’’یہ ہے ہماراپاک وطن۔۔۔۔۔۔۔پاکستان‘‘

سمیع اللہ ملک
ہماراپاکستان دنیاکاعجیب وغریب ملک ہے۔بلا شبہ برصغیرکی تقسیم جدیدتاریخ کاایک چونکادینے والاواقعہ تھاجس کے نتیجے میں یہ قائم ہوا۔جمہوری طریقے سے اسلامی فلاحی نظام کیلئے قائم ہونے والی اس مملکت میں آمریت بھی بے حساب ہے اورجمہورکی جمہوریت نوازی کی بھی کوئی حدنہیں لیکن رب نے جس وعدے پرعطافرمایاتھا،اس کی طرف ابھی تک کوئی کوشش نہیں کی گئی بلکہ سارازورمخالف سمت میں بگٹٹ بھاگنے میں لگ رہاہے۔اندازہ اس سے لگالیں کہ قوم اکیسویں صدی میں بھی پورے اطمینان سے چارفوجی حکومتیں بھگتا چکی ہے۔یہاں جمہوریت سے لگن بھی ایسی ہے کہ پاکستان کی پہلی نصف صدی ہی کے اکاؤنٹ میں نصف درجن ملک گیرجمہوری تحریکوں کے نتائج میں غیرجمہوری طاقتیں ایسی مسلط ہوئیں کہ ان سے جان چھڑانے کیلئے پھرسے تحریک چلانی پڑی۔آزادی صحافت کیلئے مسلسل جدوجہد کی ایک شاندارتاریخ اس کے علاوہ ہے اورملکی دولٹ لوٹنے والوں کے سلام کرنے والے میڈیاہائوس اورصحافی بھی دندناتے پھرتے ہیں۔
دانشوروں اورصحافیوں کی اکثریت’’بدترمنتخب حکمراں بہترین آمرسے بہترہے‘‘’اور’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘کے فلسفہ جمہوریت کی ایسی پیروکارکہ این آراوکے پردے میں لپٹی ہوئی سابق کرپٹ حکمرانوں کیلئے اس زورسے بانہیں کھولے کھڑی تھی کہ ملک کے پاپولرسیاستدان اپنی تمام کرپشن اورسول آمریت سمیت اس میں سماگئے اورجن کے بارے میں بڑے دھڑلے سے کہاگیاتھاکہ یہ اب کبھی بھی ملک میں واپس نہیں آسکتے،ان سے دبئی میں بیٹھ کر مذاکرات میں اقتدارکی بندربانٹ کے اصول طے کئے گئے لیکن تاریخ نے ایسے چشم کشا مثالیں قائم کردیں کہ جواپنی کرسی کوبڑامضبوط سمجھتاتھا،اس کو باعث عبرت بنادیاگیااوربعدازاں افغانستان سے سرخ ریچھ کوخاک چاٹنے پرمجبورکرکے امریکابہادرکو دنیاکی واحدسپرپاورمیں مدددینے والے کاجہازاپنے ہی سفیراوراعلیِ فوجی افسر سمیت ہمارے دفاعی ادارے کودرجنوں قابل تجربہ کارافرادسمیت ہماری ہی فضامیں آگ کے گولے میں ایساتبدیل کردیاگیاکہ تحقیق کیلئے ثبوتوں کوبھی راکھ کردیاگیااورآج تک سراغ ملنے کے باوجودزبانیں گنگ ہیں۔
اس حادثے کے فوری بعدایساجمہوری دورمتعارف کروایاگیاکہ قوم وقت کے ساتھ ساتھ پرانے نظام کی خوبیوں کے اس طرح تذکرے کریں کہ پرانے ادوارکی تمام برائیوں اس طرح پس پردہ چلی جائیں کہ دوبارہ انہیں کی طرف دیکھناشروع کردیں اوریقیناوقت کے ساتھ قوم نے اس جمہوری نظام کے ایسے جمہوری تماشے دیکھے کہ ایوان اقتدارکے مکینوں کوایک جمہوری صدرایک تقریرسے برطرف کردیتاتھا۔عدالتوں سے اعتماداس قدرمجروح ہوگیاتھاکہ نظریہ ضرورت کی بنا پرخودپلیٹ میں رکھ کران اختیارات سے بھی نہال کردیاجاتاتھاکہ جن کادرخواست میں مطالبہ بھی نہیں ہوتاتھا۔کیاعجیب قانونی استدلال بھی قوم نے بھگتاکہ پاکستانی آئینی حکومت میں ایوان اقتدارمیں باوردی صدرکی گنجائش نکال لی گئی۔شائداس کی یہ وجہ بھی ہوکہ ہماری جمہوریت نے یہ عجیب و غریب منظربھی دیکھناتھاکہ اس پارلیمنٹ میں آئین بنانے کے بعدفوجی حکومت کوہمیشہ کیلئے دفن کرنے کا اعلان کرنے والے وزیراعظم کواسی کے منتخب کردہ جنرل نے نہ صرف برطرف کیابلکہ ایک قبرکی موجودگی کافائدہ اٹھاتے ہوئے اس کوآخری منزل پرپہنچاکردم لیا۔
یہ جمہوری چوہے بلی کاکھیل اب بھی جاری وساری ہے اوراب موجودہ حکومت اپنی باری بھگتارہی ہے۔یہاں ڈکٹیٹرچین سے حکومت کرسکتے ہیں نہ منتخب حکمران،جواقتدارکے روزِ اول سے خاتمہ حکومت تک خودکوغیرمحفوظ سمجھتے ہیں۔اپوزیشن’’جمہوریت ‘‘سے تنگ آکرآمریت کویادکرنے لگ جاتی ہے،جب فوجی آمریت جلوہ گرہوتی ہے توالیکشن ہی سارے مسائل کاحل قرارپاتے ہیں۔پھرفرشتے اورلٹیرے مل کرجمہوریت کی صدائیں لگاتے ہیں۔پھر پیارے پاکستان میں فوجی سیاست کرتے ہیں اورسیاستدان تجارت لیکن سیاست کی تجارت،بلکہ ہمارے پاپولرووٹ بینکرتوسیاست کوصنعت کے درجے پرلے آئے ہیں،اسی لئے جونہی اقتدارسے محروم اپوزیشن دوبارہ اپنی باری کیلئے جمہوری تحریکوں سے جمہوری حکومت کوبرطرف کرنے کامطالبہ لیکر میدان میںمیں اترتی ہے اورمذاکرات کیلئے انہی افرادکاانتظارکرتی ہے جن پرصبح وشام اٹھتے بیٹھتے الزامات کی بارش کررہی ہوتی ہے۔
اب توکچھ عملیت پسندتاجرکھلے عام کہتے ہیں اوربہت سے سوچتے ہیں کہ جیسے روزگاروں میں سب سے افضل تجارت ہے،اسی طرح تجارت میں سب سے منافع بخش کاروبار ’’سیاست کاہے،پیسہ پہنچا،جلدی بھیجو،پاپڑوالے دیہاڑی دارکھاتے داروں کوبھی علم نہیں ہونے دیاجاتاکہ ان کے نام پربینک اکائونٹس میں اربوں روپے موجودہیں،ان کاایمان ہے کہ جس قدرجتنابھیجو،کم ہے،قوم توہمارے ساتھ ہے‘‘کی سیاسی،تجارتی تھیم پریہ کاروبارچلتاہے تورکتا نہیں۔روکنے کیلئے فوج بلاناپڑتی ہے یاوہ خودہی تشریف لے آتی ہے۔ رہے عوام،بس جوق درجوق،ووٹ بھگتانا،فوجی انقلاب پردیگیں چڑھانا،مٹھائیاں بانٹنا، پہلے خوشی اورپھرمہنگائی سے مرجانایاتحریکِ جمہوریت میں اپنے لیڈروں کی کروڑوں روپے کی گاڑیوں کے آگے بھنگڑاڈالنا،زندہ بادکے نعرے لگاتے ہوئے شہید ہوجانا،ان کاسیاسی مقدرٹھہرتاہے۔یہ توہواسیاست وحکومت میں باوردی نجات دہندوں اورسیاسی تاجروں کاحصہ اوراس میں عوام کی شرکت کا 73سالہ حساب۔اس حساب سے پیارے پاکستان کی جوکتاب تیارہوئی ہے اسے کھولوتوایک سے بڑھ کرایک عجوبہ پڑھنے کوملتاہے۔ حیرت کاوہ وہ ساماں کہ سطرسطرپڑھ کربے ساختہ منہ سے نکلتاہے’’یہ ہے ہماراپاکستان‘‘۔
شہروں میں مال وجان اتناہی غیرمحفوظ جتنی دیہات میں جاگیرداری مضبوط،کراچی آپریشن سے قبل،کیااسلام آبادکیاکراچی،دونوں شہروں میں قیامِ امن کے عالمی اجارہ داروں کی سفارتی املاک محفوظ تھیں نہ لاہوراورپشاورمیں فائیواسٹارہوٹلز۔جاگیردار،سیاستدانوں کا لبادہ اوڑھے،سیاست کے تاجروں اور باوردی نجات دہندوں،ان کی زندہ باد،مردہ باد کرنے والے ابلاغ کاروں نے مل جل کرباہمی اخوت اورکمالِ مہارت سے اپنے پیارے عوام کیلئے ایسا نظامِ بد تشکیل دیاکہ ملک کے اہل ترین افرادکوسات سمندرپاربھاگنے پر مجبورکردیا،جوبچ گئے انہیں کونے میں لگادیاگیا،اہلیت اورناہلیت ماپنے کے پیمانے تبدیل کر دیئے گئے۔ملکی نظام کوریاست مدینہ میں تبدیل اورانصاف کی حکمرانی کادعوی کرنے والوں کے دورمیں نااہل اورنکمے عرش پرپہنچادیئے گئے جنہوں نے دنوں میں آٹا،چینی،ادویات اوردیگرضروریات زندگی کی اشیاکی ذخیرہ اندوزی اورگراں فروشی سے ملک کے خزانے کواربوں کاٹیکہ لگادیااوراہل ومخلص فرش پربٹھادیئے گئے ہیں۔
واہ ری پاکستان کی جمہوریت!تیرے راج میں غریبوں کیلئے قصبوں دیہات میں بلا فیس بن استاد مع تنخواہ گھوسٹ اسکول’’کہ مفت تعلیم کااس سے بہتراور کیاانتظام ہوسکتا تھا) اور ’’معززین وقت‘‘کے بچوں کیلئے پانچ سے پندرہ ہزاری فیس کے اسکول بھی،جہاں خوراک،لباس اورتعلیم وتفریح کوترستے بچوں کا مستقبل سنوارنے کیلئے سیکڑوں آقااوران کی آقائی کومضبوط بنانے والی فوج تیارکی جارہی ہے۔پیارے پاکستان میں بڑی بڑی کاروں والوں کیلئے شایانِ شان موٹروے بھی ہے اوربے کاروں کے ٹھوکریں کھانے کیلئے گویا ہر گلی ’’ٹھوکروے‘‘ہے۔
اس عجیب وغریب مملکت میں اربوں کی لوٹ مارکرکے بیرونِ ممالک کے بینکوں میں محفوظ کرنے والے تواپنے دورِ حکومت میں این آراوکے طفیل حکومت کے سب سے اعلی عہدوں پربراجمان اقتدارکے مزے لوٹنے اورپاکستانی بینکوں سے کروڑوں کے قرض خورکسی بھی حساب کتاب سے آزاد دبئی ،یورپ وامریکاکے محلات میں مقیم اورچارچارپانچ لاکھ کے قرض خواہ بینکنگ کورٹس کے کٹہروں میں خوفزدہ کھڑے ہیں کہ کب ان کے پانچ پانچ مرلے کے مکان بحق سرکارضبط کئے جاتے ہیں اورکب ان کے ضامن کوہتھکڑی لگتی ہے۔ اس ملک میں سابقہ حکومت جس کو اپنی لیڈرکے قتل ہوجانے پر ہمدردی کاایک کثیرووٹ بینک حاصل ہوگیاتھا،وہ بھی قوم کولوڈ شیڈنگ اوراندھیرے سے نجات دلانے کے پرفریب نعروں سے اپنے دورِ اقتدارمیں کرائے کے بجلی گھروں کے نام پرملک کے دوسوارب روپے کسی سے پوچھے بغیرملک میں لوٹ مارکاایک ایٹم بم چلادیااوربعدازاں ملکی عدالتوں سے باعزت بری بھی ہوگئے کہ انہوں نے لوٹتے وقت اس احتیاط کاخاص خیال رکھاکہ کوئی ثبوت ان کے خلاف باقی نہ رہ جائے لیکن پاکستانی قوم آج تک بجلی کے بل عوام پربجلی بن کرگررہیہیں۔ملکی خزانے سے قرض لیکریہ بجلی گھرلگانے والوں نے ایسانظام وضح کیاکہ وہ آج بھی پاکستانی قوم ان کے پاس گروی ہیں ،غریب عوام کادامن بجلی سے جلاکر خاکستر کررہے ہیں اوران کے اپنے بینک بیلنس میں اس بجلی سے ایک تازہ چمک اورروشنی میں بے تحاشہ اضافہ ضرورہوگیاہے۔یہ ہے پاکستان کاحال!جس کاکوئی حساب نہیں۔یہاں دوجمع دوچارنہیں،اس کاجواب کبھی دس اورکبھی صفرہوتاہے۔اس کابانی قائداعظم جیسا مخلص اورایماندارتاریخ سازہے اوراس کا قیام اقبال کی دانش کاکمال ہے۔
ہمارے ہاں دیہاتوں کی معمولی پنچائت مختاراں بی بی پرحملہ آورہونے،معصوم بچیوں کوونی کرنے اورہمارے سردارکے حکم پرزندہ تسلیم سولنگی کو کتوں کے آگے بھنبھوڑنے کیلئے چھوڑ دیئے جانے کے احکام جاری کرنے والے سردارسینیٹ میں کھڑے ہوکربڑے تفاخرسے اسے اپنی قبائلی روایات کاحصہ قراردیکراس کی حمائت میں بودے دلائل دینے میں ذرابھر ندامت محسوس نہیں کرتے اورہماری حکومتیں ان کا بال تک بیکا نہیں کر سکیں کیونکہ انہیں اقتدارمیں رہنے کیلئے ایسے لٹیروں کی حمائت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن دس ایڈوانی،بیس واجپائی ، سینکڑوں من موہن سنگھ اورہزاروں مودی مل کرڈاکٹرقدیرخان کے پاکستان پرحملہ آورہونے کاسوچ نہیں سکتے(شکرالحمد اللہ)حالانکہ قوم کے اس محسن کوتودشمنوں کے حوالے کردینے کاپروگرام بھی طے پاچکاتھاکیونکہ اس نے ملکی سرزمین سے اپنے بچوں اوربچیوں کوڈالروں کے عوض دشمنوں کے حوالے کرنے کے اس قبیح فعل کا اپنی کتاب میں خود ذکرکیااور(قوم کی ایک لائق بیٹی عافیہ صدیقی اس وقت امریکاکی جیل میں اپنی زندگی کے مشکل اورکٹھن ایام اس امیدپرگزاررہی ہے کہ ہرسیاسی جماعت نے اقتدارمیں آنے سے قبل اس کی رہائی کاوعدہ کیا)لیکن محسنِ پاکستان اورقوم کوسراٹھاکرقوت بخشنے والے ڈاکٹرعبدالقدیرعین اس وقت اس کے اپنے ہی مقررکردہ وزیراعظم کی بروقت مداخلت سے بچ گئے اورپاکستانی قوم منحوس ذلت سے بچ گئی جبکہ اس نے تواپنے ہی دورمیں زمانہ جاہلیت کوبھی مات دیتے ہوئے ایساجرم عظیم کرنے میں ذرابھرشرم محسوس نہیں کی کہ انتہائی شریف النفس افغان سفیرملاضعیف کوامریکاکے حوالے کردیاجبکہ سفارتی عہدے کی بناپراس کی حفاظت ہمارے ذمہ تھی اورامریکااسے برہنہ کرکے گھیسٹتے ہوئے ہماری ہی پاک سرزمین پر پہلے سے کھڑے اپنے جہاز میں بٹھاکراس غیورقوم کے منہ پرکالک مل کررخصت ہوگئے کیونکہ قصرسفیدکے فرعون کااٹارنی جنرل میڈیاکی موجودگی امریکی عدالت سے کہہ رہاتھا کہ پاکستانی تودس ہزارڈالرکے عوض اپنی ماں بھی بیچنے کوتیارہوجاتے ہیں،اس لئے کہ ہم عجیب قوم ہیں،پاکستان ایک عجیب ملک ہے۔
میرے عزیزپاکستانی بہن بھائیو!ہمیں آزادی کی نعمت ملے ہوئے 74سال ہوگئے ہیں لیکن پھربھی ہمارایہ حال ہے،سوچو!یہ حساب چلے گا؟نہیں چلے گا۔کبھی دوجمع دوسے صفراور
کبھی دس نکالنے والا حساب ختم کرکے اس کتاب کو بندکرناپڑے گا۔اس معجزاتی ریاست کے قیام کیلئے ہم نے اپنے رب سے یہ وعدہ کیاتھاکہ ہم ملنے والے اس پاک ٹکڑے پر قرآن کانظام نافذکریں گے اورمیرے رب نے رمضان المبارک کی سب سے افضل رات”لیل القدر”کی رات ہمیں یہ خطہ عنائت فرمایالیکن ہم آج تک ’’اوفوبالعہد‘‘کوپورانہ کرکے اللہ سے بغاوت کے مرتکب ہورہے ہیں۔آ مل کرایک نیا باب تحریرکریں جس میں دوجمع دو کاجواب چار ہی نکلے،پھرہمارے بچے ایک اورباب رقم کریں گے جودرست ہو گااورپھران کے بچے حساب میں ماہرہوجائیں گے۔یہ وقت ہو گاجب ہماری کتاب دنیاپڑھے گی۔آیہ کتاب رقم کریں،اسے رقم کرنے کیلئے اپنے اللہ سے رہنمائی لیں اوراس سے کیاہواوعدہ پوراکریں یعنی قرآن کومن وعن نافذکرنے میں اپناکردارادا کریں۔اپنے(ووٹرز)ہی اورابلاغ کاروں کے تراشے ہوئے بت توڑدیں۔آؤ تقویٰ،نیکی، اخلاص، اہلیت اوردیانت ڈھونڈیں اورڈھونڈ کراسے عرش پربٹھائیں اورظلم وحشت ناانصافی اوربدی کے اس نظام کوفرش پردے ماریں کہ نہ صرف پاکستان بلکہ سسکتی انسانیت آپ کے اس فیصلے کی منتظرہے۔
جاگ جا ؤپاکستانیو!اللہ ہمارے ساتھ ہے۔اللہ اکبر اللہ اکبر و اللہ الحمد!!!!
Comments are closed.