ایک حاذق طبیب کی رحلت
(ڈاکٹر فیروز خان صاحب رحمہ اللہ کی وفات(23 دسمبر 2020ء) پر)

محمد رضی الرحمن قاسمی، علیم آباد نمرولی، دربھنگہ
مقیم: ینبع، مدینہ منورہ
سعودی عرب کے وقت کے مطابق دن کے پونے گیارہ بج رہے تھے، ہمارے یہاں چونکہ پہلے سمسٹر کے آن لائن امتحانات چل رہے ہیں، میں ان ہی تیاریوں میں تھا، لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ، زوم ایپ اور کلاس اِیرا (Classera)ویب سائٹ وغیرہ کی کارکردگی چیک کر رہا تھا کہ اچانک موبائل کی اسکرین پر یہ دکھائی دیا کہ ہمارے افراد خانہ کے واٹس ایپ گروپ پر کوئی پیغام آیا ہے، میری اہلیہ نے چھوٹا سا پیغام لکھا تھا، جس کا خلاصہ تھا کہ ہمارے فیملی ڈاکٹر فیروز خان صاحب کی وفات ہوگئی ہے، تھوڑی دیر کے لئے میں شاکڈ رہ گیا، پھر زبان پر آیا: إنا لله وإنا إليه راجعون، اللہ عزوجل مغفرت فرمائے اور اعلی علیین میں جگہ نصیب کرے ۔
راہگیر جب کسی بازار سے گذرتا ہے، تو سڑک کے کنارے دو رویہ دوکانوں میں لگے شیشے میں اس کی تصویر اور اس کا عکس پل دو پل کے لئے آتا ہے، پھر ختم ہوجاتا ہے، زندگی کی بھی حقیقت یہی ہے، ماں کے پیٹ سے جنم لینا درحقیقت موت ہی کی تمہید ہوتی ہے، پیدائش سے وفات کے بیچ کا وقت انسانوں کے لئے اگلی ہمیشہ رہنے والی زندگی (جو موت کے بعد شروع ہوتی ہے) کو کامیاب بنانے کی کوششوں کے لئے اللہ عزوجل کی طرف سے عطا کیا ہوا وقفہ ہے۔ اس وقفہ میں ایک بڑی جماعت تو غفلت ہی میں رہ جاتی ہے اور ساری زندگی یوں ہی گذار دیتی ہے، ایک دوسری جماعت اللہ عزوجل کے فضل سے اپنی فکر کر لیتی ہے اور اس طرح زندگی گزارتی ہے کہ اللہ کا فضل اس جماعت پر متوجہ ہو جائے اور اگلی ہمیشہ کی زندگی بفضل الہی بہتر ہو۔ تیسری ان توفیق یافتہ لوگوں کی جماعت ہے، جو اس وقفہ کو اپنی فکر اور ساتھ ساتھ اللہ عزوجل کے دوسرے بندوں کی فکر میں بھی گزارتی ہے، یہ سب سے خوش نصیب جماعت ہے کہ یہ دوسروں کے لئے نفع بخش بھی ہے۔
تیسری جماعت کے لوگوں کی اللہ عزوجل کے کرم سے آخرت تو بہتر ہوگی ہی، دنیا میں بھی اللہ تعالی ان کے نام کو اچھائی کے ساتھ عرصہ تک زندہ رکھتے ہیں اور بعض لوگوں کے نام اور اچھی شہرت کو ان کی جسمانی زندگی سے کئی گنا زیادہ لمبی زندگی ملتی ہے۔
مرحوم ڈاکٹر فیروز خان صاحب نے میرے علم کے مطابق جس طرح دین داری اور اپنے پیشہ کی اخلاقی قدروں کی رعایت کے ساتھ زندگی گزاری ہے، اس سے توقع ہے کہ اللہ عزوجل کے یہاں تیسری توفیق یافتہ جماعت کے زمرے میں ان کے ساتھ معاملہ ہوگا۔
ڈاکٹر فیروز خان صاحب سے ہماری بچپن کی شناسائی ہے، جہاں تک مجھے خیال آرہا ہے، 1990 ء یا 1992 ء کی بات ہوگی، جب میرے بڑے بھائی حافظ ذکی الرحمن صاحب(ایم بی اے، مقیم : الخبر ، سعودی عرب) -جو اُس وقت چھوٹے تھے- کی طبیعت خراب ہوئی، دربھنگہ کے متعدد ڈاکٹروں سے رجوع کیا گیا، پھر پٹنہ کے بھی کئی ڈاکٹروں سے رجوع کیا گیا؛ لیکن شفا یابی نہیں ہوئی، پھر کسی کے بتانے پر بھائی جان کو ڈاکٹر فیروز خان صاحب کو دکھانے کو لے جایا گیا، اس وقت ان کی کلینک دربھنگہ میں لال باغ پانی ٹنکی کے پاس ہوا کرتی تھی، اللہ عزوجل نے ان کے ہاتھوں شفاء نصیب کیا، ڈیڑھ دو سال سے مختلف ڈاکٹروں کے چکر لگانے کے بعد اللہ عزوجل کو شفاء ڈاکٹر فیروز خان صاحب کے ہاتھوں دینی تھی، سو وہ ملی، پھرایسا ہو گیا کہ ہمارے افراد خانہ کو جب ضرورت ہوتی، ان سے رجوع کر لیا جاتا، اور اکثر اللہ عزوجل ان کے ہاتھوں ہمارے افراد خانہ کو شفا ءبھی عطا کر دیتا تھا، اس بیچ والد محترم حضرت مولانا محمد صفی الرحمن قاسمی صاحب دامت برکاتہم (مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ، دربھنگہ) سے بھی ان کی ملاقات ہوئی اور وہ ایک دوسرے سے قریب ہوئے، یوں ہی چلتا رہا، اور دو چار سالوں میں وہ نہ صرف ہمارے فیملی ڈاکٹر ہوگئے؛ بلکہ ہمارے درمیان معالج اور مریض کے رشتے سے بڑھ کر گھریلو تعلقات ہوگئے، پھر ہماری گھریلو تقریبات میں وہ آنے لگے اور ہم لوگ ان کے یہاں جانے لگے، اس تعلقات کو انہوں نے آخری پل تک بہ حسن و خوبی نبھایا، اللہ عزوجل ہمیں توفیق دے کہ ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہمارے یہ تعلقات یوں ہی استوار رہیں۔
میں نے جو چند خاص باتیں مرحوم ڈاکٹر فیروز خان صاحب میں پائی ، وہ یہ ہیں:
اپنے میدان میں مہارت
وہ ایک ماہر ڈاکٹر تھے، مریض سے تفصیلات پوچھ کر عام طور سے مرض کا ادراک کر لیتے تھے، میں علم طب کا آدمی نہیں ہوں؛ لیکن ان کی اپنے فن اور میدان میں تجربہ کاری جَگ ظاہر تھی اور زبان زدِ خاص و عام تھی، ان کی مہارت و تجربہ کاری کا گُن اپنے پرائے سب گاتے تھے، اللہ عزوجل نے ان کو دست شفاء دے رکھا تھا، عام طور سے مریض اللہ کے فضل سے صحت یاب ہو کر ہی جاتے تھے۔
طبی اخلاقیات کی پاسداری
بہ حیثیت ڈاکٹر طبی اخلاقیات کی پاسداری کا بھی خوب خیال رکھتے تھے، ہر مریض کو وقت دیتے تھے، تمام احوال و کوائف سنتے اور بہت سارے سوالات کر کے ہر طرح اپنی تسلی کرتے تھے، پھر دوا دیتے تھے، آج تک کسی سے یہ سننے میں نہیں آیا کہ بے ضرورت جانچ اور ٹیسٹ وغیرہ کرایا ہو؛ بلکہ کئی بار تو یہ دیکھنے میں آیا کہ کسی مریض نے خود ہی مشورہ دیا کہ ٹیسٹ کرالیں؟ اور ڈاکٹر صاحب کی سمجھ کے مطابق اس کی ضرورت نہیں تھی، تو سختی سے منع کردیا کرتے تھے۔
اگر ان کو یہ محسوس ہوتا کہ کسی مریض کو کہیں ریفر کر دینا چاہئے، تو مریض کی صحت اور معاشی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی دوسرے مناسب ڈاکٹر کی صلاح دیتے تھے۔ جانچ تجویز کرنے کی صورت میں بتا دیتے تھے کہ میرے علم کے مطابق فلاں دو تین جانچ گھر بہتر ہیں، باقی جہاں بہتر لگے کرالیں۔
معاملات کی صفائی
معاملات کی صفائی کا بھی خوب اہتمام رکھتے تھے، جو بات بھی ہو، واضح طور پر کرتے تھے اور دوسروں سے بھی یہی چاہتے تھے۔ ان سے علاج کرانے والے بہت سے مریض ، ان کے افراد خانہ اور بہت سارے اہل تعلق سے میری واقفیت ہے، ہر کسی سے ان کے بارے میں حسن معاملہ کی ہی بات سنی ہے۔
نظم و ضبط
ڈسپلن اور نظم و ضبط کے بہت ہی پابند تھے، وقت پر کلینک آنا، بہت ہی ایمرجنسی صورت حال کے استثناء کے ساتھ، پہلے آنے والے کو پہلے دیکھنا، اہل تعلق اور عام مریض ، سب کو یکساں وقت دینا، یہ سب ان کے لئے معمول کی بات تھی، اور اس کا خوب اہتمام کرتے تھے۔
تعلقات کی رعایت
ڈسپلن کے ساتھ تعلقات بھی خوب نبھاتے تھے، کئی بار ایسا ہوتا تھا کہ اہل تعلق فون کر دیتے تھے کہ آنے میں تھوڑی تاخیر ہو جائے گی، تو کلینک کے وقت کے بعد بھی ان کا انتظار کر لیتے تھے، کئی بار اہل تعلق کو گھر پر بھی ناوقت بلا کر دیکھ لیتے تھے۔
اہل تعلق کا بھی حال یہ تھا کہ گھر میں کسی بھی طرح کا صحت کا معاملہ ہو، ان پر بھروسہ کی وجہ سے ان سے مشورہ لیتے تھے، چنانچہ ہمارے گھر میں بھی یہی معمول تھا، ولادت وغیرہ کے معاملات میں بھی ان سے مشورہ لیا جاتا تھا کہ کون سی لیڈی ڈاکٹر مناسب ہے؛ بلکہ میرے لڑکے دانیال کی ولادت کے موقع پر دربھنگہ شہر کی ایک مشہور لیڈی ڈاکٹر آپریشن کے لئے اتاؤلی ہوگئی تھی، معمول کے مطابق ڈاکٹر فیروز خان صاحب رحمہ اللہ سے رابطہ کیا گیا کہ یہ صورت حال ہے اور ڈاکٹر کا آپریشن پر اصرار ہے، انہوں نے پوری کیفیت جاننے کے بعد کہا کہ میری سمجھ کے مطابق آپریشن کی بالکل ضرورت نہیں ہے، میں شہر کی دوسری لیڈی ڈاکٹر سے بات کرتا ہوں، آپ لوگ مریض کو لے جانے کا انتظام کریں، چنانچہ انہوں نے بات کی اور لے جانے کا انتظام بھی ہوگیا؛ لیکن اللہ عزوجل کو اس اصرار کرنے والی لیڈی ڈاکٹر کی رو سیاہی منظور تھی، تو وہیں نارمل ولادت ہوگئی۔
دینداری
جب سے میں نے انہیں دیکھا اور جانا ہے، تب سے دین کی محبت اور عملی زندگی میں اس کو لانے کے لئے کوشاں پایا ہے، اللہ عزوجل نے آٹھ دس سال پہلے ان کو حج فرض کی سعادت سے نوازا، اس کے بعد سے ان کی زندگی میں دینداری اور جھلکنے اور چھلکنے لگی، روزانہ کلینک کے وقت میں بھی ظہر کی نماز کا آدھے گھنٹے کا وقفہ ہوتا تھا، اذان ہوتے ہی مسجد جاتے ، سکون سے نماز پڑھ کر آتے، پھر باقی مریضوں کو دیکھتے۔ حج کے بعد چہرے پر داڑھی کا نور اور بڑھ گیا تھا، جس سے ان کی شخصیت اور بھی وجیہ و شکیل لگنے لگی تھی۔
لوگوں کی بے عملی پر کڑھتے تھے، کئی بار اس موضوع پر مجھ سے بھی بات ہوئی کہ فلاں فلاں کو تلقین کیا کہ دین کا مطلب موقع بے موقع جذباتی ہونا نہیں ہے؛ بلکہ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اپنی زندگی میں دینداری لاؤ۔
چونکہ اللہ عزوجل نے ہاتھوں میں شفا ء رکھا تھا، تو کبھی کسی مریض کے منہ سے یہ نکل جاتا تھا کہ آپ کی دوا نے اچھا کردیا، فورا ً اس پر رسان سے سرزنش کرتے کہ یقیناً میں نے اپنی سمجھ سے آپ کو بہتر دوا دی تھی اور اس امید پر بھی کہ آپ کو شفا یابی ہوگی؛ لیکن شفا ء دینے والی ذات اللہ عزوجل کی ہے۔
نظافت و نفاست
میری ملاقات کے پہلے دن سے میں نے لباس، کلینک اور گھر ہر معاملے میں انہیں نفیس دیکھا اور پایا ہے، ہمیشہ متوسط درجے کے ہی لباس پہنتے تھے، لیکن نہایت ہی صاف ستھرے اور نفیس، اور حد درجہ سلیقہ سے۔
کلینک متوسط درجہ کا ہے، اور گھر بھی متوسط طبقے کے عام لوگوں سا؛ لیکن فرق یہ ہے کہ نہایت ہی صاف ستھرا، متوسط درجے کے فرنیچر؛ لیکن نہایت ہی سلیقے سے لگے ہوئے، ہر چیز اس ترتیب سے کہ پہلی ہی نظر میں خوش ذوقی اور خوش سلیقگی جھلکے۔ بیس پچیس سال سے میں نے ہمیشہ انہیں جامہ زیب، ان کی کلینک کو بہت ہی مرتب اور صاف ستھرا اور ان کے گھر کو خوش ذوقی کا عکاس ہی دیکھا ہے۔
سفر آخرت
چند سال پہلے قلب کا دورہ پڑا تھا، چند دن انتہائی طبی نگہداشت والے مرکز میں رہے، پھر تندرست ہوکر گھر آگئے، چند دن کے بعد جب میری والدہ معمول کے چیک اپ کے لئے گئیں، تو بتانے لگے کہ اب اللہ کے کرم سے اچھا ہوں، اور خود اپنی ہی دوا کھا رہا ہوں، جب دوسروں کو اس بھروسہ پر وہی دوائیں دیتا ہوں کہ اللہ عزوجل شفاء دے گا، تو پھر میں کیوں نہ اسی بھروسہ پر وہ دوائیں استعمال کروں۔
دو تین دن پہلے امی جان اور میری اہلیہ معمول کے چیک اپ کے لئے گئیں تھیں، میری اہلیہ نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کو چونکہ پھر قلب کا شدید دورہ پڑا تھا؛ اس لئے وہ کلینک نہیں آرہے ہیں، ان کے ہونہار فرزند ڈاکٹر ساجد ہی اپنی اور ڈاکٹر فیروز خان صاحب کی، دونوں کلینک پر بیٹھ رہے ہیں، البتہ معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر فیروز خان صاحب پہلے سے بہتر ہیں، چند دن آرام کر کے پھر کلینک آنے لگیں گے، ابھی بھی مشورے کی ضرورت ہونے پر ڈاکٹر ساجد فون اور واٹس ایپ پر ان سے مشورہ لیتے ہیں۔
کیا پتا تھا کہ یہ مسیحا سفر زندگی سے تھک گیا ہے، اب اپنے رب کی رحمتوں کے سائے میں سکون سے سونا چاہتا ہے، چنانچہ پھر قلب کا دورہ پڑا؛ لیکن اس مرتبہ ٹھیک ہونے کے لئے نہیں؛ بلکہ ان کو رب رحیم و کریم کے حضور لے جانے کے لئے، بندہ کا کام ہی کیا ہے، جب رب بلائے، سب کچھ چھوڑ کر اس کی طرف چل پڑنا، سو وہ چل پڑے۔
آج 24 دسمبر 2020ء کو ظہر کی نماز کے بعد نماز جنازہ اور تدفین ہے، ان کی وصیت کے مطابق والد محترم حضرت مولانا محمد صفی الرحمن قاسمی دامت برکاتہ ان شاء اللہ عزوجل نماز جنازہ پڑھائیں گے، پھر اس حاذق طبیب کو قبر کی آغوش میں ڈال دیا جائے گا۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، ان کی قبر کو جنت کا باغ بنائے، اور جنت الفردوس میں انہیں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین
اللہ تعالی ان کی اہلیہ ، ان کے بھائی بہنوں، ان کے بچوں ڈاکٹر ساجد و برادران، ان کی بچیوں، رشتہ داروں اور تمام اہل تعلق کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ میں ان تمام کی خدمت میں بادیدۂ نم تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہوں۔
۔۔۔۔
محمد رضي الرحمن القاسمي
أستاذ اللغة العربية و الدراسات الإسلامية
رضوى العالمية ينبع،
المملكة العربية السعودية
Comments are closed.