آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ۔ بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد
اقامت کے وقت بیٹھا رہنا
سوال: مجھے کمر اور گھٹنے میں تکلیف ہے، میں قیام تو کھڑے ہو کر کرتا ہوں؛ لیکن اقامت کے دوران بیٹھا رہتا ہوں اور امام کی تکبیر تحریمہ سے پہلے کھڑا ہو جاتا ہوں، یہ بات بھی واضح کر دوں کہ مجھ کو کرسی پر نماز پڑھنی پڑتی ہے تو کیا میرا تکبیر کے دوران بیٹھا رہنا درست ہے، یا اس میں کوئی کراہت ہے؟ (اشفاق حسین، یاقوت پورہ)
جواب: کھڑے ہونے کا تعلق نماز سے ہے نہ کہ تکبیر سے؛ اس لئے اقامت کے درمیان کرسی پر بیٹھنا اور تکبیر تحریمہ کے ساتھ ہی کھڑا ہو جانا جائز ہے، اس میں کوئی کراہت نہیں، بالخصوص ایسی صورت میں کہ آپ کا یہ عمل عذر کی بناء پر ہے، جب عذر کی بناء پر نماز میں رعایت ہے تو نماز شروع ہونے سے پہلے تو بدرجہ اولیٰ اس کی اجازت ہوگی؛ البتہ یہ ضروری ہے کہ آپ صف میں اس طرح بیٹھیں کہ صف بندی میں دشواری نہ ہو، اقامت کے وقت کھڑے ہونے کا مقصد یہ ہے کہ صف سیدھی رہے اور صف بنانے میں تاخیر نہ ہو۔
زوال کے وقت کی تعداد
سوال: زوال کے وقت نماز پڑھنا مکروہ ہے، یہ کتنا وقت ہوتا ہے اور کتنی دیر نماز سے رُکے رہنے کا حکم ہے؟ (رحمت اللہ قاسمی، بھیونڈی)
جواب: اصل میں جب آفتاب بیچ آسمان میں ہو، جس کو استواء کہتے ہیں تو اس وقت نماز پڑھنا مکروہ ہے، عوام اسی کو زوال کا وقت کہتے ہیں؛ حالاں کہ زوال کے معنیٰ آفتاب کے مغرب کی طرف ڈھلنے کے ہیں، جب آفتاب ڈھلتا ہے تو مکروہ وقت ختم ہو جاتا ہے، یہ جو استواء اور عوام کی زبان میں زوال کا وقت ہے، وہ صرف دو تین منٹ ہوتا ہے اور احتیاطاََ اس سے پہلے اور اس کے بعد پانچ پانچ منٹ نماز نہ پڑھی جائے، گویا اصل وقت مکروہ اور پہلے اور بعد میں احتیاطاََ نماز سے بچنے کے اوقات کل ملا کر تیرہ منٹ ہوتے ہیں، جس میں نماز پڑھنے سے بچنا چاہئے، اصل مکروہ وقت وہ ہے، جب آفتاب وسط آسمان میں ٹھہرا رہتا ہے، سایہ نہ بڑھتا ہے اور نہ گھٹتا ہے: فإذا وقف لا یزداد ولا ینقص فھو وقت الزوال (بدائع الصنائع، کتاب الصلوٰۃ: ۱؍۳۱۷)
چھوٹے بچہ سے آیت سجدہ سننے کا حکم
سوال: میں بچوں کو نورانی قاعدہ اور ناظرہ قرآن مجید پڑھاتا ہوں، جس میں عام طور پر بہت چھوٹے بچے ہوتے ہیں، اگر ایسا بچہ آیت سجدہ پڑھے تو کیا اس بچہ اور معلم پر سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہوگا؟ (حافظ مشتاق احمد، سعیدآباد)
جواب: نابالغ بچہ پر تو سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہوگا؛ کیوں کہ فرائض وواجبات کے احکام بالغوں سے متعلق ہیں، اور ابھی یہ بچہ بالغ نہیں ہوا ہے؛ لیکن بطور تربیت کے نابالغ بچہ کو بھی سجدۂ تلاوت کرنے کا حکم دینا چاہئے، جہاں تک معلم کی بات ہے تو اگر بچہ نابالغ ہے؛ لیکن سن شعور کو پہنچ گیا ہے، سجدہ، رکوع وغیرہ کو اچھی طرح سمجھتا ہے تو معلم پر آیت سجدہ سننے کی وجہ سے سجدہ تلاوت واجب ہوگا، اور اگر بچہ ابھی بہت ہی بے شعور ہے اور اس نے آیت سجدہ پڑھ لی تو نہ اس پر سجدہ واجب ہوگا اور نہ اس کے استاذ کے بشمول دوسرے سننے والوں پر: وھذا التعلیل یفید التفصیل فی الصبي فلیکن ھو المعتبر إن کان لہ تمییز وجب بالسماع منہ وإلا فلا، (فتح القدیر: ۲؍۱۵، باب سجود التلاوۃ)
آیت سجدہ کے ایک ٹکڑے کی تلاوت
سوال: چھوٹے بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دینے میں الفاظ کو کاٹ کاٹ کر پڑھایا جاتا ہے تو اگر آیت سجدہ کو کاٹ کاٹ کر پڑھایا جائے ، جیسے اس لفظ کو چھوڑ کر آیت کا ٹکڑا پڑھے جس لفظ پر سجدۂ تلاوت ہے، یا صرف سجدۂ تلاوت کے الفاظ کو پڑھے اور آگے پیچھے کے ٹکڑے کو نہیں پڑھے تو کیا اس پر سجدہ تلاوت واجب ہو جائے گا؟ (حافظ مشتاق احمد، سعیدآباد)
جواب: آیت سجدہ کی تلاوت پر اس وقت سجدہ واجب ہوگا، جب سجدۂ تلاوت والے الفاظ کے ساتھ آیت کا اکثر حصہ بھی پڑھا جائے؛ لہٰذا اگر پوری آیت پڑھی جائے، یا الفاظِ سجدہ کو شامل کرتے ہوئے اکثر حصہ پڑھا جائے تب تو سجدۂ تلاوت واجب ہوگا، اور اگر صرف سجدۂ تلاوت والے الفاظ یا اس سے پہلے والا ٹکڑا یا اس کے بعد والا ٹکڑا پڑھا جائے تو سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہوگا: ولو قرأ آیۃ السجدۃ إلا الحرف الذی فی آخرھا لا یسجد، ولو قرأ الحرف الذی یسجد فیہ وحدہ لا یسجد الا أن یقرأ أکثر آیۃ السجدۃ بحرف السجدۃ (الفتاویٰ الہندیہ: ۱؍۱۳۲،الباب الثالث عشر فی سجود التلاوۃ)
بیوی سے ترک تعلق کی قسم
سوال: زید نے غصہ کی حالت میں اپنی بیوی سے کہا: اب میں تم سے صحبت نہیں کروں گا، یہ بات تو اس نے غصہ میں کہی؛ لیکن اس وقت اس کی بیوی حیض کی حالت میں تھی، تو اس صورت کا کیا حکم ہوگا؟ کیا اس کی وجہ سے اس کی بیوی پر طلاق واقع ہو جائے گی؟ (خدیجہ خانم، بنجارہ ہلز)
جواب: اولاََ تو اس طرح کی قسم نہیں کھانی چاہئے، ایسے فعل کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھا لینا جس سے دوسرے کی حق تلفی ہو، جائز نہیں ہے؛ لیکن اگر کسی نے اس طرح کی قسم کھا لی اور بیوی پاکی کی حالت میں تھی ،تو یہ فقہ کی اصطلاح میں ایلاء ہے، ایلاء کا حکم یہ ہے کہ چار ماہ کے اندر بیوی سے صحبت کر لے اور قسم کا کفارہ ادا کر دے، اگر چار مہینہ گزر گیا اور بیوی سے صحبت نہیں کی تو عورت پر ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی؛ لیکن یہ اس صورت میں ہے جب عورت پاکی کی حالت میں ہو، اگر وہ پاکی کی حالت میں نہ ہو، حیض کے مرحلہ میں ہو اور اس طرح کی قسم کھا لے تو ایلاء نہیں ہوگا، نہ کفارہ واجب ہوگا اور نہ چار ماہ گزرنے کے بعد طلاق واقع ہوگی: وإن حلف لا یقربھا وھی حائض لم یکن مولیا الخ (ردالمحتار: ۵؍۶۶، کتاب الطلاق)
پنشن کی خرید وفروخت
سوال: حکومت کی طرف سے جو پنشن مقرر ہوتی ہے، بعض دفعہ لوگ نقد رقم حاصل کرنے کے لئے اس کو فروخت کر دیتے ہیں؛ تاکہ نقد یک مشت ایک رقم مل جائے، عام طور پر بعینہ اسی مقدار میں فروخت نہیں ہوتی؛ بلکہ کم رقم میں فروخت ہوتی ہے، کیا یہ صورت جائز ہے؟ (شیخ حامد انصاری، چار مینار)
جواب: پنشن کو فروخت کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ خود حکومت کو فروخت کی جائے، یہ صورت جائز ہے؛ کیوں کہ پنشن کی رقم حکومت کی طرف سے تبرع اور حُسن سلوک ہے، اگر حکومت کسی کے مطالبہ پر ایک مشت دے دے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے؛ کیوں کہ جو چیزیں تبرع اور حُسن سلوک کے درجہ میں ہوتی ہیں، ان میں ایک طرف سے کم رقم دی جائے اور دوسری طرف سے اس سے زیادہ رقم سے دستبردار ہوا جائے تو اس کی گنجائش ہے؛ البتہ کسی اور شخص کے ہاتھ بیچنا درست نہیں؛ اس لئے کہ جب تک تبرع پر قبضہ نہ کر لیا جائے، ملکیت ثابت نہیں ہوتی، اور آدمی جس چیز کا مالک نہ ہو، اس کو بیچنا جائز نہیں ہے، نیز اس میں سود کا بھی اندیشہ ہے؛ کیوں کہ خریدار نے جتنی قیمت ادا کی ہے، ہو سکتا ہے کہ اس کو اس سے زیادہ وظیفہ کی رقم مل جائے، اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے کم رقم حاصل ہو، اس کے علاوہ یہ پیسوں کی پیسوں سے اُدھار خریدوفروخت ہے، اور یہ ساری صورتیں سود میں شامل ہیں، ایک ملک کی کرنسی کا اسی ملک کی کرنسی سے تبادلہ ہو اور دونوں میں برابری نہ ہو، ایک طرف سے زیادہ اور دوسری طرف سے کم ہو، یا ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے اُدھار ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
ٹرین کا سامان عملہ کی اجازت سے گھر لے آنا
سوال: ٹرین کے AC ڈبوں میں ریلوے کی طرف سے کمبل، تکیے اور چادریں پسنجر کو دئیے جاتے یں، یہ ٹرین میں استعمال کے لئے ہوتے ہیں، مگر بعض لوگ گھر لے کر آجاتے ہیں، ایسا بھی ہوتا ہے کہ کام کرنے والا عملہ اس کی اجازت دے دیتا ہے، کیا اس کا لینا جائز ہوگا؟ اور اگر ناجائز ہو اور کسی نے لے لیا تو وہ کس طرح اس کی تلافی کر سکتا ہے؟ (محمد الطاف، سکندرآباد)
جواب: مسافروں کو وقتی طور پر جو چیزیں دی جائیں، اس کو گھر لے آنا جائز نہیں ہے، یہ چوری اور غصب ہے، اور ہو سکتا ہے کہ کسی کی انفرادی چیز غصب کرنے کے مقابلہ اس کا گناہ زیادہ ہو؛ کیوں کہ یہ اجتماعی حق کو غصب کرنا ہے؛ اس لئے اس سے بچنا چاہئے، مسلمان تو کیا کسی شریف انسان کو بھی یہ بات زیب نہیں دیتی، اور کام کرنے عملہ کا ریلوے کا سامان لے جانے کی اجازت دے دینا معتبر نہیں؛ کیوں کہ وہ اس کے مالک نہیں ہیں، جو شخص کسی چیز کا مالک نہیں ہواس کے لئے وہ شئی دوسرے کو ہبہ کرنا جائز نہیں ہے اور نہ اس شخص کے لئے اس کا لینا جائز ہے، جس کو ہبہ کیا گیا ہے:ومنھا أن یکون مملوکا للواھب فلا تجوز ھبۃ مال الغیر بغیر اذنہ لاستحالۃ تملیک ما لیس مملوک للواھب، (الفتاوی الھندیہ: ۴؍۳۷۴)
Comments are closed.