کشمیرمیں ڈی ڈی الیکشن۔۔ناداں سجدے میں گرے جب وقت قیام آیا

عبدالرافع رسول
سوال یہ ہے کہ ابنائے ملت اپنی ذمہ داریاں پہنچانابھول کیوں گئے ،کیوںوہ اتنے شپرہ چشم بن چکے ہیں کہ اپنے ازلی دشمن کی قصیدہ خوانی میں مست ہوکرسردھن رہے ہیں، کیاانہیں معلوم نہیں کہ کشمیرکی بھارت نواز جماعتیں دراصل کشمیرمیں بھارت کے کھونٹے ہیں کہ بھارت کے مفادات انہی کھونٹوں سے بندھے ہوئے ہیں، انہیں یہ بات اب تک سمجھ کیوں نہیں آجاتی کہ ہندوستان کے وفادارکشمیرکی بھارت نواز تنظیموں اوربھارتیہ جنتاپارٹی اورگانگریس میں کوئی فرق نہیں۔مئوخرالذکربلاواسطہ بھارت کی وفادارجماعتیںہیں جبکہ اول الذکربالواسطہ اپنی وفاداری بھارت کی دہلیز پرسجدہ ریز ہے ۔کشمیرکی بھارت نوازجماعتوں کی قوم کاشمرسے بدترین دھوکہ بازی سے ابنائے ملت ناواقف اورنابلدہیں۔ انہیں یہ بات اب تک سمجھ کیوں نہیں آئی کہ بھارتی مفادات کے دم بھرنے والے یہ وہی ہیںکہ جنہوںنے ملت اسلامیہ کشمیرکی ساکھ بگاڑنے میں سات دہائیاں صرف کی ہیں،اگران کی سیاہ کاریاں جاری نہ رہتی تو آج قوم کا وقار خاک آلود نہ ہوتا۔ ان کایہ سیاہ کردارابنائے ملت سے سنجیدہ غور و فکر اور ذمہ دار فیصلہ سازی کاتقاضاکررہاہے ۔افسوس یہ ہے کہ ڈی ڈی الیکشن میں شریک کشمیری ایک طرف بھارت نوازسیاسی ٹولے کی پوجا کرتے ہیں لیکن اسی سانس میںشہداء کی مدح سرائی بھی کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیااہل کشمیرنے ڈی ڈی الیکشن میںدھڑادھڑووٹ ڈالنا تیس برس کی دشت آزادی کی سیاحی سے توبہ تائب ہونے اورروشنی کی کرنوں سے منہ چھپاکرشب دیجورکی طرف گامزن ہونے کا مظہرتھا۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس طرزعمل سے ان پر ایک عجیب لطف انگیز سرشاری طاری تھی کہ بندہ سرپکڑ کربیٹھ جاتاہے۔ اسلامی تعلیمات چھوڑ کریہ وکھرے وکھرے رنگ اپنانا ،نئے فتنوںمیں پڑجانا، نئے افکار ونظریات اختیارکرنے سے کسی بھی غلام قوم کوذلت کے سواکچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔اہل کشمیرکے افعال واطوار سے اسے ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے دورجہالت واپس لوٹ آیاہے اورہم اسی قبیل سے تعلق رکھنے والوںمیں سے ہیںاورہم بلا تکلف ایک ایسے معاشرے میں سرگرم سفر عمل ہیںکہ جہاں اتصال اور تزاحم سے ہم خیرسے لاخیرہوجاتے ہیں اورشرمیں پڑے ہوئے ایک نئی بولی کو وجود بخش ر ہے ہیں۔زندگی کا حقیقی منصب اور افادیت اس کے بہترین نمونوں سے طے پاتے ہیں۔
غلامی کے گیت گانے کے بجائے آج کے درپیش چیلنجز اور آئندہ کے امکانات میں پل باندھنے کی ضرورت ہے۔جس کے لئے درس دیاگیاہے کہ’’وابستہ رہ شجرسے امیدبہاررکھ‘‘ اور’’بانڈ پاتھروں‘‘ کے بجائے اپنے آپ کو راست فکر و نظر کے ایک بڑے عدسے کی مدد سے سمت دینے کی ضرورت ہے۔تحریکوں کاتقاضاہوتاہے کہ باہم الفت ومحبت کے ساتھ ایک ہی سمت اختیارکرکے گامزن رہواورباہمی کدورتوں او نفرتوں سے اجتناب کرو۔انقلابی تحریک مسلسل ریاضت اور مجاہدے کانام ہوتاہے ۔ہم فانی انسانوں کو موت سے مفر نہیں۔ اس لئے آنے والی نسلوں کو’’میں غلام ان غلام ہوں‘‘کاسبق پڑھاکربھارت کی غلامی میںہی قانع رہنے کے گرسکھانا جرم عظیم ہے ۔ یہ فکر دامن گیررہے کہ کیسے غلامی سے نجات پاکرہماری نسل کی آزادی اورتوقیرکے مکروفریب کا جال پھیلانے کے لئے مودی کی فتنہ پروری، فاشزم اور ہندواحیائیت کو سمجھاجائے اس میں اسلامیان کشمیرکے لئے بے پناہ درس پنہاہے ۔
سب سے بڑاسبق جواس میں موجودہے وہ یہ ہے کہ یہ مستقبل کاہندوستان ہے کہ جوصدیوں سے بھارت میں رہ رہے مسلمانوں کوخم ٹھونک کر قوت و طاقت سے چلینج کر رہاہے کہ یہ تمہاری نہیں بلکہ یہ ہماری دھرتی ہے ۔ ایک طرف یہ بلیغ اشارے اوردوسری طرف ہم اپنی تحریک اہمیت کھو رہے ہیں۔’’ناداں سجدے میں گرے جب وقت قیام آیا‘‘یہ زریں الفاظ ہم پرصادق آرہے ہیں۔یہ کرتے ہوئے ہم اپنے شہدائے کی پاک روحوںکو مجروح کررہے ہیں اوراپنے بطل حریت کوشیہ پر دھکیلتے چلے جارہے ہیں۔خون سے رنگین اپنی تحریک کی ہر اینٹ بکھرکرہم کیاحاصل کرناچاہتے ہیں۔چھوٹے چھوٹے مفادات اور ذاتی اغراض کیلئے پوری قوم اپنی کایاپلٹ رہی ہے ۔ایسی کایاپلٹی قوم بنی اسرائیل کے سواکسی اورقوم میںنہیں دیکھاگیا۔
آپ ان لوگوں سے سوال کریں کہ تم یہ کیاکررہے ہوتوان میں سے شکم پرستی کے بغیر کوئی جواب نہیں ملتا۔لیکن دیکھنایہ ہے کہ ہندوراشٹر کے ساتھ ہم نوالہ اور ہم پیالہ بن کرکوبہادری کادعوی درست ہے یایہ کہ یہ پوری ملت کو بزدلی کا تمغہ تھما دینا چاہتے ہیں۔
افسوس کشمیرکی عظیم قربانیاںقزاقوں کی شکار ہوگئیں ہیں۔ایمان ،عہدوپیمان اور اخلاقی اقدار کا جائزہ لیں گے تو یقینا کف افسوس ملنے کے سواکوئی چارہ نہیںرہتا۔ساری قربانیاں، محنت وجفا کشی ضائع ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔عصرحاض کے متنوع فتنوں میں سے ایک فتنہ غلامی کی زندگی اختیارکرنے والی قوم کی ترقی کادعویٰ ہے ،غلامی میں تعمیرکبھی نہیں ہوتی بلکہ سب اقداراورسب کچھ تحلیل ہوجاتاہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ غلامی کی سلاسل اور بیڑیاں توڑ دی جائیں، مفادات کو پرے کیا جائے، جزوی باتیں دیوار سے مار دی جائیں،اپنی دائمی عزت و توقیرکی بحالی کے لئے اپنی جدوجہدآزادی کاتن ،من اودھن سے ساتھ نبھایاجائے ۔بنیادی اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے کھوئے جارہے شعورکو پھرسے بیدارکیاجائے تو یقینا وہ خواب ضرورشرمندہ تعبیرہوجائے گاجوہم نے دیکھاہے ۔

 

Comments are closed.