قائداعظم اور کشمیر

عبدالرافع رسول
تصور پاکستان کے خالق علامہ محمد اقبال جو بذات خود ایک کشمیری النسل تھے اور انہیں ہمیشہ اس پر فخر رہا ہے اور تصور پاکستان خطبہ آلہ آباد 1930 سے قبل بھی وہ ہندوستان میں کشمیریوں کی تحریک حریت کے داعی و علمبردار رہے اور اولا آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سیکرٹری اور بعد ازاں کشمیر کمیٹی کے صدر بھی رہے علامہ اقبال نے ہی 14اگست1934 کو کشمیریوں کیسا تھ اظہار یکجہتی منانے کیلئے پورے مسلمانان ہند کو دعوت دی تھی۔1931 کے واقعات جن میں سری نگر میں 22افراد نے جام شہادت نوش کیا تھا اس واقعہ کے صدائے بازگشت کو ہندوستان تک پہنچانے میں علامہ اقبال کا بہت بڑا کر دار تھا۔ حضرت علامہ محمد اقبال نے جب1930میں مسلمانان ہند کیلئے ایک الگ وطن کا مطالبہ پیش کیا تھا اسی دوران انہوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ معرض وجود میں آنے والی نئی مملکت اسلامیہ میں اگر کشمیر شامل نہ کیا گیا تو اس مملکت کو بنانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت علامہ محمد اقبال کشمیر کو مجوزہ مملکت اسلامیہ کی شہ رگ سمجھتے تھے کہ نہیں۔
خود قائد اعظم محمد علی جناح نے 1926 میں کشمیر کا دورہ کیا اور وہاں کشمیری زعما سے ملاقاتیں بھی کیں اسوقت اگرچہ کشمیر میں تحریک حریت کے خدوخال تو زیادہ نمایاں نہیں تھے لیکن کشمیری مسلمانوں کی حالت زار درگرگوں تھی اور انہیں ہندوں کے مقابلے میں دوسرے تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا قائداعظم کا اس صورت حال کا قلق تھا چونکہ قائد اعظم ہندوستان میں صرف مسلم لیگ کے ہی لیڈر نہیں بلکہ وہ اسلام نشاط ثانیہ کے ابھرتے ہوئے راہنما کا روپ اختیار کرتے جا رہے تھے۔دسمبر1926 میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں کشمیر میں زرعی اصلاحات ’’ ایگری کلچر ریلیف ایکٹ‘‘کے بارے میں ایک قرار داد بھی پیش ہوئی۔ قائدا عظم دوسری بار1929 تیسری بار 1936 اور چوتھی بار1944 میں کشمیر گئے جہاں آپ نے نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس کے اجلاسوں سے خطاب بھی کیا اور کم و بیش ڈیڑھ ماہ کے لگ بھگ کشمیر میں قیام کیا۔ قائداعظم 47-1946 میں بھی کشمیر جانا چاہتے تھے لیکن مصروفیات کے باعث نہ جا سکے اس میں کوئی شک نہیں کہ قائد اعظم ریاستوں کے معاملات میں مداخلت کے حامی نہیں تھے لیکن وہ ان ریاستوں کے حقوق کے داعی و علمبردار تھے جب کانگریس نے یہ کہا کہ ہندوستان میں صرف دو قوتیں ہیں ایک برطانوی حکومت اور دوسری کانگریس تو اسکے جواب میں قائداعظم نے فرمایا تھا کہ نہیں ہندوستان میں چار سیاسی قوتیں ہیں انگریز، کانگریس، مسلم لیگ اور ہندوستانی ریاستیں جو571 کے لگ بھگ اور ہندوستانی آبادی کا ایک چوتھائی سے زیادہ تھی جس میں کشمیر بھی شامل تھا۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا۔
قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کبھی نہیں قرار دیا ہمیں کشمیر اور قائد اعظم کے تعلق کو اور زیادہ گہرائی اور تفصیل سے دیکھنے کی ضرورت ہے ایک کالم میں اس کا احاطہ تو ممکن نہیں ہے اس کیلئے طویل مشق سخن درکار ہے لیکن اجمالی طور پر چند واقعات کا اعادہ اس مسئلے کو سمجھنے میں ممد و معاون ہو سکتا ہے۔رہا سوال یہ کہ کیا قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا یا نہیں شہ رگ سے اگر کوئی صرف یہ مراد لیتا ہے کہ قائد اعظم نے ایک استاد کی طرح بچوں کو سمجھانے کیلئے پاکستان کو ایک انسانی جسم بنا کر تمام اہم حصوں کی نشاندہی کے طور پر وضاحت کی ہو کہ یہ شہ رگ ہے، یہ دل ہے، یہ جگر ہے تو یقیناقائد اعظم نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا ہو گا اور نہ ہی تاریخ کی کتب میں اسطرح کی کوئی تفصیل موجود ہو گی لیکن اگر کشمیر کو پاکستان کا جزو لازم یا لاینفک قرار دینے کی بات ہے تو قائداعظم نے کشمیر کو ہمیشہ شہ رگ کے طور پر لیا ہے قائد اعظم ایک آئینی و قانونی شخصیت تھے۔جو3 جون1947 کے تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت ریاستوں کی آزادی اور الحاق کے بارے میں جو اصول طے ہوئے تھے۔ان سے یہ بات واضح طور پر مترشح ہوئی ہے کہ کشمیرکو پاکستان کا حصہ بننا تھا لیکن جب کشمیریوں کو حق خود اردیت کا موقع نہیں دیا گیا اور کشمیریوں نے اولا 19جولائی1947 کو الحاق پاکستان کی قرار داد منظور کر لی اور ثانیا 24 اکتوبر 1947 کو سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت میں ایک باغی حکومت کا قیام عمل میں لایا تو 27اکتوبر1947 کو ہندوستان کی افواج نے کشمیر میں مداخلت کا آغاز کیا تو قائد اعظم نے فوری طور پر پاکستانی کمانڈر انچیف کو حکم دیا کہ وہ اپنی افواج کشمیر میں داخل کر دے لیکن ایسا نہ کیا گیا اس کی وجوہات اور تفاصیل کا یہ کالم فی الوقت متقاضی نہیں ہے لیکن قائداعظم کے اس حکم اور کمانڈر انچیف کی طرف سے حکم عدولی کے متعدد مستند حوالے موجود ہیں قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی کتاب مائی برادر میں بھی قائد اعظم کی کشمیر سے وابستگی اور تشویش کے بارے میں جو اشارہ دیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائد اعظم کشمیر کے بارے میں کس حد تک فکر مند تھے آپ لکھتی ہیں کہ قائد اعظم کے آخری ایام میں ان پر جب غنودگی اور نیم بے ہوشی کا دورہ پڑتا تھا۔آپ نے کہا کہ کشمیر کو حق ملنا چاہیے آئین اور مہاجرین کے الفاظ استعمال کیے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے یا نہیں میرے خیال میں بہت ہی کم لوگوں کو اس سے اختلاف ہو گا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے پاکستان اور ریاست جموں وکشمیر کا محل وقوع ایک ایسی جغرافیائی، معاشی، اقتصادی، سماجی، مذہبی اور تاریخی طور پر جزو لاینفک حیثیت کا حامل ہے کہ اگر خدانخواستہ قائد اعظم کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ نہ بھی قرار دیتے تب بھی اس حقیقت سے سرمو اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔
جب 27اکتوبر 1947کوبھارتی فوجیں ریاست جموں و کشمیر میں داخل ہوئیں اور تقسیم ہند کے ایجنڈے کے برخلاف کشمیری مسلمانوں کی ڈوگرہ راج سے آزادی کی امنگوں کا گلا گھونٹ دیا گیا جبکہ کشمیری عوام نے تو تقسیم ہند سے قبل ہی 19 جولائی 1947 کو سرینگر میں کشمیری مسلمانوں کے نمائندہ اجلاس میں جموں و کشمیر کا الحاق پاکستان سے کرنے کی متفقہ قرارداد منظور کر کے اپنی رائے کا بخوبی اظہار کر دیا تھالیکن عوامی امنگوں کے بر خلاف ریاست جموں و کشمیر میں برطانوی وائسرائے ہند لارڈ مانٹ بیٹن کی پیشہ ورانہ بدیانتی کو بخوبی محسوس جا سکتا ہے ۔ اندریں حالات ، آئیے دیکھتے ہیں کہ تقسیم ہند کے موقع پر ریاست جموں و کشمیر میں آنجہانی بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور آخری برطانوی وائسرائے ہند لارڈ مانٹ بیٹن کی سازشوں کے پس پردہ محرکات کیا تھے جس کی لئے جواہر لال نے مانٹ بیٹن کو برصغیر میں برطانوی حکومت ہند کا اقتدار ختم ہونے کے باوجود کشمیر میں خفیہ ایجنڈے کی تکمیل کیلئے آزاد بھارت کا پہلا گورنر جنرل بنانے کا فیصلہ کیا ۔
اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تقسیمِ ہند سے قبل مہاراجہ اور نہرو کے مابین خو شگوار تعلقات قائم نہیں ہو سکے تھے کیونکہ مہاراجہ ہری سنگھ اس وقت بھارت سے کشمیر کا الحاق کرنے کے بجائے خود مختار کشمیر کے لئے کام کر رہے تھے۔ مہاراجہ کے سابق وزیر اعظم رام چندر کاک کے نہرو سے کشیدہ تعلقات تھے چنانچہ مونٹ بیٹن نے تقسیم ہند سے قبل وائسرائے کی حیثیت سے کشمیر کا دورہ کیا اور مہاراجہ کو نہرو سے سے ملاقات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن مہاراجہ یا پنڈت کاک نہرو سے ملاقات پر تیار نہیں ہوئے۔ لہذا مانٹ بیٹن نے مہاراجہ کو رام کرنے کے لئے گاندھی جی کی عوامی شہرت کو استعمال کرتے ہوئے تقسیم ہند سے قبل یکم تا چھ اگست 1947 میں گاندہی جی کے دورہ کشمیر کا انتظام کیا ۔ ان دنوں قائد اعظم بھی کشمیر کا دورہ کرنا چاہتے تھے لیکن مانٹ بیٹن نے انہیں کشمیر کے دورے کی اجازت نہیں دی۔ گاندھی جی نے کشمیر روانگی سے قبل نہرو اور سردار پٹیل سے مشاورت کی۔ دونوں لیڈروں کا خیال تھا کہ کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کے لئے رام چندر کاک کو مہاراجہ کے وزیر اعظم کی اہم پوسٹ سے ہٹانا ضروری ہے چنانچہ گاندہی جی کے دورے کے بعد وائسرائے ہند کی مدد سے پنڈت کاک کی جگہ بھارت حمایت یافتہ مہاجن کو آگے لایا گیا ۔ اِس سازش کا تذکرہ کاک کی برطانوی بیوی مارگریٹ کاک نے لندن میں سر اسٹیفورڈ کرپس کے نام اپنے ایک کانفیڈنشل مکتوب میں کیا جس کے بیس پیرا گراف میں سے گیارہ پیراگرافس حذف کر دیئے گئے ہیں۔
یہ حذف شدہ مکتوب انڈیا آفس لائبریری کے ریکارڈ کا حصہ ہے جس میں مارگریٹ لکھتی ہیں کہ ان کے شوہر پنڈت رام چندر کاک کو مستعفی ہونے پر دو بھارتی گروہوں نے مجبور کیا اور دونوں کا مقصد یہ تھا کہ کشمیر کی آزادی کیلئے کام کرنے والے رام چندر کاک کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا کران کی جگہ بھارت حمایت یافتہ شخص کو مہاراجہ کا وزیراعظم بنایا جائے۔ اِن میں سب سے اہم گروپ گرو جی کی قیادت میں بھارتی انتہا پسند تنظیم RSS کے مسلح رضاکاروں کا تھا جسے اندرون خانہ بھارتی انتہا پسند وزیر داخلہ سردار پٹیل کی حمایت حاصل تھی اور جس کے مسلح رضاکاروں نے مہاراجہ کی ڈوگرہ فوج کیساتھ مل کر ریاست جموں و کشمیر میں قتل عام اور خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کرکے کشمیری مسلمانوں کو پاکستان میں دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیاجبکہ دوسرا گروپ سیاسی مشاورت کے حوالے سے بھارت سے الحاق کیلئے مہاراجہ پر دبا ڈالتا رہا جس کا انکشاف آر ایس ایس کے ایک سابق چیف سدھرشن جی نے 2005 میں آر ایس ایس کے وجے دشمی کنونشن میں یہ کہتے ہوئے کیا کہ مہاراجہ کشمیر ریاست جموں و کشمیر کا بھارت سے الحاق نہیں چاہتے تھے لیکن آر ایس ایس کے سابق چیف گروجی نے مہاراجہ پر دبا ڈال کر انہیں الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے پر مجبور کیا تھا ۔
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ لارڈ مانٹ بیٹن کی جانب سے بھارت کے ساتھ کشمیر کے مشکوک اورفراڈ الحاق کی دستاویز پردستخط کرنے سے قبل ہی بھارتی فضائیہ کے D.C-3 طیاروں نے سکھ رجمنٹ کے فوجیوں کو ضروری جنگی ساز و سامان کے ساتھ سری نگر کے ہوائی اڈے پر اتار کر 26 اکتوبر کی صبح ہی سے ہوائی اڈے کا کنٹرول سنبھال لیا تھا ۔ بھارتی فوج نے کشمیر کے طول و ارض میں کشمیریوں کے قتل عام کے ذریعے جس دہشت گردی کا مظاہرہ کیا اس کو ممکن بنانے کیلئے مانٹ بیٹن جو تب بھارت کے گورنر جنرل کے طور پر کام کر رہے تھے کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت میں حالت جنگ کا اعلان کئے بغیر مانٹ بیٹن کے حکم پر ہی تمام بھارتی مسافر بردار ہوائی جہازوں کو ہنگامی بنیادوں پر مسافروں کو ہوائی اڈوں پر چھوڑ کر کشمیر میں فوجی کمک پہچانے کے کام پر لگا دیا گیا جبکہ مسافروں کو منزلِ مقصود پر پہنچانے کی ذمہ داری برطانوی ائیر لائن کے چارٹرڈ طیاروں کے سپرد کی گئی۔ اس اقدام سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مانٹ بیٹن اور جواہر لال نہرو کے گٹھ جوڑ اور سازشی عمل کا ریاست جموں و کشمیر کے بھارت کیساتھ عارضی الحاق کا کس حد تک دخل تھا۔سردار پٹیل نے کشمیر میں بدامنی کی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی انتہا پسند ہندو دہشت گرد تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (RSS ) کے ہزاروں دہشت گر دوں کو سکھ انتہا پسند جتھوں کے ہمراہ کشمیر میں داخل کیا جنہوں نے مہاراجہ کشمیر کی ہمدوری حاصل کرنے کیلئے ڈوگرہ فوج کے ساتھ مل کر کشمیریوں کا قتلِ عام کیا اور مہاراجہ کے دربار میں اہم پوزیشن اختیار کرکے مہاراجہ کشمیر کو ریاست جموں کشمیر کے بھارت کیساتھ نام نہاد الحاق پر مجبور کر دیا ۔
حقیقت یہی ہے کہ نہرو ، مانٹ بیٹن سازش کے باعث کشمیر میں بھارتی فوجی مداخلت کو دھویں کے بادلوں میں چھپایا گیا ہے۔ بھارتی حکومت کا یہی موقف تھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے 24 اکتوبر کو افغان قبائل کے سری نگر کے مضافات میں پہنچتے ہی بھارتی حکومت سے فوجی مدد کی درخواست کی تھی جسکی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوتی کیونکہ قبائلی لشکرتو کشمیری مسلمانوں کو قتل عام سے بچانے کیلئے 26 تاریخ تک تو بشکل تمام بارہ مولا کے مضافات تک ہی پہنچے تھے۔ خود مہاراجہ کے صاحبزادے کرن سنگھ نے اپنے مقالے میں اِس امر کی تصدیق کی ہے کہ مہاراجہ نے سالانہ دربار پروگرام کے مطابق 24 اکتوبر کو دریائے جہلم کے کنارے سری نگر کے شہری محل میں ہی منعقد کیا تھا۔ جبکہ مانٹ بیٹن کے پریس سیکریٹری ایلن کیمبل جانسن نے اپنی کتاب مشن ود مانٹ بیٹن میں لکھا ہے کہ 24 اکتوبر کی رات مانٹ بیٹن تھائی لینڈ کے وزیر خارجہ کے اعزاز میں ایک سرکاری ڈنر میں مصروف تھے جب نہرو نے انہیں بتایا کہ افغان قبائل نے سری نگر پر حملہ کر دیا ہے چنانچہ اگلے دن صبح یعنی 25 اکتوبرنئی دہلی میں کیبنٹ ڈیفنس کمیٹی کی میٹنگ ہوئی جس میں مانٹ بیٹن نے مشورہ دیا کہ ایسا کرنے سے پاکستان بھی کشمیر میں فوجی مداخلت کریگا جبکہ دونوں جانب سے انگریز فوجی افسران کی جبگ میں شمولیت مناسب نہیں ہے اس لئے پہلے کشمیر کے عارضی الحاق کی بات کی جائے۔
دریں اثنا بھارتی مشیر وی پی مینن نے بذریعہ طیارہ 25 اکتوبر کو سری نگر پہنچ کر مہاراجہ کے نئے وزیر اعظم مہر چند مہاجن سے ملاقات کی لیکن مہاراجہ نے ئی دہلی سے لائی ہوئی دستاویز پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ بہرحال مہاراجہ کو سری نگر چھوڑ کر جموں جانے کا مشورہ دیا گیا جسے مہاراجہ نے پس و پیش کے بعد تسلیم کر لیا۔ مہاراجہ 26 اکتوبر کی رات جموں پہنچے تھے جبکہ مینن دوبارہ نئی دہلی گئے جہاں مبینہ طور پر مہاراجہ کی جانب سے عارضی الحاقِ کشمیر کی دستاویزات ڈرافٹ کی گئی جس پر مانٹ بیٹن نے مہاراجہ کے دستخط کرائے جامے کے بعد لکھا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ریاست میں امن قائم ہونے کے بعد کشمیری عوام کی رائے سے کیا جائے گا۔اِ سی اثنا میں بھارت مسئلہ کشمیر خود اقوام متحدہ میں لے گیا لیکن اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مطابق کشمیریوں کو حق خوداردیت دینے اور کشمیر میں رائے شماری کرانے کی قراردادپر دستخط کرنے کے باوجود آج تک گریزاں ہے ۔ بھارتی افواج نے کشمیر میں جو مظالم ڈھائے ہیں اس کی مثال خطے کی تاریخ میں نہیں ملتی۔بھارتی افواج آج بھی ٹارچر سیلوں میں کشمیری نوجوانوں کے قتل عام اور بدترین انسانی سلوک میں ملوث ہے جبکہ کشمیری خواتین کیساتھ غیرانسانی اور غیر اخلاقی سلوک روا رکھا جا رہا ہے ۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایشیا واچ اور دیگر تنظیموں نے گذشتہ دو عشروں میں اپنی تحقیقی رپورٹوں میں بل خصوص کشمیری خواتین اور نوجوانوں پر ہونے والے جن انسانیت سوز مظالم کی تفصیل بیان کی ہے اسے پڑھ کر تو شیطان بھی شرماتا ہے۔

Comments are closed.