرتی ، وہ دعوت و تبلیغ کی تاریخ و کارگزاریوں پر مشتمل ایک وقیع مسودہ تھا، جسے آپ کے والد گرامی قدر میاں جی محمد عیسیٰ خان فیروز پوری نے تصنیف کیا تھا ، آپ کی توجہ و دعا کی برکت سے الحمد للّٰہ وہ کتابت اور ترتیب و تہذیب کے مرحلہ سے گزر کر طبع ہونے والا ہے ، کاش کہ آپ کی حیات میں وہ شایع ہوکر آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کر سکتا ۔ اللہ تعالیٰ جلد اس کی اشاعت کی سبیل پیدا فرمائے ، آمین۔ ذاتی روابط سے قطع نظر آپ کے سوانحی کوائف درج کیے جارہے ہیں ملاحظہ فرمائیں :
ولادت و خاندان
آپ ۱۷/ رجب ۱۳۵۸ھ مطابق ۳ دسمبر ۱۹۳۹ء بروز اتوار بوقت ظہر اپنے آبائی گاؤں فیروز پور نمک میں پیدا ہوئے ، آپ کے والد محترم میاں جی محمد عیسیٰ خان فیروز پوری حضرت جی مولانا محمد الیاس کاندھلوی کے بہت قریبی اور دعوت و تبلیغ کے پرانے کارکنان میں سے تھے ۔ آپ کے پردادا قاری محمد اسماعیل خاں وہ سعادت مند شخص تھے جن کا اہل میوات میں سب سے پہلے خانوادۂ کاندھلہ سے تعلق قائم ہوا ، وہ ہی میواتی بچوں کو مولانا محمد اسماعیل کاندھلوی کی خدمت میں دہلی لے کر پہنچے تھے، اس وقت مولانا محمد اسماعیل کاندھلوی مرزا الٰہی بخش کے بنگلہ کے قریب مسجد میں مرزا صاحب کے بچوں کو پڑھایا کرتے تھے ۔ میوات کے اسی خاندان کے ایک سچے وارث و جانشین حضرت مولانا سعید احمد رحمۃ اللہ علیہ تھے ۔
تعلیم و تربیت
ناظرہ قرآن کریم اپنے آبائی گاؤں فیروز پور نمک میں پڑھنے کے بعد والد محترم نے آپ کو مدرسہ معین الاسلام نوح میں اردو اور درجہ فارسی میں داخلہ کرادیا، یہاں فارسی کی مختلف کتابیں مختلف استادوں سے پڑھیں ، پھر حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی کے مشورے سے مدرسہ کاشف العلوم بنگلہ والی مسجد بستی حضرت نظام الدین دہلی بھیج دیا اور آپ نے پوری تعلیم یہیں پاکر ۱۹۵۹ء میں فراغت حاصل کی۔ یہاں آپ کے اساتذہ میں حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی ، حضرت مولانا انعام الحسن کاندھلوی ، حضرت مولانا محمد صدیق میواتی اور حضرت مولانا نور محمد میواتی (اٹاوڑ) تھے ۔
آپ حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی کے چہیتے شاگرد تھے ، حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتے ، پیر دباتے اور سر میں تیل لگاتے تھے ، حضرت جی آپ سے بڑی محبت فرماتے تھے ، آپ کا حضرت جی سے بیعت کا قصہ بھی عجیب ہے ۔ فرماتے تھے کہ "ایک مرتبہ میں فراغت کے بعد حضرت جی سے ملاقات کی غرض سے مرکز نظام الدین دہلی پہنچا ہوا تھا ، وہاں مدرسہ کاشف العلوم میں مولانا رحیم الدین میواتی (مٹھے پور) کے تقرر کی بات چل رہی تھی ، وہ بہت ذہین و قابل فاضل تھے ۔ بیان کے بعد ان کا حضرت جی سے بیعت ہونا طے تھا ، جیسے ہی بیان پورا ہوا تو حضرت نے فرمایا مولوی رحیم الدین کہاں ہے ؟ مولوی صاحب وہاں موجود نہیں تھے اس لیے میری طرف اشارہ کر کے فرمایا انہیں بلاکر لاؤ ، میں گیا اور تلاش کر کے حضرت کی مجلس میں لا بٹھایا ، حضرت نے ان کو آگے بلایا تو وہ اکیلے آگے بڑھ گیے ، حضرت نے فرمایا سعید احمد تم بھی آجاؤ ، تمہیں بھی بیعت ہونا ہے ، حضرت نے خود ہی بیعت کر کے عزت بخشی فرمائی، پھر جب تک حضرت جی حیات رہے، بندہ خدمت میں حاضر ہوتا رہا اور اپنی اصلاح کی کوشش و طلب جاری رکھی ، حضرت جی کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد حضرت جی مولانا انعام الحسن سے بیعت و ارشاد کا تعلق قائم کیا”۔
میدان عمل میں
آپ کی فراغت ۱۹۵۹ء میں ہوئی اور پھر ۱۹۶۳ء میں آپ دعوت و تبلیغ میں وقت لگانے کے لیے حجاز مقدس تشریف لے گیے ، سال بھر مکۃ المکرمہ و مدینۃ المنورہ کی گلیوں میں داعی و مبلغ کی حیثیت سے صدا لگاتے پھرے ، آپ اپنے سفر حجاز کی کارگزاری سناتے تو لطف آتا تھا ، بڑے مجاہدے برداشت کیے ، آپ کی جماعت کے امیر حضرت مولانا محمد صدیق میواتی تھے، ان دنوں حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی بھی بقید حیات تھے۔ آپ کو دعوت و تبلیغ سے مستقل وابستگی رہی ، ہر سال اہتمام سے وقت لگاتے ، آپ کے تلامذہ کا کہنا ہے کہ آپ جن دنوں مدرسہ انوار العلوم توڑیہ امام نگر میں کتابیں پڑھاتے تھے تو کئی مسجدیں وہ تھیں جن میں آپ حاضری دیتے اور لوگوں کو گشت وغیرہ امور کرتے رہنے کی تلقین کرتے ، کسی مسجد میں گشت ہوتا تو وہاں تشریف لے جاتے ، کہیں بات کرتے تو کہیں صرف حاضری دے کر واپس آجاتے ۔ فرماتے کہ محض حاضری دینے سے بھی بہت فائدہ ہوتا ہے، یہ کام علماء کی نگرانی میں ہونا چاہیے تاکہ غیر ضروری باتیں اس کا جزء لاینفک نہ بن سکیں ۔
امامت و خطابت اور تدریس سے وابستگی
فراغت کے بعد جب حضرت مولانا رحمۃ اللّٰہ علیہ دعوت و تبلیغ میں وقت لگا کر آئے تو مساجد کی امامت و خطابت سے وابستہ ہوگیے ، گاؤں ہورپڑی میں آپ نے امامت کے ساتھ بہترین مکتب چلایا ، نہ صرف آپ چھوٹے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیتے بلکہ بڑوں کو بھی علم دین سے آراستہ کرتے تھے ، اس کے بعد آپ نے کئی سال ساکرس کی مسجد میں خدمات انجام دیں ، آپ کی تعلیمی و تبلیغی جد و جہد کے یہاں دیرپا اثرات مرتب ہوئے ۔ پھر اللہ رب العزت نے آپ کو وہاں کے لیے قبول فرما لیا جہاں آپ کا ہر سانس قربان ہونا تھا ، جہاں آپ کی خدمات کے نقوش ہمیشہ کے لیے نقش ہونے تھے لہٰذا آپ بہ توفیق رب صمد، بَڑْکَلِی چوک کی ایک کچی اور چھوٹی سی مسجد میں چلے آئے ، جہاں آپ تاحیات امام بھی رہے اور مؤذن بھی ، خادم بھی رہے اور متولی بھی مگر تنخواہ کسی عمل کی نہیں لیتے تھے ۔ یہاں کے قیام کے ساتھ آپ نے توڑیہ مدرسہ پر کتابیں بھی پڑھائیں ، آپ کے اس دور کے تلامذہ آپ کی صلاحیتوں کا تذکرہ بہت والہانہ انداز میں کرتے ہیں ۔
جس مقام کو بَڑْکَلِی چوک سے تعبیر کرتے ہیں یہ ایک غیر آباد اور سنسان جگہ تھی ، یہاں غیر پختہ راستہ تھا جو راستہ دلی ، الور کے فاصلوں کو پاٹتا ہے ، یہ ڈراؤنی جگہ تھی، یہاں کسی کا قیام کرنا موت کے مرادف تھا ۔ یہاں ایک بَڑْ کا سایہ دار درخت تھا ، اس کے نیچے ہارے تھکے راہ گیر و مسافرین دن میں بہ نیت استراحت بیٹھ جایا کرتے تھے، اس بڑ کے درخت کی مناسبت سے اور چاروں سمت سے راستوں کا سنگم ہونے کی وجہ سے اس جگہ کو بڑکلی چوک سے موسوم کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے گاؤں امام نگر کے حاجی امراؤ خان مرحوم کو کہ انہوں نے ۱۹۷۱ء میں یہاں مسافرین کے نماز پڑھنے کے لیے ایک مسجد بنوادی ، یہ مسجد بہت چھوٹی اور سادہ سی تھی ، چونکہ یہاں نمازی نہیں تھے اس لیے امام بھی نہیں رک پاتے تھے ، مگر جب اللہ رب العزت نے اس مسجد کی دائمی آبادی کا فیصلہ فرمایا تو ایک مرد قلندر ، مجاہد صفت عالم دین حضرت مولانا سعید احمد کا انتخاب فرماکر یہاں بھیج دیا ، آپ کی تقرری کا سن ۱۹۷۳ء تھا ، آپ نے سو روپے تنخواہ سے امامت شروع کی ،یہ سو روپے بھی وقف بورڈ کی طرف سے طے تھے مگر ان کا ملنا نہ ملنا برابر تھا کیونکہ انہیں حاصل کرنے کے لیے ہریانہ وقف بورڈ کے دفتر پر جانا ضروری تھا، اس میں آمد و رفت کا خرچ ، اس پر سفر کی مشقتیں مستزاد تھیں ، بڑی بات یہ کہ آپ بعد تک وقف بورڈ کی تنخواہ پر ہی گزارا کرتے رہے، بلکہ جب یہاں دکانیں اور بازار بن گیا تب بھی یہاں کے دکاندار یا باشندوں نے آپ کے لیے کچھ دینے کا نظام نہیں بنایا حتیٰ کہ آپ کھانا یا تو خود بناتے تھے یا گھر سے لے کر آتے تھے۔ آپ جب یہاں آئے تو یہاں نہ آبادی تھی نہ نمازی ، ظہر اور عصر کی نماز بھی آپ کو تنہا پڑھنی پڑتی تھی، عشاء اور فجر میں تو کوئی مطلب ہی نہیں تھا کہ مقتدی آئیں ، حضرت مولانا مرحوم فرماتے تھے کہ "جب نماز کا وقت ہوتا تو میں باہر سڑک پر نکل جاتا ، کوئی صاحب ایمان نظر آجاتا تو اس کو تشکیل کر کے مسجد لاتا تاکہ باجماعت نماز ہوسکے، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کوئی نہ ملتا تو مجھے تنہا ہی نماز ادا کرنی پڑتی تھی” ۔ پھر سب نے دیکھا کہ مسجد کی برکت سے یہ غیر آباد و سنسان جگہ پر بہار بازار بن گئی ، چونکہ اطراف میں سب مسلم بستیاں ہیں ، وہاں سے لوگ اپنی ضروریات پورا کرنے کے لیے بازار آنے لگے ، نماز کے اوقات میں مسجد کی طرف نمازیوں کی قطار لگنے لگی ، ہر طرف چہل پہل ، صافوں اور عماموں کی چمک دمک سے ایمانی رونق پیدا ہوگئی اور نمازیوں کے لیے مسجد تنگ پڑ گئی ، جس کی بنا پر مسجد کی توسیع ضروری ہوگئی، آپ نے اس کے لیے بڑی جد و جہد کی ، جس کے نتیجے میں ۱۹۹۲ء کے بعد اس کچی مسجد کو عالیشان اور وسیع و عریض بنادیا گیا ، پھر یہ مسجد قرب و جوار کے دیہات و قصبات کے لیے دعوت و تبلیغ کی سرگرمیوں کے اعتبار سے مرکز بن گئی ، دعوت و تبلیغ کے مشورے ، جوڑ ، شب گزاری اور جماعتوں کی آمد و رفت نے اسے ہمہ دم آباد کردیا ، شارع عام دلی الور ہائی وے پر واقع ہونے کی وجہ سے مسافروں کے لیے یہ کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھی ، یہ سب حضرت مولانا مرحوم کی قربانیوں سے ہوا، حضرت مولانا کا مزاج تھا کہ وہ مسجد میں قیام کی نیت سے رکنے والے ہر شخص کی خدمت میں جٹ جاتے ، جماعتوں کے کھانے کا انتظام کرتے ، اپنے ہاتھ سے کھانا بنا کر کھلاتے ، اگر ادھر ادھر سے مدارس کے طلبہ رات میں پہنچ جاتے تو سردیوں میں ان کے لیے بستر کا انتظام کرتے ۔ غرض آپ کی مساعی جمیلہ اور اخلاق کریمہ کی برکت سے یہ مسجد محض مسجد نہیں رہی بلکہ اس کی روحانی و ایمانی فضا دینی و ملی خدمات سے وابستہ افراد کا ٹھکانہ بن گئی ۔ ۲۰۰۳ء میں جب میوات میں قادیانیوں نے فتنہ پھیلانے کا کام کیا تو علمائے میوات نے ان کا تعاقب کرنے کے لیے مختلف مقامات پر مجالس و اجتماعات کا انعقاد کیا جن میں اس فتنے کو دبانے کے لیے مشاورت بھی ہوئی اور اس کی شرانگزیوں سے عوام کو واقف بھی کرایا گیا تو اس کی کئی ایک میٹنگیں بڑکلی چوک کی اسی مرکز والی مسجد میں ہوئی اور امام محترم حضرت مولانا سعید احمد تحفظ و ختم نبوت کی محنت کے لیے شریک کار و ہمہ دم تیار رہے ۔ خدا تعالیٰ اس مسجد کو ہمیشہ آباد و شاداب رکھے آمین۔
اوصاف جمیلہ
آپ بہت سادہ دل ، سادگی پسند ، قناعت شعار اور شکر گزار انسان تھے ، بقدر کفایت آپ کو روزی ملی تھی مگر اپنی دنیا میں آپ خوش رہتے تھے ، مسجد کے حجرے میں کبھی سادہ سی چار پائی اور کبھی پرانی سی گدڑی پر شاہانہ انداز میں تشریف فرما ہوتے تھے ۔ یہ ناچیز حاضر خدمت ہوتا تو کھل اٹھتے، فرماتے کہ "میں آپ کو بہت یاد کرتا ہوں، میں نے مولوی صادق (اونمرہ)سے بھی کہا تھا کہ مفتی صاحب مجھ سے مل جائیں گے”۔ بڑکلی بازار چونکہ مدرسہ معدن العلوم جھمراوٹ سے قریب ہے، مدرسہ کے طلبہ اور اساتذہ وہاں ضروریات کی تکمیل کے لیے جاتے رہتے ہیں اس لیے اگر مولانا کو معلوم ہو جاتا کہ فلاں طالب علم یا استاذ کا تعلق مدرسہ جھمراوٹ سے ہے تو مولانا میرے لیے سلام کی سوغات بھیجتے، یہ سوغات میرے تن مردہ میں روح سی پھونک دیتی ، خوشی بھی ہوتی اور آپ سے ملاقات کی تڑپ پیدا ہوجاتی، حاضر ہوتا تو خوشی سے جھوم اٹھتے تھے، "خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را” ۔
آپ تلاوتِ قرآن کریم اور اذکار مسنونہ کے بے حد پابند تھے ، الحزب الاعظم نامی کتاب کا روزانہ ورد فرماتے ، آپ کی خدمت میں بارہا حاضری ہوئی ، جب بھی آپ پر پہلی نظر پڑتی یا تو آپ تلاوت کر رہے ہوتے یا ہاتھ میں تسبیح ہوتی اور ذکر میں مشغول ہوتے ۔ تصوف و سلوک پر مشتمل اشعار و نظمیں آپ کے زبان زد تھی ، خواجہ عزیز الحسن مجذوب کی لکھی ہوئی ایک بہت طویل مناجات حضرت مولانا نے مجھے یہ کہ کر عنایت فرمائی کہ "اسے فوٹو کاپی کرا کر دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا کی خانقاہ میں سالکین کے لیے تقسیم کرا دینا ، انہیں نفع ہوگا”۔ مناجات کے ابتدائی اشعار درج ذیل ہیں :
اے خدا اے میرے ستار العیوب
میرے مولا میرے غفار الذنوب
تجھ پہ روشن ہے میرا حال زبوں
پارسا میں لاکھ ظاہر میں بنوں
اگرچہ زبان ساتھ نہیں دیتی تھی مگر موقع کے لحاظ سے مختلف نظمیں اور اشعار خود پڑھ کر سنایا کرتے تھے، گلستان و بوستان اور پند نامہ کے فارسی اشعار اور متنبی و مقامات کے عربی اشعار بھی سناتے جب زبان ساتھ نہ دیتی تو فرماتے مفتی صاحب اب بات پہلی سی نہیں رہی ورنہ یہ قصیدے ہمیں ازبر یاد تھے ۔
عقد مسنون
آپ کی شادی حاجی سردار خاں ولد رائے بھان خاں( امام نگر ) کی صاحبزادی مسماۃ عطیہ بیگم عرف آسی سے ۱۰ شوال المکرم ۱۳۷۸ھ کو ہوئی ، لیکن نکاح تین ماہ پیش تر جمادی الثانی میں مدرسہ معین الاسلام نوح میں ہو گیا تھا اور حضرت مولانا نیاز محمد میواتی نے پڑھایا تھا ۔ شادی کے تعلق سے حضرت مولانا فرمایا کرتے تھے کہ ” میری شادی کا معاملہ حضرت جی مولانا محمد یوسف کا کاندھلوی کی طرف سے طے ہوا تھا، میرے سسر حاجی سردار خان سے حضرت جی نے فرمایا کہ تم اپنی بیٹی کا نکاح میاں جی محمد عیسیٰ خان کے بیٹے سعید احمد سے کردو، وہ بہت نیک طالب علم ہیں ۔یہ میرے دورے کا سال تھا” آپ کے سسرال (امام نگر) سے چونکہ بڑکلی چوک قریب ہے اس لیے آپ یہیں رہائش اختیار کیے ہوئے تھے ۔ آپ کی اولاد میں تین بیٹے سعد ، اسعد ، طلحہ اور دو بیٹیاں میمونہ اور ایمنہ ہیں ، ماشاءاللہ سبھی نیک سیرت و خوش خصال ہیں ، اللہ تعالیٰ انہیں صبر جمیل عطا فرمائے آمین ۔
*نماز جنازہ*
نماز جنازہ میں بھاری تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ، علاقہ کے اکثر بڑے علماء موجود تھے ، گاؤں امام نگر کے عام قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ۔ ہم نے بھی مولانا مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی غرض سے حاضری درج کرائی مگر جب واپس ہونے لگے تو ہماری سواری غائب تھی ، بہت دکھ اور افسوس ہوا ، موقع واردات پر لوگ اکٹھے ہوگیے ، افسوس سبھی کو ہوا مگر ان کی باتوں سے معلوم ہورہا تھا کہ یہ کوئی زیادہ بڑا جرم نہیں ہے ، چوری، چکا عام سی بات ہے ، مثالیں دی جانے لگیں کہ کل فلاں جگہ جنازہ سے اتنی بائیک اٹھیں اور فلاں گاؤں سے اتنی بائیک اٹھ گئی ہیں ، ان کے سروے کے مطابق روزانہ میوات میں بیسیوں بائک اٹھائی جاتی ہیں ، پھر سارقین علی الاعلان بائک واپس کرنے کے پیسے لیتے ہیں ، یہی ان بے روزگاروں کا روزگار ہے ۔ یہ بات سب جانتے ہیں ، پولیس افسران بھی اس سے بے خبر نہیں ، قومی لیڈران و علماء سے بھی یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ آخر یہ تماشا کب تلک ہوتا رہے گا اور ہم کب تک تماشائی بنے رہیں گے ، ان برائیوں کے خاتمے کے لیے زمینی سطح پر متحد ہوکر محنت کرنے کی سخت ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو معاشرتی بدنظمیوں کے خلاف ایک ساتھ کھڑے ہونے کی توفیق و طاقت نصیب فرمائے۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین
Comments are closed.