یہ مودی کی نہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جیت ہے

شکیل رشید
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے جو کچھ کہا اسے سنتے ہوئے اکثر لوگوں کو یہی لگا ہوگا کہ مودی نے مسلمانوں کے لیے بہت کچھ کیا ہے ! یہ اکثر لوگ وہ ہیں جو مودی کے ہندوستان میں مسلمانوں کی پستی، بربادی اور خوف و دہشت کے سائے میں زندگی گزارنے کی حقیقی صورتحال سے یا تو ناواقف ہیں، یا اگر جانتےبھی ہیں تو اس سے آنکھیں موندے رہتے ہیں، جیسے کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر طارق منصور ۔ مودی نے وہی تقریر کی جو ایک وزیراعظم کو کرنی چاہیے تھی ۔ یہ کہ : ملک کے وسائل کا تعلق ہر شہری سے ہے اور ہر شہری کو اس کا فائدہ پہنچنا چاہیے ۔ مودی نے یہ بھی کہا کہ : سرسید کہہ گیے ہیں کہ اپنے وطن سے لگاؤ رکھنے کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ تمام لوگوں کی بہبود کے لیے کام کریں ۔ مودی نے آئین کا تذکرہ کیا جس میں بلا امتیاز مذہب ہر شہری کو اس کے حقوق کی یقین دہانی دلائی گئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ : کسی کو بھی اس کے مذہب کی وجہ سے پیچھے نہیں چھوڑا جانا چاہیے ۔ انہوں نے سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کی بات کی ۔ اپنی سرکار کے کارنامے گنوائے کہ کیسے یہ یقینی بنایا گیا کہ مسلم بچیاں تعلیم کے حصول میں نہ پچھڑیں ۔ انہوں نے مسلم یونیورسٹی کی خدمات کا، اس کے توسط سے دنیا کے بہت سے ممالک سے بننے والے مضبوط رشتوں کا، کورونا وباء سے جنگ میں اس کی پیش قدمی کا، اور طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کے نتیجے میں مسلم خواتین کی ہر شعبے میں خود انحصاری کا بھی تذکرہ کیا ۔ ہاں ! اگر تذکرہ نہیں تھا تو مسلم یونیورسٹی کے اُن طلبہ کا نہیں تھا جو سی اے اے مخالف تحریک میں مودی اور یوگی کی پولیس کے لاٹھی اور ڈنڈوں کی زد پر تھے، جن پر آنسو گیس کے گولے پھینکے گیے تھے اور جنہیں حراست میں لے کر سخت ترین دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا اور کال کوٹھڑیوں میں ڈال دیا گیا تھا ۔ لوگوں کو 15 دسمبر 2019ء کی کالی رات اور پولیس کا قہر اور یو پی کے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی کا جھوٹ آج بھی یاد ہے، بھلے وزیراعظم بھول گئے ہوں ۔ کیا کہا تھا یوگی نے! یہ کہ یونیورسٹی کے 15 ہزار طلبہ علی گڑھ کو جلانے کے لیے سڑکوں پر اترے تھے، لہذا پولیس کیمپس میں داخل ہوئی تھی اور حالات کو قابو میں کیا تھا ۔ یعنی مسلم یونیورسٹی کے طلبہ فسادی تھے! سی اے اے کے خلاف احتجاج بھی تو اسی حق کی جنگ تھی جو آئین نے دی ہے، اور جو بالکل آئینی ڈھنگ سے لڑی جا رہی تھی، لیکن آپ کے دست راست یوگی اور امیت شاہ نے اسے تشدد میں تبدیل کر دیا تھا ۔ تذکرہ نہیں تھا تو مودی سرکار کی اس عدالتی درخواست کا نہیں تھا جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے ۔ بالفاظ دیگر مسلم یونیورسٹی مسلم ادارہ نہیں ہے ۔ یہ نہ جانے کون سا سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس ہے !! مودی نے یہ تو کہا کہ ہمیں مل کر کام کرنا چاہیے لیکن یہ نہیں بتایا کہ جنہیں انہوں نے کبھی کتّے کا پلّا کہا تھا بھلا اُن کے ساتھ کوئی کیسے کام کر سکتا ہے، انہیں تو ہمیشہ کوئی گری راج سنگھ، کوئی سادھوی پراچی تو کوئی ساکشی مہاراج پاکستان چلے جانے کی نصیحت دیتا نظر آتا ہے ۔ اگر مودی نے تذکرہ نہیں کیا تو اس بات کا کہ اسی یونیورسٹی کو ملک دشمنوں کا گڑھ کہا گیا تھا ۔ یہ بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ ستیش گوتم تھے جنہوں نے محمد علی جناح کی تصویر پر ایک ہنگامہ کھڑا کردیا تھا، ایک ایسا ہنگامہ جس نے پولیس اور غنڈوں کو طلبہ پر تشدد کا موقع فراہم کیا تھا ۔ کیا مودی بھول گئے کہ اسی یونیورسٹی کو، راجہ مہندر پرتاپ کی سالگرہ منانے اور مندر بنانے کے لیے تحریک چلانے کے بہانے، پھونکنے کی ناپاک سازش بھاجپائیوں نے ہی رچی تھی ۔ مودی یہ سمجھتے ہوں گے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے تقریر کرکے انہوں نے اپنے دامن پر لگے داغ دھبے دھو دیے ہیں، وہ آج خود کو کامیاب سمجھ رہے ہوں گے ۔ ٹھیک ہے وہ جو چاہیں سمجھیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج مودی نہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کامیاب ہوئی ہے، اس کے طلبہ کامیاب ہوئے ہیں، طلبہ لیڈران کامیاب ہوئے ہیں ۔ وہ کامیاب ہوئے ہیں جو سی اے اے مخالف تحریک میں شامل تھے ۔ جس یونیورسٹی کو سارے سنگھی اور یرقانی اور بھاجپائی، ملک دشمنوں کا گڑھ کہتے تھے اسی یونیورسٹی کے آج مودی مہمان خصوصی تھے اور اسی یونیورسٹی کے افراد اور در و دیوار سے مخاطب تھے ۔ مودی نے مہمان خصوصی بن کر اور خطاب کرکے سارے یرقانیوں کے اس کہے کی، اور خود اپنی بھی، بالواسطہ نفی کر دی ہے ۔ یہ یونیورسٹی کی ایک بڑی جیت ہے ۔
Comments are closed.