مغربی بنگال الیکشن اور ہماری سیاست

ڈاکٹر عابد الرحمن ( چاندور بسوہ)
چند ماہ میں مغربی بنگال میں الیکشنس ہونے کو ہیں ، تمام ہی سیاسی پارٹیاں تیاریوں میں جٹ گئی ہیں ۔ مغربی بنگال میں مسلم آبادی تقریباً ستائیس فیصد ہے اور یہ پوری آبادی کانگریس لیفٹ اور ترنمول کانگریس کو ووٹ کرتی آئی ہے ۔کانگریس کے بعد لیفٹ فرنٹ کے 34 سالہ طویل دور اقتدار کا ایک اہم ستون یہی مسلم آبادی تھی اسی طرح ممتا دیدی کے دس سالہ دور اقتدار کابھی ایک ستون یہی مسلم آبادی ہے۔ لیکن آزادی کے بعد سے ان دھرم نرپیکش پارٹیوں کے اقتدار کے باوجود مسلمانوں کوصوبائی سیاست میں متناسب حصہ داری و نمائندگی نہیں مل پائی ہے ۔ آبادی کے تناسب سے بنگال اسمبلی کی کل 294 سیٹوں میں مسلمانوں کی 79 سیٹیں بنتی ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہو پایا پچھلے دو انتخابات میں مسلم نمائندگی 59 سیٹیں ہی رہیں جو کہ کل سیٹوں کا بیس فیصدی ہے چلو ٹھیک ہے یہ تناسب قومی سطح اور دیگر ریاستوں کی طرح بہت مختلف نہیں ہے لیکن اس کے باوجود یہاں کے مسلمانوں کی سماجی تعلیمی اور معاشی حالت ملک کی دوسری ریاستوں کے مسلمانوں سے اچھی نہیں ہے یعنی ان سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کی سماجی تعلیمی اور معاشی ترقی کے لئے اتنا کام نہیں کیا جتنا ان کے ووٹوں سے اقتدار کا مزہ لوٹا ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان سیاسی پارٹیوں کے تنظیمی ڈھانچے میں مسلمانوں کا فیصد انتہائی کم ہے یعنی جو کوئی مسلمان الیکشن جیتتا ہے وہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح پارٹی کے نہیں بلکہ اپنے بل پر جیتتا ہے یعنی مسلمان متحد طور پر الیکشن لڑیں اور متحد طور پر ووٹنگ کریں تو جیت کا پرسنٹیج بڑھا یا جا سکتا ہے۔ضروری ہے مسلم سیاست بنگال میں یہی کام کرے ۔ جو سیٹیں ہم پہلے سے جیتتے آرہے ہیں انہیں کو اپنے نام کرنے پر توجہ مرکوز کر نے کے بجائے وہاں کی سیاست میں متناسب نمائندگی کا حصول اور وہاں کے مسلمانوں کے لئے یکساں مواقع کی فراہمی کو اپنی پہلی ترجیح بنائے ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بنگال میں کم ماز کم ایک سو پچیس سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمان فیصلہ کن حیثیت کے حامل ہیں۔ یعنی جہاں سے ہم جیتتے آئے ہیں وہاں تو جیت ہی سکتے ہیں لیکن دیگر سیٹوں پر ہماری سیاست کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ وہاں یا تو ہماری پسند کے امیدوار کی فتح کا سامان کرے یا ہماری مخالفت کرنے والے امیدوار کی ہار کا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق 2016 کے اسمبلی انتخابات میں مذکورہ 125 سیٹوں میں سے اکیلے ترنمول کو نوے سیٹیں ملی تھیں لیکن 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں یہ مساوات الٹی ہوگئی اور مسلم اکثریتی حلقہ ہائے انتخابات سے بی جے پی کے امیدوار کامیاب ہوئے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس کی دو اہم وجوہات رہیںایک تو یہ کہ بی جے پی نے ہندو ووٹوں کواپنے حق میں بہت مضبوطی سے پولرائز کیا اور دوسرے یہ کہ مسلم ووٹ کانگریس ترنمول کانگریس اور لیفٹ میں تقسیم ہو گئے ۔ یعنی یہاں مسلمانوں کو سیاسی طور پر متحد کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہندوؤں کا پولرائزیشن اور ریورس پولرائزیشن روکنا ۔ عام طور پر ہماری سیاست کے شور میں ہندوؤں کے ریورس پولرائزیشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے لیکن یہاںایک اور خطرہ درپیش ہے کہ پہلے ہی تین خیموں میں بٹے مسلمان مزید تقسیم ہو سکتے ہیں ۔ اگر ہم صرف یہ سوچ کر ہی سیاست کریں کہ ہمارے لئے سبھی پارٹیاں برابر ہیں تو یہ بھی ہمارے لئے ٹھیک نہیں ہے ۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم نہ صرف اپنی نمائندگی بڑھانے کی فکر کریں بلکہ ہمارے مخالفین کو روکنے کے لئے بھی بہترین تدبیر کریں، دیکھنے میں آ رہا ہے کہ جہاں بھی بی جے پی کا گراف بڑھا ہے مسلم نمائندگی کم ہوئی ہے مسلمانوں کی سیاسی وقعت کم ہوئی ہے لہٰذا اپنی سیاسی وقعت بڑھانے کے لئے بی جے پی کو روکنا بھی ہمارے لئے ضروری ہے ۔مسلمان بی جے پی کو شاذ ونادر ہی ووٹنگ کرتے ہیں اور بی جے پی بھی مسلم ووٹوں کی پروا نہیں کرتی وہ تو صرف ہندوؤں کو مسلمانوں سے ڈرا کر اپنی طرف کھینچتی اور مخالفین پر مسلم منھ بھرائی کا الزام لگا کر ان سے بدظن کرتی ہے ، بنگال کے لئے بھی بی جے پی کا جو پلان میڈیا میں آیا ہے اس میں کسان ادیواسی مزدورو اور پچھڑے طبقوں کا ذکر تو ان سے تعلقات استوار کرنے کی بات کی گئی ہے لیکن مسلمانوں کا کوئی ذکر نہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسی سیاسی چال چلیں کہ ہندو بی جے پی کی طرف راغب نہ ہوں پچھلے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی نمایاں کامیابی اس بات کی غماز ہے کہ اس نے بنگلہ دیش بارڈر سے(مسلمانوں کی ) دراندازی ،گایوں کی اسمگلنگ ، شہریت ترمیمی قانون اور آسام کی طرح یہاں بھی این آر سی کے نفاذ کے نام اور ممتا بنر جی پر مسلمانوں کی منھ بھرائی ( Muslim appeasement)کا الزام لگا کر جو جال بچھایا تھا بنگال کے ہندوؤں کی بڑی اکثریت اس میں پھنس چکی ہے ۔ ایسے میں ہماری سیاست کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسی سیاست کریں کہ بی جے پی کی طرف ہندو پولرائزیشن اور ریورس پولرائزیشن ہی نہ ہو بلکہ اس کے ذریعہ پھیلائے گئے جال میں جو لوگ پھنس چکے ہیں وہ بھی باہر نکلیں ۔ اگر ہماری سیاست یہ کام نہیں کرسکتی ، صرف مسلم اکثریت والی سیٹوں کو اپنے نام کرنے کے چکر میں مسلم ووٹوں کی مزید تقسیم کو اور ریورس پولرائزیشن کی صورت بی جے پی کو ہونے والے سیاسی فائدے کو خاطر میں نہیں لاتی تو یہ مسلم سیاست کی فتح نہیں بلکہ شکست فاش ہوگی ۔اس سے بہتر تو یہی ہوگا کہ مغربی بنگال کے مسلمانوں کو ان کے حال پر ان کی سیاسی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے ۔ [email protected]

 

Comments are closed.