مسلمانوں کی عظمت رفتہ کیسے بحال ہوسکتی ہے ؟

 

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

ادارہ علم وعرفان حیدرآباد 

……………………………………………………………………

آج اس وقت مسلمانوں کی جو صورتحال ہے ، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ، مسلمان سارے دنیا میں مجبور مقہور اور بالکل بے وقعت وبے حیثیت شمار کئے جاتے ہیں، ان کا وہ دور گذر چکا جب سارے عالم میں ان کا طوطی بولتا تھا، ان کا رعب ودبدبہ اور کر وفر ساری دنیا پر قائم تھا، اس وقت مسلمانوں کو ایک کمزور امت سمجھاجاتا ہے ، عالمی سطح پر امت مسلمہ موضوع مذاق بنی ہوئی ہے ، جس مسلمان سے کبھی قیصر وکسری جیسی سوپر پاور طاقتین لرزہ بر اندام تھیں آج اس امت کو سب سے کمزور اور ذلیل امت تصور کیا جاتا ہے ، اس کی دیگر وجوہات کے ساتھ سب سے بڑی وجہ یہ ہے مسلمان ممالک کی تعداد میں کثرت کے باوجود ، طاقت وقوت ، مال ودولت اور ثروت کے باوجود ، آپس میں ساری امت مسلمہ ایک دوسرے سے دست وگریبان ہے ، جدل ونزاع ، اختلاف وانتشار کا شکار ہے ، چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں ، ٹولیوں اور فرقوں وجماعتوں میں بٹی ہوئی ہے، عالمی سطح پر یہ صورتحال ہے مسلمان ممالک کے کئی ایک دھڑ ہیں، عالمی طاقتی ان کو آپس میں بھڑا کر اپنے مقصود کو حاصل کرتی ہیں، ہر شخص کو اپنی حکومت ، اپنی سلطنت اور کرسی کی حفاظت کی لگی ہوئی ہے، خواہ اس کے لئے دشمنان اسلام کا سہارا کیوں نہ لینا پڑے ۔اپنوں سے کنارہ کشی اور دوری اختیار کیوں نہ کرنا پڑے ۔

بڑی حیرت ہوتی ہے کہ کیا یہ امت وہی امت ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل محنت وتگ ودو سے تیار کیا تھا، اپنی تربیت سے ان کو باہم شیر وشکر کردیا تھا، حالانکہ نبی کریم ۖ کے صحبت یافتہ صحابہ باوصف اس کے کہ مختلف علاقوں کے رہنے والے تھے ، مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے ، ان کی زبان اور رنگ بھی مختلف تھے ، مگر انہوں نے زبان، نسل اور رنگ وقومیت کے تمام امتیازات کو مٹاکر آپس میں بھائی بھائی ہوچکے تھے ، وہ ہر اختلاف کے باوصف بحیثیت مسلمان مثل جسد واحد کے تھے ، آپ کے دربار میں حضرت سلمان فارسی بھی تھے ، بلال حبشی بھی تھے ،صہیب رومی بھی تھے ، عداس نینوائی بھی تھے، ابو ذر غفاری بھی تھے، طفیل دوسی بھی تھے، ابوسفیان اموی بھی تھے، عدی طائی بھی تھے ضماد ازدی رضی اللہ عنہم بھی تھے ، سراقہ جعشمی بھی تھے ، مگر سب کے سب باوجود اختلاف رنگ ونسل وقبیلہ اور خاندان ایک دوسرے کے بھائی تھے”نما المؤمنون اخوة” کی عملی تفسیر تھے، خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلاتے تھے ، خود پیاسے رہ کر دوسروں کو پلاتے تھے ، بلکہ حد تو یہ تھی کہ پیاس کی وجہ سے جان سے گذرنا گوارا تھا مگر دوسرے بھائی کو پیاسا دیکھنا برداشت نہیں کرتے تھے۔

صحابہ کا بے مثل ایثار

حضرت ابو جہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یرموک کی لڑائی کے موقع سے میں اپنے چچاز اد بھائی کی تلاش میں نکلا کہ وہ لڑائی میں شریک تھے اور ایک مشکیزہ پانی کا میں نے اپنے ساتھ لیا کہ ممکن ہے کہ وہ پیاسے ہوں تو انہیں پانی پلاؤں، اتفاق سے وہ ایک جگہ اس حالت میں ملے کہ دم توڑ رہے تھے اور جان کنی کا عالم تھا، میں نے پوچھا: پانی کا گھونٹ دوں؟ انہوں نے اشارے سے فرمایا: ہاں، اتنے میں دوسرے صاحب جو قریب ہی پڑے ہوئے تھے اور وہ بھی مرنے کے قریب تھے انہوں نے آہ کی ، میرے چچاز اد بھائی نے آواز سنی تے تو مجھے ان کے پاس جانے کااشارہ کیا، میں ان کے پاس پانی لے کر گیا ، وہ ہشام بن العاص صحابی رسول تھے، ان کے پاس پہنچا ہی تھا کہ ان کے قریب ایک اور تیسرے صاحب اسی حال میں پڑے دم توڑ رہے تھے، انہوں نے آہ کی ، ہشام بن العاص رضی اللہ عنہ مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا، میں ان کے پاس پانی لے کر گیا تو ان کا بھی دم نکل چکا تھا، ہشام بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس واپس آیا تو وہ بھی جان بحق ہوچکے تھے ، ان کے بعد اپنے بھائی کے پاس لوٹا تو وہ بھی جان جان آفرین کے حوالہ کرچکے تھے ۔

یہ تھا صحابہ کاایثار جس کی وجہ سے وہ کامیاب بھی تھے کامراں بھی تھے ، ساری دنیا ان سے لرزاں اور ترساں تھی، وہ جدھر جاتے ہواؤں کا رخ پھیر دیتے تھے ، وہ سچے تھے ، پکے تھے ، وہ ہمدرد تھے، وہ دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے تھے۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صحابی کو کسی شخص نے بکری کی سری ہدیہ کے طور پر دی، انہوں نے خیال کیا کہ میرے فلاں ساتھی کو اس کی زیادہ ضرورت ہے ، وہ صاحب عیال ہیں، اور ان کے یہاں  زیادہ احتیاج ہے، اس لئے ان کے پاس بھیج دی، ان کو ایک تیسرے صاحب کے متعلق یہی خیال پیدا ہوا اور ان کے پاس بھیجدی ، غرض اس طرح سات گھروں سے وہ سری سب سے پہلے صحابی کے گھر لوٹ آئی ۔

ایمان اور اتحاد کی طاقت 

جب تک مسلمانوں میں ایمان تھا، یقین تھا، اللہ کی ذات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل آوری کا جذبہ تھا، ان کی زندگی تعلیمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی چلتا پھرتا نمونہ تھی، ان کا آپسی اتحاد واتفاق باقی وبرقرار تھا، وہ ساری دنیا میں چھائے ہوئے تھے ، اور جب سے ان چیزوں کا فقدان مسلمانوں میں ہوگیا، وہ بے ایمان ہوگئے ، وہ مکار ہوگئے ، وہ غدار ہوئے ، وہ دھوکہ باز ہوگئے ، ناپ تول میں ڈنڈی مارنے والے ہوگئے ،اخلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا ان میں فقدان ہوگیا، وہ اسلامی زندگی سے تہی دست ہوگئے ، تو پھر وہ اقوام عالم کی نگاہ میں ذلیل وخسیس ہوگئے ۔

اگر طاقت کا دارومدار افرادی قوت سے ہوتا تو اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی تعداد اربوں کھربوں میں ہے ، اگر وسائل کی فروانی سے قوت وغلبہ حاصل ہوتا تو پٹرول جیسا سیال مادہ اور بڑے بڑے معدنیا ت کے ذخائر اور کانیں اسلامی ممالک میں موجود ہیں، مالی اعتبار سے نظر کریں مسلمان ممالک کی کرنسیاں اقوام عالم کی کرنسیوں کی مقابلے بہت طاقتور ہیں، پھر مغلوب کیوں ہیں؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایمانی کمزور ی کے ساتھ ، بے ایمانی مسلمانوں میں آگئی ، وہ خود آپس میں ایک دوسرے کے درپے ہوگئے ، درپے آزار ہوگئے ، مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے خود مسلمان کافی ہیں ۔

اس کے بالمقابل پہلے مسلمانوں کے یہاں سونے چاندی کی دولت نہیں تھی، بلکہ ایمان ویقین کی دولت تھی، ان کے پاس پٹرول اور معدنیات کے ذخائر نہیں تھے ، البتہ اللہ کی ذات کے ساتھ وابستگی اور یقین واعتماد ان کا ذخیرہ تھا، ان کے پاس جدید اسلحہ اور سازوسامان نہیں تھے، اخلاق وکردار کے مجسم تھے ، وہ اسلامی تعلیمات کے اخلاقی نمونوں کے پیکر اور اسلام کی جیتی جاگتی اور چلتی پھرتی تصویر تھے ، وہ سارے عالم کے لئے رحمت تھے، ان کے درمیان اسی ایمانی اور ایقانی قوت نے ایسا مستحکم رشتہ قائم کردیا تھا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند یک باز ة، ایک قلب اور قالب تھے ۔وہ نہتے اور تین سو تیرہ تھے مگرانہوں نے ایک ہزار مسلح اور تجربہ کار لشکر کو شکست وریخت سے دوچار کردیا تھا۔

ہماری کمزوری کی وجہ

آج ہماری کمزوری کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس ساز وسامان کی کمی ہے ، طاقت وقوت کی کمی ہے ، توپ وتفنگ کی کمی ہے ،ہماری کمزوری کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس سائنس نہیں، جدید ٹکنالوجی سے ہم عاری ہیں، مال ودولت سیم وزر کی قلت ہماری کمزوری کی وجہ نہیں ، بلکہ ہماری کمزوری کی وجہ ہمارے ایمان ویقین اور اتحاد واتحاد کا فقدان اور اخلاق وکردار اور اسلامی تعلیمات سے عاری ونکما ہونا ہے ، کفر وشرک کی طاقتیں حضرات صحابہ سے ان کی طاقت وقوت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے یقین محکم، اور بے مثال اتحاد واتفاق اور اسلامی تعلیمات سے ان کی مکمل وابستگی سے ڈرتی تھی ، جس نے ان کو باہم تو شیر وشکر بناہی دیا تھا، ان کا رعب ودبدبہ بحیثیت امت مسلمہ کے ہر جگہ قائم تھا۔

صحابہ کے ایمانی طاقت اور سادگی کا کرشمہ

کسی زمانہ میں کابل پر ایک ترک راجہ کی حکومت تھی، یہ راجہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو دس لاکھ درہم سالانہ خراج دیتا تھا، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت کے بعد اس راجہ نے خراج دینا بند کردیا، جب وقت کے بادشاہ کے نمائند ے اس کے پاس خراج کا مطالبہ لے کر پہنچے تو اس نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : وہ لوگ کہاں ہیں جو پہلے آیا کرتے تھے ، ان کے پیٹ فاقہ کشی کی وجہ سے پیٹھ سے لگے ہوتے ، پیشانیوں پر سیاہ نشان پڑے رہتے تھے ، ان کے جسم پر پھٹے پرانے پیوند زدہ کپڑے تھے اور وہ کھجوروں کی چپلیں پہنا کرتے تھے ، آنے والوں نے اسے بتایا کہ وہ تو دنیا سے چلے گئے ، اب ہم ان کے نائب ہیں ، اس راجہ نے کہا : ”ان سے ہم ڈرتے تھے ؛ مگر تم سے ہم ہر گز خوف نہیں کھاتے ، تم جو چاہو کرلو، ہم تمہیں خراج نہیں دیںگے ”

وجہ یہ تھی ہمارے اسلاف گرچہ پھٹے اور پرانے کپڑے پہنے والے تھے ، کھجور کی چپل پہنے والے تھے ، لیکن ان کی طاقت کا راز ان کی ظاہری شان وشوکت اور خدم وحشم نہیں تھے ، بلکہ ان کی طاقت کا راز ان کا ایمان وایقان اوران کااتحاد واتفاق اور ایمان واخلاق کے وہ مجسم پیکر تھے ، جن سے بڑی بڑی طاقتیں ڈرتی تھیں ، ان کے سامنے رام ہوجاتیں، بعدوالے ایمان وایقان کے اعتبار سے کمزورہوگئے او ران کا اتحاد واتفاق پارہ پارہ ہوگیا، اور وہ ایمان اوراسلامی تعلیمات اور اسلام کی اخلاقی تعلیمات سے عاری ہوگئے ، پھر وہ دنیا کی نگاہ میں ایک نیچ اور حقیر قوم بن گئے ۔

ایک اور تاریخ واقعہ سنتے ہوئے چلیں کہ ١٦ھ میں مسلمان فوجوں نے حضرت ابو عبید ہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی قیامت میں ملک شام کو فتح کرتے ہوئے فلسطین تک پہنچ گئے ، عیسائی بیت المقدس میں قلعہ بند ہوگئے اور مسلمان فوجوں نے اس کا محاصرہ کرلیا، اس وقت عیسائیوں یک طرف سے صلح کی پیش کش ہوئی، جس میں ایک خاص شرط یہ تھی کہ خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خود آکر عہد نامہ کی تکمیل کریں، حضرت ابو عبید ہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے عیسائیوں کی اس پیش سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مطلع کیا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ اکر ام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورہ سے فسلطین روانہ ہوئے ۔

حضر ت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک اونٹ اور ایک خادم ، جب آپ مدینہ کے باہر پہنچے تو آپ نے خادم سے کہا : ہم دو ہیں، اور سواری ایک ہے ، اگر میں سواری پر بیٹھوں اور تم پیدل چلو تو میں تہارے اوپر ظلم کروں گا اور اگر تم سواری پر بیٹھو اور میں پیدل چلوں تو تم میرے اوپر ظلم کرنے والے ہوگے ، اگر ہم دونوں اکٹھے سوار ہوجائیں تو ہم جانوروں کے ساتھ بے رحمی اور ظلم کرنے والے ہوںگے ، اس لئے ہم راستہ کی تین باریاں کرتے ہیں، طئے یہ ہوا کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیٹھتے ، اور خادم اونٹ کی نکیل پکڑ کر چلتا،پھر خادم بیٹھتا اور آپ اونٹ کی نکیل پکڑ کر چلتے ، اس کے بعد کچھ دور اونٹ خالی چلتا اور دونوں اس کے ساتھ پیدل چلتے( یہ تھاآقااور خادم کا آپسی برتاؤ وسلوک بلکہ جانوروں تک رحم جس کی وجہ سے مسلمان اس دھرتی پر حکومت کرتے تھے )، اس سفر میں جب آپ اسلامی لشکر کے پاس پہنچے تو ایک تہ بند باندھے ہوئے تھے اور آپ کے کرتے پر پیوند لگے ہوئے تھے ، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، امیر المؤمنین آپ کو عیسائیوں کے فوجی افسروں اور بڑے بڑے مذہبی عہدیداروں سے ملاقات کرنی ہے ، اس لباس کے ساتھ آپ ان کے پاس جائیں گے ہماری بے عزتی ہوجائے گی، حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابو عبیدہ کاش یہ بات تمہارے سواکوئی اور کہتا تو مضائقہ نہیں : پھر فرمایا: ”إنا کنا أذل قوم فأعزنا الله بالسلام فمهما نطلب العز بغیر ما أعزنا الله بن أذلنا الله ” ( ہم دنیا میں سب سے پست قوم تھے پھر اللہ نے اسلام کے ذریعہ ہم کو عزت بخشی جب بھی ہم اس کے سوا کسی اور چیز کے ذریعہ عزت چاہیں گے ہم کو اللہ ذلیل کردیںگے)

اس واقعہ پر غور کیجئے حضرت عمر پیدل چل رہے تھے ، آدھی دنیا کے حکمراں تھے ، غلام سوار تھا ، جسم پر پیوند زدہ کپڑے لیکن ہر جگہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا طوطی بولتا تھا، کافر تھراتے تھے ، حکومتیں لرزدہ براندام تھیں ۔

اسی لئے کسی شاعر نے کہا ہے :

تمہاری قوم کی تو ہے بنا ہی دین وایمان پر                     تمہاری زندگی موقوف ہے تعمیل قرآن پر

تمہاری فتحیابی منحصر ہے فضل یزداں پر                       نہ قوت پر نہ شوکت پر نہ کثرت پر نہ سامان پر

ہمارے اسلاف کی ایمان حالت اور ان کی ایقانی کیفیت اوراتحاد واتفاق کو بیان کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے :

قباؤں میں پیوند، پتھر شکم پر                                    قدم کے تلے تاج کسری وقیصر

غذا نانِ جو وہ بھی کمتر میسر                          مگر ہاتھ میں زورِ تسخیر خیبر

کبھی اہل ایمان کی پہچان یہ تھی                               کبھی اہل اسلام کی شان یہ تھی

فروعی مسائل کے اختلاف کو تر ک کردیں

ابھی بھی مساجد سے مسلمانوں کے فروعی اختلافات کو بیان کیا جاتا ہے ، منبر رسول اللہ صلی اللہ علیہم وسلم سے مسلمانوں میں پھوٹ پیدا کی جاتی ہے ، اب نہیں تو کب ہوش کے ناخن لیںگے ؟ اندلس جس کو مشہور اسلامی جرنیل طارق بن زیاد نے فتح کیا تھا، جس کے ساحل پر اسلامی جرنیل نے کشتیاں جلا ڈالی تھیںجہاں آٹھ سو سال مسلمانوں نے حکمرانی کی تھی ، جہاں جامع مسجد قرطبہ آج بھی مسلمانوں کی عظمت رفتہ پر آنسو بہار رہی ہے ، جہاں کی نہریں اور باغات، محلات اور کوٹھیاں آج بھی اپنے معماروں کی عظمت رفتہ کو بیان کررہی ہیں، یہی کچھ صورتحال ملک ہند میں بھی تھی،جہاں کا لا ل قلعہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی گواہی دیتاہے ، جس کا چپہ چپہ مسلمانوں کی قوت وطاقت کا منہ بولتا ثبوت ہے ،  زوال اس لئے آیا مسلمانوں نے کلام اللہ کو پس پشت ڈال ، وہ فرقوں میں بٹ گئے ، گروہوں میں تقسیم ہوگئے ، وہ ایک دوسرے پر فتوے لگانے لگے اوراسلام کے بجائے مسلک اور مذہب کا کھیل کھیلنے لگے۔

نفس اختلاف مذموم نہیں ، خود انبیاء علیہ السلام کی شریعتوں میں اصول متحد ہیں، مگر فروع ان کے درمیان میں بھی مختلف رہے ، طبیعتوں اور مزاجوں کے اختلاف سے مسائل بھی مختلف ہوتے ہیں، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہماکے درمیان اسی قسم کا اختلاف تھا، جب بدر کے قیدی لائے گئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ ، وہ لوگ جو آپ کے قرابت دار ہیں، ان کو زندہ چھوڑ دیجئے ، ہوسکتا ہے توبہ کرلیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ان لولوں نے آپ کو جھٹلایا آپ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کیا ، آپ کے ساتھیوں پر ظلم وزیادتی کی ، ان کی گردانیں اڑادیجئے

حضور اکرم ۖ اندر تشریف لے گئے اور پھر باہر تشریف لائے اور فرمایا اللہ جل شانہ بعض لوگوں کے دل نرم کردیتے ہیں حتی کہ وہ دودھ سے بھی زیادہ نرم ہوجاتے ہیں اور بعض لوگوں کے دلوں کو سخت فرمادیتے ہیں، حتی کہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوجاتے ہیں ابوبکرتمہاری مثال حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی علیہما السلام کی سی ہے جنہوں نے فرمایا:

” فمن تبعني فإنه مني ومن عصاني فإنك غفور رحيم ”(سورہ ابراہیم) پس جو شخص میری راہ پر چلے وہ تو میرا ہے ہی اور جو شخص اس بات میں میرا کہنا نہیں مانتا سو آپ تو کثیر المغفرت اور کثیر الرحمت ہیں

اور حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا: ” إن تعذبهم فإنهم عبادك، وإن تغفر لهم  فإنك أنت العزيز الحكيم ” ( سورہ المائدہ) ( اگر آپ ان کوسزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ ان کو معاف فرمادیں تو آپ زبردست حکمت والے ہیں )

اور عمر تمہاری مثال حضرت نوح اور حضرت موسی علیہما السلام جیسی ہے جنہوں نے فرمایا:

”رب لا تذر علی الأرض من الکافرین دیارا”(سورة النوح) ( اے میرے پروردگار ان کافروں میں سے زمین پر ایک باشندہ بھی مت چھوڑ (بلکہ سب کو ہلاک کردے)

اور حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا: ” ربنا اطمس علی أموالهم واشدد علی قلوبهم فلا یؤمنوا حتی یروا العذاب الألیم” ( سورہ یونس) اے ہمارے رب ان کے مالوں کو نیست ونابود کردیجئے، اوران کے دلوں کو زیادہ سخت کردیجئے ، جس سے ہلاکت کے مستحق ہوجائیں ، سو یہ ایمان نہ لانے پاویں یہاں تک کہ درد ناک عذاب کے مستحق ہو کر اس کو دیکھ لیں ۔

اس طرح ان کے درمیان نبی کریم ۖ کے وصال کے بعد مانعین زکوة سے قتال کے بارے میں اختلاف ہوا وغیرہ

لیکن ان اختلافات کی وجہ سے انہوں نے ایک دوسرے کے دامنِ عزت کو تار تار نہیں کیا، ایک دوسرے پر کیچڑ نہیں اچھالا، فتوے بازی نہیں ، ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کی ، اپنی فقہی رائے اور مسلک کو دوسرے پر زبردستی تھوپنے کی کوشش نہیں کی ۔

آج ہماری صورتحال یہ ہے کہ غیروں کے ساتھ کیا اخلاقی برتاؤ کرتے اپنوں کے ساتھ دشمنوں کا سا رویہ ، جہاں معمول اختلافات پر مصلوں سے ہٹادینا، امامت سے علحدہ کردینا، مسجدوں سے نکال دیناروز مرہ کے مشاہدات ہیں۔

اسلاف کا غیروں کا ساتھ برتاؤ

ہمارے اسلاف نہ صرف اپنوں کے ساتھ عزت واحترام کا برتاؤ کرتے ، بلکہ ہزار اختلاف باوجود ایک دوسرے کی آراء کے اختلاف باوجود بحیثیت مسلمان متحد تھے بلکہ ان کا برتاؤ غیروں کے ساتھ بھی اتنا کریمانہ اور مشفقانہ تھا کہ وہ بھی قبول اسلام پر مجبور ہوجاتے ، کفار مکہ نے نبی کریم ۖ کو کتنی تکلیفیں نہیں پہنچائیں، کونسی اذیت اور تکلیف ایسی نہیں جس سے دوچار نہ کیا، تذلیل کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا، مگر جب مکہ فتح ہوا تو سب کفار ، آپ کے جانیں دشمن، آپ کی بیٹوں کے قاتل ، صحابہ کے دشمن زیرنگیں تھے ، اس وقت ہر شخص اپنے اوپر مواخذہ کا خوف کررہا تھے لیکن حضور اکرم ۖ کی پاک زبان سے یہ الفاظ جاری ہوئے ” لا تثریب علیکم الیوم یغفر اللہ لکم ”(درمنثور) آج تم پر کوئی ملامت نہیں ، اللہ تمہیں معاف کرے ۔

آج بھی اسی ایمان ویقین ، اسی اسلامی وایمانی تعلیمات اور اسی اتحاد واتفاق اور غیروں کے ساتھ حسن سلوک اور رواداری کی ضرورت ہے ، پھر سے مسلمان غالب ہوسکتے ہیں ! پھر ان کی عظمت رفتہ بحال ہوسکتی ہے ۔

Comments are closed.