بھارتی کسانوں کی تحریک کامیاب ہوکررہے گی

عبدالرافع رسول
2014سے ہم مسلسل دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ بھارت میں جس نے بھی اپنے حقوق کامطالبہ کردیا ،چاہے وہ بھارتی مسلمان ہوں،دلت ہوں ،مسیحی ہوں یاسکھ انہیں مودی سرکارنے اس قدردبایاکہ بے چارے بد حال ہوگئے ۔ دراصل بھارت کی ہندواکثریت کے بل بوتے اوراس زعم میں کہ ملک کی تمام ہندواکثریت کی حمایت مودی کے ساتھ ہے مودی رجیم نے اقلیت کو روندتے ہوئے آمریت کا خطرناک کھیل شروع کردیاہے۔ مودی نے خود کو ہی ملک سمجھ لیا ہے اس لئے جوچاہے کرگذرتاہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی اس کے کسی فیصلہ کی مخالفت ہوتی ہے وہ اسے قوم پرستی سے جوڑکر مخالفین کو ملک دشمن قراردیاجاتاہے ۔اقلیتوں کے بعداب بھارتی کسانوں پرنشانہ سادھاگیااوران کے حقوق کوبالجبرروندنے کی کوششیں جاری ہیں۔ایک ماہ آنے کو ہے لاکھوںبھارتی کسان زمہریراور کڑاکے کی اس سردی میںکھلے آسمان تلے نہایت بے کسی کے عالم میں اپنے مطالبات کو لیکر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ اگرچہ مودی رجیم ٹس سے مس نہیں ہورہی ۔مگرکب تک۔
اگرچہ اس نے کسانوں کے ساتھ ایک مذاکراتی دورچلایالیکن نیت خراب ہوتویہ پتاچلتاہے کہ یہ دھکوسلہ کے سواکچھ نہیں تھا۔ ظاہربات ہے کہ جب دھوکہ دہی کی نیت ہوتوکسان کے مسائل کا حل کیونکرنکل سکے ۔ہر ملک کا انحصار زراعت پر ہوتاہے، اسی لئے کہاجاتاہے کہ کسانوںکے پٹھے اورکھردے ہاتھوں کوچوم لیناچاہئے مگر یہ بھارت ہے کہ جہاں کسانوں کے زندگی اجیرن ہے اورخوف کے سائے ان کے سروں پرمنڈلارہے ہیں۔ہاتھوںکوکاٹاجارہاہے۔انہیں اپنی کھیتوں سے بے دخل کیاجارہاہے اور ان کے کھیت کارپوریٹ گھرانوں کوسونپے جارہے ہیں، جس سے ان کی حیثیت ایک بندھوا مزدور کی ہوکر رہ جائیگی، بھارتی کسانوں کایہ خوف محض ایک وہم نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے۔مودی سرکار کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ ہے کہ کسانوں کو بھی اب اسی طرح ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس طرح (CAA) کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ڈرایا دھمکایا گیا تھا، کسانوں کو لاکھوں روپے کے نوٹس جاری ہو رہے ہیں ان سے بانڈ بھرائے جا رہے ہیں، کسان لیڈروں پر الزام یہ لگایا جارہا ہے کہ وہ کسانوں کو بھڑکا رہے ہیں۔
دراصل جب بی جے پی اورمودی اقتدارکی کرسی پربراجما ن ہوئے تووہ بھارت کے ہر سیاہ وسفید کا مالک بن گئے۔مودی اینڈ کمپنی نے بھارت میں خوف کاایک ایساماحول پیداکیا کہ مودی سرکار کچھ بھی کرے اس کی مخالفت کوئی نہیں کرسکتا۔ کسانوں کی فلاح وبہبودکی آڑ میں زرعی قوانین چور دروازے سے لے آئے گئے، بظاہر دعوی کیا جا رہا ہے کہ ملک کے کسانون کی بہتری کے لئے اس طرح کے قوانین کی اشد ضرورت تھی، ان سے کسانوں کو بے پناہ فائدہ پہنچے گا لیکن ایک ساتھ جس طرح تین قانون منظور کیے گئے اس کے پیچھے درحقیقت کسانوں کو نہیں بلکہ کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے، اور یہ کارپوریٹ گھرانے بھی وہی گھرانے ہیں ۔ نریندرمودی کے منظور نظر ہیں یعنی امبانی اور اڈانی، یہ سچائی بھی سامنے آچکی ہے کہ ان قوانین کی منظوری سے پہلے ہی امبانی اور ایڈانی نے اناج اسٹور کرنے کے لئے منصوبہ بندی شروع کردی تھی، اور کئی جگہ ان کے بڑے بڑے گودام بھی بن کر تیار ہوچکے تھے، ایسے میں ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ زرعی قوانین ان دونوں کارپوریٹ گھرانوں کی مرضی اور منشا کے مطابق تیار کیے گئے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اب جب کہ ملک کا کسان اس کے خلاف سراپا احتجاج بن کر دہلی کی سرحد تک آپہنچا ہے۔
CAA جیسے کالے قانون کی مثال ہمارے سامنے ہے اس کو لیکرجب ملک کے انصاف پسند طبقہ نے تحریک شروع کی تو انہیں ڈنڈوں کے زور سے کچلنے کی کوشش ہوئی، اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیدیا گیا، لیکن جب ہر طرح کے ظلم واستبداد کے باوجود یہ تحریک مضبوط ہوتی گئی تومودی رجیم یہ باور کرانے کی مسلسل کوشش ہوئی کہ(CAA)کی مخالفت تنہا مسلمان کر رہے ہیں، اوریہ مخالف خالی از معنی نہیں اس تحریک کی ڈورپاکستان سے ہلائی جارہی ہے ۔کسان تحریک کے تعلق سے بھی یہی رویہ روبہ عمل لایاگیا ، یہ تاثر دینے کی دانستہ کوشش کی گئی کہ اس تحریک میں تنہا پنچاب کے کسان شامل ہیں،اوریہ خالصتان بنانے کی سرگرمیاں ہیں اوراسکے پیچھے پاکستان ہے ۔ مگر جب تحریک کا دائرہ بڑھنے لگا اور دوسری ریاستوں کے کسان بھی اس تحریک میں عملا شامل ہوگئے تو کہاگیاکہ اس تحریک کولانچ کرنے والاصرف پاکستان نہیں بلکہ چین پراسے چلارہاہے،لیکن اس طرح کا ہر حربہ تادم تحریر ناکام ثابت رہا ہے۔
جس تحریک کو کل تک پنجابی کسانوں کی تحریک قرار دینے کی کوشش ہو رہی تھی اب وہ بڑھ کر بھارت کے تمام کسانوں کی تحریک بن چکی ہے، مگراس کے باجود مودی کاتکبر ٹوٹ نہیں رہا۔مودی سرکار تادم تحریر کسانوں کی تحریک کے سامنے جھکنے کے لئے اگرچہ آمادہ نظر نہیں آرہی لیکن اس سچائی سے کون ذی شعور انسان انکار کرسکتاہے کہ کسان تحریک نے مودی اینڈکمپنی کی رٹ کو ہلاکر رکھ دیا ہے اوراس کے دروبام لرزادیئے ۔یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک ماہ مکمل ہورہاہے کہ جب کسان بھارتی دارالحکومت دہلی کے چاراطراف محاصرے میں لے چکے ہیں اوران تمام راستوں پروہ خیمہ زن ہیں جودلی کی جانب جاتے ہیں۔ایسالگ رہاہے کہ کسی دوسرے ملک کی فوج نے دہلی کاگھیرائوکررکھاہے اورکہہ رہی ہے کہ ’’ملک ہمارے حوالے کرویاپھر جنگ کے لئے تیاررہو‘‘ یہاں اس امرکاتذکرہ ناگزیر ہے کہ مودی کے کچھ تنخواہ داروں اورمراعات یافتہ گان نے کسان تحریک کو ختم کرانے کے لئے بھارتی سپریم کورٹ کا سہارا لیا تھا مگر وہاں سے ان کے نصیب میں ناکامی اورنامرادی آئی۔بھارتی سپریم کورٹ نے تمام عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ وہ قوانین کے خلاف مظاہرہ کرنے کے بنیادی حق کو مانتی ہے، ہم اس میں دخل نہیں دیں گے ۔
واضح رہے کہ یہ(CAA) اور(NCR) کے مخالفین نہیں ہیں جنہیں تم نے مسلمانان بھارت کے حقوق کی تحریک سمجھ کربالجبرروکنے،ٹوکنے کی کوشش کی اورریاستی دہشت گردی کے ظلم واستبداد کا نشانہ بنایا اورہندو قوم پرستی کی فتح کا جشن مناکر سرکار چین کی نیند سوجاگئی، یہ کسان تحریک یہ ایسی آکاش بیل ہے جس نے مودی اینڈ کمپنی کوپوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے ۔یہ بھارتی کسانوں کی تحریک ہے اوربھارت کے تمام کسان بیدار ہوچکے ہیں اور جاس تحریک کے ساتھ جڑچکے ہیں۔جب تک یہ تحریک اپنے مطالبات نہیں منواتی تسلیم نہیں کرواتی تب تک وہ خود چین سے بیٹھیں گے اور نہ ہی مودی اینڈ کمپنی کو سکھ سے بیٹھنے دیں گی۔
Comments are closed.