ہماری تقریبات اور نعمتوں کی ناقدری

نثاراحمد حصیر القاسمی
شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ
وسکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ۔ حیدرآباد۔
[email protected]
0091-9393128156
انسان اس دنیا میںاپنی ضروریات لے کر آیا ہے، اسے بھوک بھی لگتی اور پیاس بھی، اسے لباس وپوشاک بھی چاہیے اور شریک حیات بھی ، اسے گھر مکان بھی چاہیے اور سردی وگرمی سے حفاظت کا سامان بھی ، اسے آنے جانے ، ملنے جلنے اور طویل ومختصر مسافت طے کرنے کے لئے سواریاں بھی چاہیے اور سامان آرائش وزیبائش بھی ، انسان فرشتہ نہیں، کہ اسے ان چیزوں کی ضرورت نہ پڑے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انسانی ضروریات کے سارے خزانے انسان کو بسانے سے پہلے ہی اس زمین میں رکھ دیئے اور ہمیں اعتدال کے ساتھ ان چیزوں کے استعمال کی اجازت دے دی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وہ اللہ ہی کی ذات ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا۔ (البقرۃ: 29)
اسلام کا یہی امتیاز ہے کہ اس نے دنیوی ضروریات وتقاضوں اور آخرت کیلئے مطلوب امورکے درمیان اعتدال وتوازن رکھا اور افراط وتفریط یا اسراف وکنجوسی سے بچتے ہوئے اپنی ضروریات کی تکمیل کی اجازت دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
اور جو کچھ اللہ نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی فراموش مت کر اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سلوک کر اور ملک میں فساد وبگاڑ کا خواہاں نہ ہو، یقین مان کہ اللہ مفسدوں کو ناپسند رکھتا ہے۔ (القصص: 77)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو بھر پور مال ودولت اور بیش بہا نعمتیں اور دنیوی اشیاء زینت اور مال وزر دے رکھے ہیں، اسے مختلف کار خیر کے ذریعہ اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری ، عبودیت وبندگی اور اس کے حصول قرب میں خرچ کرو اور دنیا کا جو حصہ ہے اسے بھی فراموش مت کرو، یعنی کھانے پینے، لباس وپوشاک اور بیویوں سے ملنے جیسی حاجتیں ‘جسے اللہ نے حلال کیا ہے، اسے نظر انداز مت کرو، کیونکہ جس طرح تمہارے رب کا تم پر حق ہے اسی طرح تمہارے جسم کا بھی حق ہے ۔
اس وقت بطور خاص اس ملک کے اندر عام لوگوں کی آمدنی کم اور بے روزگاری عام ہوگئی ہے، کاروبار ٹھپ ہوچکے ہیں، ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے، جی ایس ٹی اپنی تاریخ کی نچلی سطح پر پہنچ چکی ہے، غلہ پیدا کرنے والے کسان سڑکوں پر ہیں، اور اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، مہنگائی نے عام لوگوں کی کمر توڑ رکھی ہے ‘ملک کے باشندوں کیلئے اس مہنگائی میں قلت یافت وبے روزگاری کے ساتھ جھیلنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ پیٹ کی ایسی مار ہے جس نے لوگوں کو غم واندوہ اور فکرو پریشانی میں مبتلا کردیا ، صاحب ایمان کے ایمان کومتزلزل اور خود کشی پر مجبور کردیا ہے اور اللہ نے جو رزق تقسیم کردی ہے اس پر رضا وخوشنودی کے عقیدے کو کمزور کردیاہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم کے عہد میں ایک بار مہنگائی بہت بڑھ گئی، تو لوگوں نے آپ سے خواہش کی کہ آپ تمام اشیاء کی قیمتیں متعین فرما دیں تاکہ لوگ اس سے زیادہ قیمت پر نہ بیچ سکیں تو اللہ کے نبی صلعم نے ارشاد فرمایا:
اللہ ہی بڑا رزق دینے والا، روزی فراخ کرنے والا، تنگ کرنے والا اور قیمتیں متعین کرنے والا ہے، میں اللہ سے امید کرتا ہوںکہ میں اللہ سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کوئی خون یا مال کا مجھ سے مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔ (سنن ترمذی)
اللہ کے نبی صلعم نے یہ واضح فرما دیا کہ قیمتوں کی کمی یا زیادتی گرانی وارزانی بندہ کے ایمان ویقین کے بقدر ہوتا ہے، اور اسی ایمان کے زیر اثر مال وزر اور رزق میںبرکت ہوتی یا اٹھتی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اور اگر ان بستیوںکے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے، مگر انہوںنے جھٹلایا تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔ (الاعراف: 96)
اللہ کے دیئے ہوئے رزق سے مستفید ہونے اور متوازن طریقہ پر اسے استعمال کرنے کے لئے اسلام نے کچھ اصول وضوابط مقرر کئے ہیں، تاکہ انسان بھوکمری ، قحط اور ان بحرانوں سے بچا رہے جس کا سامنا انسانی سماج کو ہوتا ہے، اور اس وقت ہندوستانی سماج اس کا شکار ہے۔
اسلام نے ہمیںبتایا اور سکھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان یا کسی گروہ یا جماعت کو جو نعمتیں دی ہیں، وہ صد فیصد اسی کا نہیں بلکہ اس میں دوسروں کا بھی حق ہے۔ مال درحقیقت اللہ کا ہوتا ہے، اور اللہ نے اس میں تصرف کرنے کا انسان کومجاز بنایا ہے، اس کا مطلب ہے کہ مسلمان اس کا مجاز نہیںکہ وہ ان اموال کو خرچ کرنے میں بے لگام ومطلق العنان ہوجائے اور اسراف وفضول خرچی کرنے لگے، یا بالکل ہی اپنا ہاتھ کھینچ لے یا حرام راستوں میں اسے خرچ کرے۔
اپنی ذات پر اہل وعیال پر ، قرابت داروں پر ، غرباء ومساکین پر خرچ کرنا بھی اسی طرح عبادت وطاعت ہے جس طرح دوسری عبادتیں اور معاملات ہیں، اس لئے اس عبادت انفاق کے اندر بھی ان قیود اور پابندیوں کا لحاظ کرنا اور اس کے احکام کو نگاہوں میں رکھنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا دیگر عبادتوں کے حدود وقیود کے ہیں، اور اس کا لب لباب یہ ہے کہ حلال کے اندر اسراف وفضول خرچی سے اور حرام کے اندر خرچ کرنے سے اجتناب کیا جائے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
اور خوب کھائو اور پیو اور حد سے مت نکلو ، بے شک اللہ حد سے نکل جانے والوںکو پسند نہیں کرتے ہیں۔ (الاعراف: 31)
اپنی ذات یا دوسروں پر خرچ کرنا اگر شریعت کے حدود میں ہو اور اس سے خودکو یا دوسروں کو نقصان نہ پہنچتا ہو تو اسلام کی نگاہ میں بہت بہتر اور مستحسن عمل ہے، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے جو اللہ کی حلال کردہ چیزوںکو اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
آپ فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے، اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیاء اس طور پر قیامت کے روز خالص ہوںگے ، اہل ایمان کے لئے دنیوی زندگی میں مومنوں کے لئے بھی ہیں، ہم اسی طرح تمام آیتوں کو سمجھ داروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں۔ (الاعراف: 32)
اسلام نے خرچ کرنے میںاعتدال ومیانہ روی کا حکم دیا اور اسراف وفضول خرچی سے منع کیا ہے، اور یہی اس کا مقرر کردہ راستہ وطریقہ ہے، اور اس کی پابندی انہیں لوگوں سے ممکن ہے ، جن کے پاس قناعت کی دولت اور جذبہ ایمانی ہو۔ اسلام نے خرچ کرنے میں ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے، انسان کو چاہیے کہ پہلے وہ اپنی ضروریات کو پورا کرے ، پھر اپنے اہل وعیال کی ضروریات کی تکمیل کرے، پھر اپنے رشتہ داروں کی حاجت روائی پر توجہ دے پھر عام ضرورت مندوںکی مدد کرے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘وہ فرماتے ہیں کہ آل محمد صلعم نے مسلسل تین دنوں تک شکم سیر ہو کر وفات تک کبھی نہیںکھایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھی روایت ہے کہ محمد صلعم کے گھر والے جب سے مدینہ پہنچے مسلسل تین دنوں تک گیہوں کے کھانے سے پیٹ نہیں بھرا، یہاں تک کہ آپ صلعم کی وفات ہوگئی۔ (ترمذی)
ایک حدیث کے اندر رسول اللہ صلعم نے ارشاد فرمایا ہے کہ میرے رب نے میرے سامنے پیش کی کہ مکہ کی وادی کو سونے کی وادی بنا دیں تو میں نے کہا نہیں، اے میرے پروردگار میں چاہتا ہوں کہ ایک دن شکم سیر ہوں اور ایک دن بھوکا رہوں، جب میں بھوکا رہوں تو آپ کو یاد کرکے آپ کے سامنے گڑ گڑایا کروں، اور جب شکم شیر ہوں تو آپ کی حمد وثناء بیان کروں، اور شکر بجا لائوں۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان جان بوجھ کر فقر وفاقہ کو اختیار کرے ، بلکہ صرف رسول اللہ صلعم کی حالت وکیفیت کو بیان کرنا ہے کہ آج کے زمانہ میں اس طرح شب وروز کا گذارنا ممکن نہیں، اور نہ ہی ایمان اتنا قوی اور اللہ پر بھروسہ اتنا مستحکم ہے ، یہ صرف اس لئے ذکر کردیا کہ ہم خرچ کرنے اور عیش وعشرت کی زندگی گذارنے میںاعتدال ومیانہ روی کو اختیار کریں۔
اب ذرا ہم اپنے گرد وبیش پر نظر ڈالیں کہ اسلام کی ان روشن تعلیمات اور رسول اللہ صلعم کی ان ہدایات کے مقابلہ میں ہماری کیا روش ہے۔
آج ایک شخص اپنی چھوٹی سی فیملی کی رہائش کے لئے کروڑوں خرچ کرکے عالی شان عمارت کھڑی کرتا ہے، اور صرف حمام وبیت الخلاء کی تزئین پر ملینوں روپئے خرچ کرتا ہے اور یہی نہیں بلکہ چند سالوں بعد جب اس سے دل بھر جاتا ہے تو اسے توڑ پھوڑ کر نکال دیتا اور نئے انداز سے پھر اسے آراستہ کرتا ہے اور اس پر پہلے سے کہیںزیادہ رقم خرچ کرتا ہے، اسی طرح دولت وثروت جب دماغ میںکیڑے پیدا کردیتا ہے تو وہ آج قیمتی سے قیمتی کاریں خریدتا پھر ایک سال نہیں گذرتا کہ اسے تبدیل کردیتا ہے، کوئی گھر بناتا کروڑوں اس کی تعمیروتزئین پر خرچ کرتا ، اس کی کوشش ہوتی ہے کہ پاس پڑوس کے مکان سے اس کا مکان ممتاز ونمایاںاورعالیشان ہو ، اس میں سنگ مرمر، اور قیمتی سے قیمتی پتھروں کے فرش بنائے جائیں اور جدید ترین سامان آرائش سے خوبصورت سے خوبصورت ودیدہ زیب بنانے کی کوشش کی جاتی ‘ حمام وبیت الخلاء تک میں ایر کنڈیشن ہوتے مگر تھوڑے دنوں کے اندر ہی ان بیل بوٹوں اور نقش ونگار سے دل بھر جاتا اور پھر کروڑوں خرچ کرکے اس میںتبدیلی لانے کی کوشش کی جاتی یا اس سے بہتر مکان تعمیر کرنے کا جذبہ انگڑائی لینے لگتا ہے۔
آج ہمارے پاس شادیوں اور دیگر تقاریب میںدل کھول کر فضول خرچی کی جاتی ہے ، ایک طرف مہنگائی اورغربت کا یہ حال ہیکہ سماج کے ایک بڑے طبقہ کیلئے زندگی گذارنا دوبھر ہوگیا ہے وہ نان شبینہ کے محتاج ہیں، مدارس ومساجد سے وابستہ علماء وحفاظ ،معاشی بدحالی کا شکار ہیں، جن کی ملازمتیں ختم ہوگئی ہیں، یا جن کے کاروبار موجودہ حالات کے زیر اثر ٹھپ ہوچکے ہیں، وہ اپنی اور اپنے بال بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کے قابل نہیں رہے ہیں، بہت سے لوگ کچرہ دانوں اورکوڑے ڈالنے کے مقامات سے گلی سڑی غذائی اشیاء اٹھا کر پیٹ کی آگ بجھانے کی کوشش کرتے ہیں، تو دوسری طرف ہماری شادی خانوں اورفنکشن ہالوں میں پچاسوں قسم کے ڈش پیش کئے جاتے ہیں، چکن کے دس آئیٹم ، اورمٹن کے بیس آئیٹم اور میٹھے کے اتنے اورکھٹے کے اتنے، آئیٹم تیار کئے جاتے ہیں، جو محض دکھاوے اور ناموری اور دولت کی جھوٹی تشہیر اور اپنی ناک اونچی کرنے کے لئے بطور فخر ومباہات کے ہوتا ہے، میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ بہت سے فنکشن ہال کے باہر جو کچرے کے ڈبے رکھے ہوتے ہیں، بریانی اور چکن ومٹن اور دوسری قیمتیں ڈیشیزاس میں پڑے ہیں، تقریب میں جتنا کھانا بنایا جاتا اس کا کبھی آدھا یا اس سے کم یا زیادہ بچ جاتا ہے جسے لیناہووہ لیتا اورباقی کچرے میں ڈال دیاجاتا ہے جس سے یا تو کتے بلیاں مستفید ہوتے یا پھر بلدیہ کی گاڑی اسے لے جا کر پھینک آتی ہے، ایک طرف اسراف وفضول خرچی اور نعمت کی ناشکری وناقدری کا یہ عالم ہے اور دوسری طرف ملک کی آبادی کا بڑا حصہ خط غربت سے نیچے کی زندگی گذار رہا اور دانے دانے کو ترس رہا ہے۔
یہی صورتحال لباس وپوشاک کا ہے ، مرد ہوں یا خواتین قیمتی سے قیمتی جوڑے خریدتے ، ایک دو بار سے زیادہ اس کے استعمال کی نوبت نہیں آتی کہ اس کی قیمت کم ہوجاتی ، یاماڈل پرانا ہوجاتا ہے تو اسے ضائع کردیا جاتا اور اس کی جگہ نئے ماڈل وڈیزائن کا خرید کر لایا جاتا ہے ، یہی حال گھریلو استعمال کی اشیاء کا ہے کہ اس میںکسی خرابی وبرائی کے بغیر محض ماڈل کے پرانا ہوجانے کی وجہ سے تبدیل کردیا جاتا اور اسے کوڑی کے داموں میںنکال دیا جاتا ہے۔
فضول خرچی کی انتہاء تو اس وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب کسی دنیا دار کی ہزار روپئے کی شرٹ کو نیلامی میںلاکھوں میں خریدا جاتا اور پچاس پچاس ہزار کے اونٹ کو بیس بیس اور تیس تیس لاکھ میں محض ناموری کے لئے خریدا جاتا ہے، اگر کسی بکرے کے جسم پر بال اس طرح اگ آئے کہ وہ اللہ نظر آنے لگا تو اس دس ہزار کے بکرے کودس لاکھ میں خریدا جاتا اور جس عالم وحافظ کے سینے میں اللہ ہی نہیں بلکہ پورا کلام اللہ نقش ہو اس کا نہ کوئی پرسان حال ہے اور نہ اسکی کوئی قدر کرنے والا۔
آج مسلمان اس ملک میں بڑے پر آشوب دور سے گذر رہا ہے، عام مسلمان معاشی بدحالی کا شکار ہیں، نوجوانوں میں بے روزگاری عام ہوتی جارہی ہے، سرکاری نوکریوں کا حصول مشکل ترین ہوچکا ہے، نوکریوں کے مواقع ختم ہورہے ہیں، کاروبار ٹھپ ہوتا جارہا ہے، دولت وثروت چند غیر مسلم سرمایہ داروں کے ہاتھ میں سمٹتی جارہی ہے، مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوتا جارہا ہے، معاشی تعلیمی ، سماجی ، سیاسی ہر سطح پر وہ زوال سے دو چار ہیں،مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ کے لئے روزہ مرہ کی ضروریات زندگی کا انتظام کرنا مشکل ہوگیا ہے، بہت سے علاقے بھوکمری وبدامنی کا شکار ہیں، اور ان حالات میں مسلمانوں کی یہ بے اعتدالی وفضول خرچی اور نعمت خداوندی کی ناقدری افسوسناک ‘غضب الٰہی کو دعوت دینے والی اور نعمتوں کے چھن جانے کی طرف اشارہ کرنے والی ہے۔
ہمیں غور کرنا چاہیے کہ اللہ نے ہمیں جو مال وسرمایہ دیا ہے وہ اس لئے نہیں کہ اسے نام ونمود وفخر ومباہات میں خرچ کیا جائے اور اسے ضائع وبرباد کیا جائے ، اللہ نے اس لئے دیا ہے کہ ہم اس کے حقوق ادا کرکے آخرت میں اپنا پرتعیش محل تعمیر کریں جہاں ہمیں ہمیشہ رہنا ہے ‘اسے وہاں خرچ کریں جہاں مالک ورزاق نے ہمیں خرچ کرنے کیلئے کہا ہے، یاد رکھیں کہ رزق بہت بڑی نعمت ہے، اگر اس کا شکر بجا لایا جائے تو اللہ اس میں اضافہ کریںگے، اور اگر اس کی ناشکری وناقدری کی جائے تو وہ نعمت اللہ ہم سے چھین لیںگے اور ہمیں سزا بھی دیںگے۔

Comments are closed.